گلوبل ویلج، تاریخی سنگ میل
مدرسری نظام کے خاتمے کے بعد دنیا ہزاروں سال سے جنگ و جدل، نفرت، خون اور تباہیاں دیکھ رہی ہے۔ دنیا کے باسی زمین، زمینی وسائل اور طاقت کی حفاظت کرتے ہوئے کروڑوں کی تعداد میں جان کی بازی ہار گئے۔ آہیں سسکیاں ہواؤں میں گھل گئیں، درد و تکلیف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیا، کئی نسلیں اور پیڑھیاں اسی طرح سے سخت مصیبتیں جھیل کر سسک سسک کر گزر گئیں، جنہوں نے چالیس سے پچاس سال کی عمریں پائیں اور پوری دنیا میں صرف جنگ و نفرت کے سوا کچھ نہیں دیکھا۔ وہ اس دنیا سے نفرت، غم اور تکلیف کے سوا کچھ نہ لے جا سکے۔
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے واقعات دنیا کے لیے ایسے سانحات تھے جنہوں نے عالمی دنیا کو ہلا کے رکھ دیا اور ان دونوں جنگوں میں کروڑوں کی تعداد میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ ان دونوں عالمی جنگوں میں مہلک و آتشیں ہتھیار کا استعمال کیا گیا جو کہ ماضی میں نہیں ہوا تھا۔ ماضی میں تلوار نیزے بھالوں کا استعمال انسانیت کی خاتمے کے لیے اتنا پراثر اور مہلک نہ تھا جتنا ان دو جنگ عظیم میں جدید ہتھیاروں کے استعمال سے ممکن ہوا، بحیثیت انسان ایسے تمام افراد جنہوں نے اس دور میں جنم لیا ان کا بھی یہ حق تھا کہ وہ بھی دنیا کی خوبصورتی دیکھیں اور قدرت کی بنائی ہوئی اس تخلیق سے لطف اندوز ہوں۔ آج بھی دنیا میں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں وہی جنگ و جدل کی صورتحال ہے مگر یہ صورتحال مخصوص علاقوں تک محدود ہے اور ہماری دعا ہے کہ وہاں بھی امن اور سلامتی ہو اور محبت کے چراغ جل اٹھیں۔
جنگ و جدل کے زمانے میں انسانوں کی عمریں تیس سے چالیس سال بمشکل ہوا کرتی تھیں لڑائی جھگڑوں سے کئی مختلف بیماریوں کا شکار ہو جانا، جنگ میں لگی ہوئی معمولی چوٹوں کا انفیکشن ہو جانا، محلاتی سازشوں کا شکار ہو جانا، سیاسی چالبازیوں کی نذر ہوجانا، اور جنگ کے میدان میں جان ہار جانا ان کی مختصر حیات کی وجوہات تھیں۔ غرض یہ کہ قدرت نے انسان کی جو عمر رکھی تھی وہ اس سے کم عمر میں یہ دنیا چھوڑ جاتے تھے۔ انسان اس جنگ و جدل اور نفرت کو ہزاروں سالوں سے نہ صرف دیکھ رہا ہے بلکہ اس کے اثرات بھی بھگت رہا ہے اور ان صدیوں میں جنگی مسائل اور اثرات کے دوران انسان نے بے شمار مختلف قسم کی وباؤں سے بھی جنگ کی ہے جو کہ ان جنگی اثرات کا نتیجہ بھی تھیں اور کچھ فطرت کی کارستانیاں بھی تھیں۔
مگر اب انسان کو اندازہ اور احساس ہو چلا ہے کہ سکون اور طمانیت کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ موجودہ دور میں کرونا وائرس کے حملے کے بعد پوری دنیا کے افراد ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے ہیں کہ اب ان کی ایک دوسرے سے دوری ممکن نہیں۔ مارشل میک لوہان کا یہ نظریہ کہ ”دنیا ایک دن گلوبل ویلج بن جائے گی“ کا باقاعدہ طور پر آغاز کووڈ 19 کے بعد ممکن ہوا۔ کاروبار، محبت، ادب، تعلقات و معاملات سب ایک اینڈرائڈ موبائل کے ذریعے ون ٹچ کی دوری پر آ گئے ہیں۔ ایک ایسا گلوبل ویلج، (جیسا کہ میک لوہان نے پیش کیا ہے ) ، جہاں ایک ایسی صورت حال ہے جو جدید ٹیکنالوجی دنیا بھر کے تمام لوگوں کو جوڑ دے گی۔ اس باہمی ربط کا مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر کے لوگ جسمانی طور پر قریب نہ ہونے کے باوجود بھی معلومات اور تجربات سے رابطہ اور اشتراک کر سکتے ہیں۔ مارشل میک لوہان میڈیا اسٹڈیز میں ایک اہم شخصیت ہیں۔ 1980 میں ان کی وفات ہوئی انھوں نے کبھی انٹرنیٹ نہیں دیکھا لیکن میڈیا کے بارے میں ان کی یہ تھیوری حیرت انگیز ثابت ہوئی۔
دنیا میں اس وبا کے بعد ایک نیا دور شروع ہوا ہے اور یہ دور تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھنے جا رہا ہے جس میں اکثریت کو کسی کے مذہب، تہوار، ثقافت، روایت اور معاملات سے کسی بھی قسم کا کوئی سروکار نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ملکوں میں رہنا چاہتے ہیں۔ ایک دوسرے کی ثقافت مذاہب اور تہوار کا احترام کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا ایک شاندار عالمی گاؤں بننے جا رہی ہے جس کی نشان دہی مارشل نے کی تھی ایک دوسرے کو پہچاننے، سمجھنے اور قریب ہونے کے بعد پتہ چلا کہ ہم سب ایک خوبصورت روایات، رسومات، لسان اور اخلاقیات میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے سے معلومات اور ثقافت کے تبادلے جدید دنیا کے لیے خوش آئند ہے۔ وہ ممالک جو ثقافت زبان اور مذہب کے نام پر بنائے گئے تھے ان کے عوام پر ان عناصر کے جھوٹ کی قلعی کھل گئی ہے جو انھوں نے خود ساختہ بنائی تھی۔
یہ دور ایک نئی دنیا کی شروعات کرنے کو ہے۔ ایک سو نہیں دو سو نہیں مگر امید ہے کہ تقریباً تین سے چار سو سال میں یہ گلوبل ویلج بن جائے گی۔ جس طرح ایک مواصلاتی نظام ہمیشہ سرحدوں سے بالاتر رہا ہے اسی طرح آنے والے وقتوں میں یہ دنیا مذہب، زبان، ثقافت اور سرحدوں سے بالاتر ہو جائے گی۔
- گلوبل ویلج، تاریخی سنگ میل - 03/11/2024
- ہائے بلھیا ترے شہر (پنجاب) نوں نظر لگ گئی - 17/09/2024
- جنسی جرائم: وقت کرتا ہے پرورش برسوں - 12/09/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).