کیا ڈالر پسندی حب الوطنی کے خلاف نہیں؟


محبانِ وطن کے لیے یہ سوال بہت اہم ہے کیوں کہ ڈالر پر انحصار نے وطنِ عزیز کی معیشت اور عوام کو بے شمار دکھوں میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ڈالر پر منحصر معیشت ہی کا کرشمہ ہے کہ ڈالر کمانے کے چکر میں حب الوطنی کا جذبہ ڈانوا ڈول ہو جاتا ہے۔ ڈالر کے ”موڈ سونگز“ یعنی ڈالر کی قدر میں اتار چڑھاؤ سے ہماری معیشت خواہ مخواہ متاثر ہوتی ہے۔ غریب مزدوری لے کر دال چاول لینے پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ڈالر ”اوپر“ چلا گیا ہے جس سے اس کی کمائی ”نیچے“ جا چکی ہے۔ بطور شہری عام آدمی نے شاید اپنی اس ذاتی اور وطنی تحقیر و تذلیل کا تجزیہ کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ورنہ خود مختاری اور آزادی کے چراغ کبھی نہ بجھتے۔

دنیا کی وہ تمام معیشتیں جو ڈالر پر انحصار کرتی ہیں وہ کبھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتیں کہ وہ اپنی معاشی پالیسیاں بنانے میں آزاد ہیں۔ ایسی معیشت مہنگائی میں کمی کا دعویٰ تو کر سکتی ہے، مداوا نہیں کر سکتی۔ اس کی مقامی صنعتوں پر زوال اور بیرونی قرضوں کا جال ہمیشہ رہتا ہے۔ جب معیشت ہی سب کچھ ہے تو پھر حب الوطنی کے مفہوم میں اپنے ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا کیوں شامل نہیں۔ کیا ڈالر پر اعتماد اور حب الوطنی کے دعوے میں تضاد نہیں۔ قول اور فعل کا تضاد اخلاقی برائی تو ہے البتہ مادی ناکامی کا سبب بھی ہے۔ اسی لیے بہت سے ملک ڈالر کے غلبے کو چیلنج کر رہے ہیں۔

ڈالر کی اجارہ داری اور غلبہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوا جب امریکی ڈالر اہم ترین زر مبادلہ بن گیا۔ دنیا کے اکثر ملک اپنا زر مبادلہ ڈالر کی شکل میں رکھتے ہیں اور بین الاقوامی لین دین اور عالمی تجارت میں زیادہ تر ڈالر ہی استعمال کرنے کا رواج ہے۔ عالمی تجارت کی اس ڈالرائزیشن سے امریکا کو بہت سے فوائد اور برتری حاصل ہے مثلاً امریکا سستا اور آسان قرضہ حاصل کر سکتا ہے اور دوسرے ملکوں پر پابندیاں لگا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ملکی سلامتی کے تحفظ کی خاطر کئی ملک ڈالر کے غلبے کو چیلنج کر رہے ہیں اور متبادل زرمبادلہ کے لیے نظام بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاہم ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔

بہت سے ملکوں میں مختلف سطحوں پر متبادل زرمبادلہ کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں تاہم چین کا نام سرفہرست ہے۔ چینی غیر ملکی زرمبادلہ کی شرح ابھی تک پانچویں نمبر ہے۔ غیر ملکی کرنسی ذخائر میں امریکی ڈالر کا حصہ 60 فیصد ہے جبکہ چینی یوآن کا حصہ ڈھائی فیصد ہے۔ اس کے باوجود چین ڈالر اجارہ داری کے لیے چیلنج بن سکتا کیوں کہ ڈالر ذخائر میں سب سے زیادہ حصہ چین کا ہے جو تین ٹریلین سے بھی زیادہ ہے۔ اس حوالے سے جاپان، انڈیا، روس، سعودی عرب، سوئٹزر لینڈ اور تائیوان بہت پیچھے ہیں۔

ڈالر کے غلبے کے خاتمے کے لیے کوششیں 2008 ء کے مالیاتی بحران سے شروع ہوئیں اور یوکرائن جنگ کے بعد ان میں خاصی تیزی آئی ہے۔ یوکرین جنگ کے بعد روس اور چین نے ڈالر کے متبادل پر کافی کام کیا ہے اور بہت سا لین دین یوآن میں ہو رہا ہے۔ امریکی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ چین، ڈالر کو چیلنج دینے کا اہل ہی نہیں ہے۔ بلاشبہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ چینی کرنسی یوآن عالمی مالیاتی نظام میں اپنا مقام بڑھا رہی ہے، تاہم فی الحال وہ امریکی ڈالر کا مکمل متبادل نہیں بن سکی۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ چینی حکومت یوآن کی قدر کو محتاط حکمتِ عملی کے تحت مستحکم رکھتی ہے تاکہ ملکی برآمدات کی مسابقت برقرار رہے۔ ساتھ ہی، چین اپنے مالیاتی نظام میں احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بانڈز میں سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرتا ہے، جس کا مقصد معیشت کو طویل مدتی استحکام دینا ہے۔

ان اقدامات سے اندازہ ہوتا ہے کہ چین یوآن کو عالمی کرنسی بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا بلکہ اس کی کوشش ہے کہ یوآن ملکی اور علاقائی سطح پر ایک مضبوط کرنسی بن جائے اور ڈالر پر اس کا انحصار کم سے کم ہو جائے۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ تبادلے کے خطرات کم ہوں گے اور مالیاتی بحران کے دنوں میں بھی عالمی مارکیٹ تک اس کی رسائی برقرار رہے گی۔ اس وقت بہت سی چینی اور روسی کمپنیاں اور کمرشل بینک باہمی لین دین یوآن میں کر رہے ہیں۔ اس باہمی بندوبست کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ یوکرین جنگ میں امریکا نے جب روس پر پابندیاں عائد کیں تو روس کے وہ ادارے جو ڈالر کے رحم و کرم پر نہیں تھے ان پر پابندیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا۔

چین اپنی بیرون ملک سرمایہ کاری اور دوسرے ملکوں سے تجارت، یوآن کے ذریعے ہی کرتا ہے۔ ڈالر کے غلبے کو ایک چیلنج ای کامرس بھی دے رہی ہے۔ اس وقت عالمی سطح پر ای کامرس کا حجم 6 ٹریلین سے زائد ہے اور اس میں صرف چین کا حصہ 3 ٹریلین ہے۔ ای کامرس میں چینی حجم سالانہ 10 فیصد کی شرح سے بڑھ رہا ہے اور یہ تمام ادائیگیاں یوآن میں ہوتی ہیں۔ اپریل 2003 ء میں جب یوکرین جنگ چھڑی تو یوآن کا عالمی ادائیگیوں اور تجارتی مارکیٹ میں حصہ 2.2 فیصد تھا۔ اب عالمی ادائیگیوں کی شرح 4 فیصد اور تجارتی مارکیٹ کی شرح 5 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ یوآن مزید مستحکم ہو گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ڈالر کا غلبہ ختم ہو گا جس سے طاقت کا توازن بدل جائے گا اور اس کے ساتھ ہی عالمی منڈی اور عالمی تجارت کی نئی شکل سامنے آئے گی۔ امریکا ڈالر کی اجارہ داری سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں کیونکہ اسے معلوم ہے کہ جیسے ہی عالمی کرنسی کا تاج ڈالر سے اترے گا، امریکی معیشت کی کارکردگی کی اصلیت بھی سامنے آ جائے گی۔ ممکن ہے کہ ڈالر کا غلبہ ختم ہوتے ہی امریکا کی سیاسی اور ثقافتی سامراجیت کا بھی خاتمہ ہو جائے۔ امید ہے ڈالر کی حکمرانی ٹوٹنے سے ڈالر کی محبت میں کمی آئے گی اور ڈالری اشرافیہ کی نظر ملکی معیشت پر بھی پڑے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments