نظارے ایک بستی کے


گل بانڈئی نام ہے خیبر پختونخوا کی وادی سوات میں ایک حسین و جمیل بستی کا، جو یہاں کے ضلعی صدر مقام سیدو شریف سے کوئی دس کلومیٹر دور مرغزار روڈ پر ندی کنارے واقع ہے۔ ’گُل‘ پھول اور ’بانڈئی‘ پوشاک کو کہتے ہیں یعنی پھولوں کی پوشاک۔ واقعی، کائنات کے اِس قطعۂ زمین کو قدرت نے پھلدار پودوں، پھولوں اور سبزے کا جامہ حساب کتاب سے کچھ زیادہ زیب ِتن کروایا ہے، جس کی وجہ سے یہاں انسانوں کا کم اور چرند پرند کا راج زیادہ ہے۔ چڑیاں، طوطے، کو ّے مینائیں، بلبل وغیرہ کے علاوہ درجنوں اقسام کے دیگر پرندے یہاں کے ایکو سسٹم کا حصہ ہیں۔ فطرت کے حسین رنگوں سے مزین یہ قصبہ آج کل خزاں کے نرغے میں ہے۔ اس کی یہ شان بھی نرالی ہے، جو پت جڑ کی کیفیات میں بہاروں کا سماں باندھ رہی ہے۔ تیرہ اکتوبر کی سہ پہر یہاں پر فضا اتنی گرد آلود نہیں جتنی اِس مہینے اور خشکی کے موسم میں عمومی طور پر ہونا چاہیے۔

آج ہم اِس بستی کے مکین اور قومی سطح کے جانے مانے آرکیٹیکٹ شوکت شرر کے مہمان ہیں۔ پروفیسر محمد روشن اور ہم بہ نفسِ نفیس سب سے پہلے یہاں پہنچنے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں۔ ابھی چند مہمانوں سمیت شہر سے میزبان کی آمد کا بھی انتظار ہے تو وقت گزاری کے لیے پہاڑی ڈھلوان پر بنے ڈیرے کی منڈیر پر بیٹھ کر گرد و پیش کے مناظر پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہاڑی سے نیچے دیکھتے ہیں تو درہ مرغزار سے آنے والے ندی کا آلودہ پانی کہیں رُکا، کہیں ٹہلتا ہوا نظر آ رہا ہے جو اِن دنوں اتنا کم ہے کہ انسانوں کی پھیلائی گندگی کا بوجھ بہا کر دریائے سوات پر ’بار‘ کرنے کی سکت بھی نہیں ہے اس میں۔ کلائمیٹ چینج کے جاری ہَلّہ گُلّہ میں طوفانی بارشوں کے دوران یہ ندی اتنی غضب ناک ہو جاتی ہے کہ مینگورہ سیدو شریف کے اسرار و رموز کو اُلٹ پلٹ کر دیتی ہے اور پھر مارے پشیمانی کے دریا کی پناہ میں پہنچ کر اپنی پہچان گنوا دیتی ہے۔

اپنی پیشانی کے عین سامنے مرغزار سڑک کے اُس پار ننگی پہاڑی دکھائی دیتی ہے جس پر شجرکاری کے سونامی منصوبے کے علاوہ ماضی بعید میں بھی لاکھوں پودے لگائے گئے ہیں، یہ محکمہ جنگلات کی مہربانی ہے، ماشاءاللہ۔ ہاں، وہ الگ بات کہ یہ پودے انسانی آنکھ کو نظر نہیں آ رہے، کیونکہ یہ پہاڑی کے نہیں، صرف فائلز، ملٹی میڈیا رپورٹس اور کاغذات کی زینت ہیں۔ بظاہر یوں لگتا ہے جیسے قدرت نے گلوبل ولیج کا یہ حصہ بیرون کے شور شرابے سے باپردہ و پُرسکون رکھنے کا بیڑہ اس پہاڑی کے توانا کندھوں کو تفویض کیا ہو۔

گردن کو ہولے ہولے دائیں جانب موڑتے ہیں تو پڑوس کے ایک پہاڑی ٹیلے پر آباد گاؤں سپل بانڈئی، جو قریب قریب دو ہزار گھروں پر مشتمل ہے، پوری وادی پر اپنے روایت پسندی کا راج جتاتا نظر آتا ہے۔ یہاں کی تین سو سالہ پُرانی جامع مسجد کی عمارت قدامت کا اچھوتا نمونہ ہے جس کے کھڑکیوں اور دروازوں میں بھینی بھینی خوشبو والی دیودار کی سنہری لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے۔ سواتی کاریگروں نے دلکش کشیدہ کاری کر کے اِن کی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہیں۔ پاکستانی سرخ فیتہ کے سوات پر پنجے گاڑنے کے بعد نصف صدی گزر گئی ہے لیکن یہاں ککھ بھی نہیں بدلا۔ پُرانے زمانے کی ہٹیاں، تنگ گلیاں، پتھر کے در و دیوار، دیواروں پر لگے گوبر کے اپلے، روایتی گھر، مویشیوں کے باڑے، چھوٹے چھوٹے کھیت کھلیان اور اُس میں کام کرنے والے دیہاتی، یہاں کی زندگی کی داستان ہے۔ اِس دور میں اِن بستیوں کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ پاکستان کے حدودِ اربعہ اور ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں، ووٹ ووٹ کے کھیل کود کے علاوہ۔ ہوتیں تو پچپن سال سے جاری پاکستان کی ریاستی تحویل میں اور کچھ نہیں، آمد و رفت کے لئے کوئی ڈھنگ کی سڑک تو بنی ہوتی، کوئی ڈسپنسری موجود ہوتی، بچیوں کے لئے کوئی اچھا تعلیمی ادارہ تو ہوتا، بس مٹی پاؤ اِن باتوں پر۔ تو ہاں، جنوبی منظر کی کیا بتائیں، جہاں مرغزار نام کا ایک دیہات ہے، جس کے مکین ایک زمانے سے اپنی اِس ”معاشی و معاشرتی مسکن“ میں ساکت و جامد جی رہے ہیں۔ یہاں کے قناعت پسند باسی اپنی حالت پر خوش ہیں۔ سابقہ ریاست ِسوات کے والی کا یہ گرمائی ہیڈ کوارٹر اب کیا منظر پیش کرتا ہے؟ یہ جاننے سے نہ جاننا بہتر ہے۔ تاہم، یہاں پر موجود اُس شاہی محل کے کھنڈرات اور در و دیوار اب بھی لوگوں کو اپنی عظمت کے قصے کہانیاں سنانے تیار کھڑے ہیں۔ گویا، دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

ہم گل بانڈئی کے گرد و پیش کا احوال بتا رہے تھے اور سورج کی پژمُردہ کرنیں ’کاشانہ شرر‘ سے بوریا بستر لپیٹ کر سامنے والی پہاڑی کی پناہ میں چلی گئی ہیں، اب شام کا دلفریب دھندلکا پھیلنے لگا ہے۔ ایسے میں گاہے بگاہے، آنے والے مہمانوں کی کوئی گاڑی کچی سڑک کا طویل آسمانی موڑ چڑھتے چڑھتے خاموش ماحول میں ارتعاش پیدا کرتی ہے اور گرد و غبار اُڑاتی ہے۔ میرے ساتھ بیٹھا پروفیسر یہ گرد و غبار سگریٹ کے دھوئیں کے جلو میں آنتوں، پھیپھڑوں اور گردہ کلیجی کی گہرائی سے گزارتا ہوا کچھ عرصے بعد واپس نتھنوں کے ذریعے سے برآمد کرتا ہے۔ کچھ گرد اور دُھواں مل جُل کر مشترکہ طور پر اُس کے سِر کے چند نُمائشی بالوں سے فلٹر ہوتے ہیں کچھ آنکھوں کو ودیعت ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں اُس کی آنکھوں میں وقفے وقفے سے آنسو کے قطرے بنتے ہیں، جو کچھ چھلکتے ہیں کچھ پپوٹوں میں ریزرو رہ جاتے ہیں۔ جن کو دیکھ کر ہمیں وادی کاغان میں جھیل سیف الملوک کے پاس واقع ایک جھیل یاد آ جاتی ہے، جو پانی کے قطرے جیسی شکل کی وجہ سے آنسو جھیل کے نام سے مشہور ہے۔ ہم نے وہی حالت دیکھی تو نہیں لیکن وہاں کے لوگوں سے سُنا ہے کہ سردیوں کے دوران یہ جھیل بیچ میں آنکھ کی سفیدی کی طرح برف سے جم جاتی ہے اور دھوپ میں اس کے کناروں پر پانی آنسوؤں کی طرح بہتا ہے جس سے یہ آنکھ کی پتلی سے نکلنے والے آنسو جیسی لگتی ہے۔ بہرحال پروفیسر کے اشک دیکھ کر ہمیں آنند نرائن ملا کا ایک بھولا بسرا شعر یاد آ تا ہے۔

رونے والے تجھے رونے کا سلیقہ ہی نہیں
اشک پینے کے لئے ہیں کہ بہانے کے لئے

لو جی، ہواؤں میں ٹھنڈ کا تڑکا بڑھنے لگا، تاریکی کے سائے پھیل گئے ہیں، جگہ جگہ بجلی کے بلب ٹمٹمانے لگے، گھروں میں لگے تندوروں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے، کتّوں نے اپنی چوکیداری کے فرائض سنبھال لیے ہیں اور ہم ایک نہ ختم ہونے والے تذکرے میں اُلجھے ہیں۔ اکثر دوست گل بانڈئی پہنچ گئے ہیں اور ڈیرے کے ایک ہال میں فرشی نشستوں پر براجمان بھی ہو چکے ہیں۔ عشق و محبت کی توجیہہ و تشریح پر ’اِنفارمل‘ گفتگو کے ساتھ مدھر موسیقی کی آوازیں بھی بیرون میں آنی شروع ہوتی ہیں، تو ہم بھی چسکے لینے کے لیے فوری طور پر منڈیر سے اُٹھ کر ٹہلتے ٹہلتے ہال کی طرف قدم رنجہ فرماتے ہیں۔ جہاں برآمدے میں باربی کیو کے لیے دھکتے ہوئے کوئلوں کے الاؤ کی وجہ سے بڑی آرام دہ گرمی محسوس ہوتی ہے۔

ایک طرف ہمارے برخوردار سازخان آلاتِ موسیقی سمیت اپنی آواز کا جادو جگانے اونچے تخت پر تشریف فرما ہیں۔ باقی تین اطراف میں بچھے فوم اور تکیے خود ہی مہمانوں کو بیٹھنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ محفلِ موسیقی کی شروعات کے ساتھ ہی ’زائرینِ گل بانڈئی‘ کو خورد و نوش کی توانائی بہم پہنچانے کے لیے بیچ میں ایک وسیع دسترخوان بھی بچھایا جاتا ہے۔ محی الدین غازی اپنے کسی مضمون میں ایک کہاوت کی بات کرتے ہیں کہ ”دسترخوان نہ بچھے تو ایک عیب اور بچھے تو سو عیب“ ۔ ہمارا ماننا ہے کہ دسترخوان بچھے تو بہت خوب، نہ بچھے تو کوئی عیب نہیں، کیونکہ کھانے پینے کا معاملہ تو بغیر دسترخوان بچھائے بھی انجام دیا جا سکتا ہے، بس بھوکے کو کیا چاہیے، بتیس دانت، تاکہ وہ ان کا استعمال بھرپور انداز میں کر سکے۔ ہم یہی سوچ رہے ہیں اور اتنے میں بستی کے تازہ جاپانی پھل، فرانسیسی قسم کے خوش ذائقہ علاقائی سیب، شانگلہ کے آملوک، ذائقہ دار ناشپاتی پڑاوؤ، لوکل پاپ کارن کے ساتھ پیکان کا مغز، سلاد اور دیسی مرغے کے گرم گرم سوُپ سے دسترخوان سجایا جاتا ہے۔ جس پر ہاتھ صاف کرتے ہیں تو مکئی کی نرم گرم روٹی، ساگ، ، مکھن دیسی گھی اور دہی کی شفٹ اگلے مرحلے میں شروع۔ اللہ خیر کرے، ابھی تو پیٹ پوجا کے امتحان اور بھی ہیں۔

جہاں سچے رشتے یاریوں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناریوں کے
جہاں جھرنے کومل سُکھ والے
جہاں ساز بجیں بِن تاروں کے
چل اِنشاء اپنے گاؤں میں
بیٹھیں گے سُکھ کی چھاؤں میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments