بیگم اختر: زندگی اور غزل کا استعارہ


بیگم اختر نے غزل کو محض گایا نہیں، بلکہ اسے بسر کیا تھا۔ ان کی غزل گائیکی ایک پوری صدی پر چھائی ہوئی ہے، جس نے ہندوستان میں گائیکی کا ایک نیا اسلوب متعارف کروایا۔ روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک پل باندھتے ہوئے، انہوں نے غزل اور اس کی گائیکی کو گراموفون سے جوڑ دیا۔ بیگم اختر کا انتقال 30 اکتوبر 1974 کو احمد آباد میں ہوا، جب ان کی عمر 60 برس تھی۔ اس برس ہم ان کی پچاسویں برسی منا رہے ہیں۔

بیگم اختر ایک ایسے دور کی نمائندہ تھیں جب موسیقی خواص کی محفلوں سے نکل کر ریڈیو اور گراموفون کے ذریعے عوام کی دسترس میں آ چکی تھی اور خواتین گلوکارائیں مردوں کی اجارہ داری کو چنوتی دینے کے لیے تیار تھیں۔ گراموفون نے موسیقی کو گھر گھر پہنچایا اور خواتین فنکاروں مثلاً جدن بائی، کیسر بائی کیرکر، گوہر جان، رسولن بائی اور ایم ایس سبھالکشمی جیسی خواتین فنکاروں نے مرد گلوکاروں کے غلبے کے باوجود اپنی اپنی پہچان بنائی اور موسیقی کی دنیا میں خواتین کے لیے راہیں ہموار کیں۔

اپنی زندگی کے آخری برسوں میں، اختری نے ایک اور روایت توڑی اور شانتی ہیرانند، انجلی بینرجی اور ریتا گنگولی جیسی نوجوان گلوکاراؤں کو تعلیم دینے لگیں۔ ان کی یہ سب شاگرد ان کی شیدائی تھیں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی تھیں۔

اختری ایک ایسی باغی روح تھیں جنہوں نے مغلیہ دور کی طوائفوں کی ثقافت کو زندہ رکھا، جسے برطانوی دور کی اخلاقیات اور گاندھیائی اثرات مٹانے کے درپے تھے۔ اختری نے اس روایتی طوائف کلچر کی لطافت کو نئے سرے سے اجاگر کیا اور اس کے اندر چھپی تہذیب اور فن کی نفاست کو دوبارہ زندہ کیا۔

کہا جاتا ہے کہ اختری کے پاس دولت اور شہرت دونوں تھیں، مگر وہ ہمیشہ عزت کی متلاشی رہیں، شاید یہی چیز ان کی زندگی میں اکثر تضادات کا باعث بنی۔ ان کے پاس جب شہرت اور دولت آئی تو انہوں نے کسی چوک میں کوٹھا کھولنے کے بجائے 1930 کی دہائی میں لکھنؤ کے مشہور علاقے حضرت گنج علاقے میں اپنا محل نما گھر بنایا۔ انہوں نے طوائفوں کا محلے کا رخ بھی نہیں کیا۔ وہ اپنی شناخت کو اس سماجی داغ سے پاک کر لینا چاہتی تھیں۔ لیکن وہ اپنے ماضی، امیر خسرو، میر تقی میر، غالب اور ہندوستانی لوک سنگیت سے کبھی دور نہ ہو سکیں۔ غزل، ٹھمری، دادرا، چیتی، ساونی، نعت اور مرثیہ ان کی موسیقی اور ان کی زندگی کا حصہ بنے رہے۔ انہوں نے ایک خوبرو وکیل اشتیاق احمد عباسی سے شادی کرلی، جو لکھنؤ کے ایک قدامت پسند گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔

شادی کے باوجود ان کی زندگی میں ایک حیران کن تضاد ہمیشہ موجود رہا۔ وہ دوستوں کی محفلوں میں شرکت کرتیں، وہسکی پیتیں اور 555 برانڈ کی سگریٹ کا دھواں اڑاتیں، لیکن یہ بھی تھا کہ انہوں نے گانا چھوڑ دیا تھا کیونکہ ان کے شوہر نے ان سے اس کا وعدہ لیا تھا۔

1914 میں فیض آباد، اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والی اختری نے پہلی بار 1924 کے بہار زلزلے کے متاثرین کے لیے چندہ جمع کرنے کے لئے گایا تھا، جب ان کی عمر محض 10 برس تھی۔ ان کی والدہ مشتری بائی نے، جو خود ایک گائیکہ اور سخت گیر ماں تھیں، ان کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا۔

بیگم اختر نے استاد عطا محمد خان اور استاد عبد الوحید خان سے کلاسیکی موسیقی سیکھی، لیکن وہ خیال گائیکی کی طرف زیادہ مائل نہ تھیں۔ انہیں ہمیشہ غزل، دادرا اور ٹھمری نے اپنی طرف کھینچا، شاید ان کا دل اودھ کی گنگا جمنی ثقافت سے جڑا ہوا تھا۔

غزل نے انہیں اردو زبان کی نفاست کے قریب تر کیا، جبکہ دادرا اور ٹھمری نے انہیں ان کی جڑوں یعنی برج اور بھوجپوری سے جوڑا۔ ان کے گائے ہوئے نغمے مثلاً ’کوئلیا مت کر پکار‘ اور ’چھا رہی کالی گھٹا‘ 1940 کی دہائی میں ہر دل کی دھڑکن بن گئے۔

کلکتہ کے پارسی تھیٹر اور فلموں سے ان کی وابستگی مختصر مگر یادگار رہی۔ انہوں نے آٹھ فلموں میں کام کیا، جن میں محبوب خان کی یادگار فلم ’روٹی‘ ( 1942 ) بھی شامل تھی۔ لیکن جلد ہی وہ فلمی دنیا کو چھوڑ کر اپنی ماں اور استاد کے اصرار پر دوبارہ موسیقی کے ریاض کی طرف واپس آ گئیں۔

اگرچہ بیگم اختر خالص خیال گائیکی نہیں گاتی تھیں، مگر انہوں نے اس کی تکنیک کو اپنی غزلوں اور ٹھمری میں شامل کیا۔ ان کی غزلوں میں گہرائی اور روحانیت پائی جاتی تھی، اور انہوں نے غزل گائیکی کو وہ مقام دلایا جو اس سے پہلے نہیں تھا۔

آج، بیگم اختر کو ہم غزل گائیکی کی بنیاد گزار ہستی کے طور پر یاد کرتے ہیں، جنہوں نے اس فن کو کوٹھوں سے نکال کر عوامی محفلوں تک پہنچایا اور اردو شاعری کو ایک نئی جان بخشی۔

(پچاسویں برسی پر ایک خراج تحسین)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments