ہسپانوی ناول ’لاثار لیودے تورمیس‘ کا جائزہ


Shahzad Hussain Bhatti Lahore

لاثار لیودے تورمیس ہسپانوی ادب کا ایک شاہکار ناول ہے جسے سولہویں صدی میں ایک نامعلوم ادیب نے قلم بند کیا۔ معلوم ریکارڈ کے مطابق پہلی بار یہ 1554 میں چھپا۔ 1559 میں ہسپانوی کلیسا کی عدالت نے ناول پر پابندی عائد کر دی کیوں کہ اس میں کلیسا کے نمائندوں کو ہدف تنقید بنایا گیا تھا۔ ناول نے اتنی مقبولیت پائی کہ اس کا ترجمہ دنیا بھر کی زبانوں میں کیا گیا۔ اس کا پہلا انگریزی ترجمہ 1576 میں ڈیوڈ رولینڈ نے کیا تھا۔ اردو میں اس کا ترجمہ محمد سلیم الرحمٰن نے ’چلتا پرزہ‘ کے نام سے کیا جو 2016 میں شائع ہوا۔ یہ ایک مختصر ناول ہے جس کے 75 صفحات ہیں اور یہ سات ابواب پر مشتمل ہے۔ سلیم الرحمٰن نے ناول کو جو نام دیا ہے وہ یقیناً موضوع سے مطابقت رکھتا ہے۔

ادبی حلقوں میں یہ بات زبان زد عام ہے کہ یہ ناول پکارسک ادب کا اولین نمونہ ہے جو نشاۃ ثانیہ کے دَور کی سماجی و مذہبی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے۔ ادبی اصطلاح میں پکارسک ایسی صنف کو کہتے ہیں جس میں ایک معمولی اور آوارہ شخص کی کہانی کو مختلف قصے جوڑ کر ترتیب دیا جاتا ہے۔ جس میں وہ سماجی مشکلات کو عقلمندی سے حل کرتے ہوئے زندگی گزارتا ہے۔ وہ اس جستجو میں رہتا ہے کہ زندگی مختلف تجربات سکھاتی ہے مگر اصل مقصد زندہ رہنے کی کوشش کرتے رہنا ہے۔

ناول کی کہانی ایک غریب لڑکے لاثار لیودے تورمیس کے گرد گھومتی ہے۔ ناول کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں ایک عام شخص کی بقا کی کوشش کے ذریعے ہسپانوی سماج اور مذہبی نظام کی ستم گری کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ مرکزی کردار کی پیدائش ایک ایسے گھرانے میں ہوتی ہے جو کسمپرسی کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اس کی والدہ اپنا بوجھ کم کرنے کے لیے اُسے ایک اندھے آدمی کے حوالے کر دیتی ہے جو اُسے اپنی خدمت پر معمور کر لیتا ہے۔ یہ ناول اُس کی مختلف آقاؤں کی چاکری کرنے اور اُن کے ساتھ حقیرانہ زندگی گزارنے کے گرد گھومتا ہے۔

آقاؤں کی حرص، فریب اور کنجوسی کی وجہ سے بے چارہ لاثار لیودے تورمیس ہمیشہ پریشان اور خالی پیٹ رہتا ہے۔ خوراک کی تلاش میں وہ چوری اور دھوکہ دہی جیسے حربے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ یہی وہ واقعات ہیں وہ تحریر کو دل چسپی کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اُس کا وقت جس کسی کے ساتھ بھی گزرا نئے سبق سکھاتا رہا اور وہ معاشرے کی تلخ حقیقتوں سے آگاہ ہوتا رہا۔ اُس کی زندگی مشکل تھی مگر پھر بھی وہ چالاکی سے مشکلات کا حل نکالتا رہا اور زندگی کی بقا کی جنگ لڑتا رہا۔ لاثار لیودے کی جدوجہد کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے کہ کس طرح ایک عام نوجوان معاشرتی ناانصافیوں کے باوجود زندہ رہ سکتا ہے۔

ناول کا پسِ منظر ہسپانوی نشاۃ ثانیہ کے گرد گھومتا ہے۔ یہ وہ دَور ہے جب یورپ کا معاشرہ تقسیم کا شکار تھا۔ ہر طرف مذہبی ریاکاری اور سماجی استحصال تھا۔ ناول میں خاص طور پر مذہبی نمائندوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔ مصنف نے خاص طور پر پادریوں اور دیگر مذہبی رہنماؤں کے کردار کو خود غرض اور ظالمانہ قرار دیا ہے۔

ناول کے اسلوب کی بات کی جائے تو یہ منفرد ہونے کے ساتھ ساتھ عام فہم بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول نے قارئین میں مقبولیت حاصل کی۔ مصنف نے ناول کو تحریر کرتے وقت ضمیر واحد متکلم کا طریقہ اختیار کیا ہے یعنی مرکزی کردار خود اپنی کہانی بیان کرتا ہے۔ اس تصنیف کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا اندازِ تحریر طنزیہ ہے۔ اس میں معاشرتی و مذہبی مسائل پر ہلکے پھلکے انداز میں تنقید کی گئی ہے۔ مصنف نے بڑی چابک دستی سے سولہویں صدی کے ہسپانوی معاشرے کی سماجی ریاکاریوں اور بدعنوانیوں کو قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔

مختصر ناول ہونے کے باوجود مصنف نے کردار نگاری میں کمال فن کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے اس دَور کے ہسپانوی سماج کی طبقاتی تقسیم اور اخلاقی پسماندگی کو مضبوط کرداروں کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔ مرکزی کردار لاثار لیودے عام سا غریب لڑکا ہے جو زندگی کے مصائب کا سامنا کرتے ہوئے طبقاتی و مذہبی نظام کا شکار بنتا ہے۔ مصنف نے نابینا شخص، پادری اور اسکول ماسٹر جیسے کرداروں کو مذہبی و سماجی نظام کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ ظاہری طور پر وہ بڑے سلیقہ مند اور مددگار دکھائی دیتے ہیں مگر اُن کا باطن بدعنوانیوں اور خودغرضی سے بھرپور ہے۔ مصنف نے اُن کے حقیقی چہرے دکھانے کی کوشش کی ہے کہ عام طور پر جو لوگ عزت دار سمجھے جاتے ہیں درِ پردہ وہ منافقت اور ظالمانہ رویوں کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔

مصنف نے جہاں سماج پر اعتراض اٹھایا وہیں مذہب جو اس زمانے میں بہت زیادہ اثر و رسوخ رکھتا تھا کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وہ پادریوں کے غیر انسانی رویوں اور خود غرضی کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ مذہبی نمائندے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر انسانوں کا استحصال کرتے ہیں اور اس میں وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔

تبصرے کا اختتام یوں کرتے ہیں کہ مختصر تحریر ہونے کے باوجود یہ ناول ایک بے مثال ادبی تخلیق ہے۔ ناول کی خوب صورتی ہے کہ اتنی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی شہرت میں کمی نہیں آئی۔ ہر چند کہ ناول طنز و مزاح سے بھرپور ہے مگر اس کے موضوعات سنجیدہ اور سنگین ہیں۔ اسے اس کے سماجی اور مذہبی پہلووں پر تنقید کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ میرے مطابق اس ناول کا سب مثبت پہلو یہ ہے کہ انسان کو مشکلات کے باوجود خندہ پیشانی اور بصیرت سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔

عالمی کلاسیکی ادب کے شوقین اس مختصر مگر جامع تصنیف کو اپنی کتابوں کے ذخیرہ میں ضرور شامل کریں۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments