چلتا پھرتا ٹی ہاؤس


یوں تو ریل کی سیٹی ہماری گھٹی میں شامل ہے کہ بابا مرحوم ایک زمانے ریل کے نوکر ہوا کرتے تھے۔ ہمارے گھر میں کوئی کلاک نہیں تھا۔ گاڑیوں کے ٹائم پر ناشتہ ہوتا۔ ماں آواز لگاتی اٹھو! ریل کار گزر گئی، تم ابھی سو رہے ہو۔ لنچ تیزگام کی آمد پر ہوتا۔ ڈنر خیبر میل کے ڈیپارچر پر۔ بچپن میں چھپن چھپائی ریل کے پرانے بوسیدہ انجنوں کے بیچ ہوا کرتی۔ خیر یہ تو غیر ضروری تمہید باندھی گئی ہے۔ بات یوں ہے۔

کل رات عقیل شیخ کہ جوتے بیچتے ہیں اور شعر کہتے ہیں۔ آپ حیران کیوں ہوتے ہیں شعر کہنے کے لئے کیا پی ایچ ڈی کرنی پڑتی ہے یا پروفیسر ہونا ضروری ہے، بالکل نہیں۔ بس عقیل شیخ کوئی خاص شیخ بھی نہیں پلے سے چائے پلاتے ہیں صرف محبت میں۔ بس اسی وجہ سے اس کے شیخ ہونے میں شک ہے۔ خیر ان کا فون آیا۔ بھائی جان! کچھ اداسی ہے اسٹیشن موڑ چلے آؤ۔ گزارش کی سواری نہیں ہے تو گھر سواری بھجوا دی، سو مجاہد علی یاسر کہ پروفیسر ہیں اور شعر کہتے ہیں ہمراہ ندیم ناجد کہ شاعری کے استاد ہیں اور شاعری کے علاوہ بھی شاعری ہی کرتے ہیں۔ دونوں احباب کے ہمراہ اسٹیشن موڑ کے کے ایک کیفے میں پہنچے تو، شان، کہ ویٹر ہیں بھاگے بھاگے سلام کرنے بمعہ دو کرسیوں کے تشریف لے آئے۔ وقاص وصفی شعری دنیا کا تازہ دم بچہ اور ریلوے پولیس کا جاوید پہلے سے چارپائی پر براجمان تھے۔ چارپائی ٹوٹی ہوئی مگر دل جڑے ہوئے تھے۔ دل جڑے ہوئے ہوں تو چائے بھی محبت کی طرح تازہ دم لگتی ہے۔ وہ چائے تو واقعی تازہ تھی۔ الائچی کی خوشبو اسے اور مزیدار کر رہی تھی دن کی دھوپ رات کی خنکی میں بدل رہی تھی۔ محبت کی باتوں میں رکشوں کا شور آتے جاتے مسافروں کی چاپوں کی دھمک اور ریل کی سیٹی کسی طور اثر انداز نہیں ہو رہے تھے۔

ہمارے بالکل سامنے فوارے کے پیچھے تبلیغی جماعت کا ایک گروہ سفید پگڑیاں، سفید لباس اور باریش افراد پر مشتمل اپنے سفری بیگ زمین پر رکھے بے نیازی سے اپنے امیر کا درس سن رہا تھا۔ ان کے اور ہمارے درمیان رکشوں کی قطار، آتے جاتے مسافر اور اکا دکا سرخ لباس میں ملبوس قلی حائل تھے۔ ان کی سادگی، خاموشی، تعلیم میں مگن اور استغراق کی کیفیت پر شعرائے کرام کی واہ واہ کوئی اثر نظر نہیں ہو رہی تھی۔ ہم دو مختلف طبقات کے لوگ گھروں سے نکلے ہوئے سکون کے متلاشی ٹھہرے۔ ہم سب میں مشترک ہماری بے چین روحیں ہوتی ہیں۔

شعری نشست کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا درود و نعت کے بعد وقاص وصفی نے اپنا کلام پیش کیا۔

ابھی ایک شعر ہی پڑھا تھا کہ ایک مسافر ہمارا تماشا دیکھنے آ دھمکا۔ ہم نے اسے وہ ٹوٹی کرسی پیش کی جو خالی پڑی ہوئی تھی۔ حوصلہ افزائی پا کر اس نے باقی کے تین ساتھیوں کو آواز لگائی ”ایدر آ جاؤ ایتھے شاعر بیٹھے نیں شعر سنڑا گے“ (یہاں آ جاؤ، یہاں شاعر بیٹھے ہیں، شعر سنیں گے) باقی کے تین مسافروں کو چارپائی پیش کی گئی۔ ان مسافروں کی گاڑی لیٹ تھی وقت گزاری کے لئے ہماری محفل کو نشانے پر لے لیا۔

سامعین کی آمد پر بہار پر شعرا کے چہرے کھل اٹھے۔ شاعر کا دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ سامعین کی تلاش ہوتی ہے۔ سامعین شاعر کے لئے ہیرے جواہرات سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔ اکثر مشاعروں میں سامعین ناپید ہوتے ہیں۔ مجھے یاد آیا گزشتہ برس ایک محفل مسالمہ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو تھا جو شاید حضرت واجد امیر کی صدارت میں برپا تھی۔ ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہم صاحب صدر کی کرسی کے ساتھ ہی براجمان تھے۔ رات ڈیڑھ دو بجے باری آئی تب تک ہال میں موجود ہر شخص پڑھ چکا تھا۔ یعنی وہ ہال پورا شعرا سے بھرا ہوا تھا۔ دور دراز سے سفر کر کے آئے شاعر اپنی باری پر سناتے اور ساتھ والے کمرے میں جاکر سو جاتے ہماری حوصلہ افزائی کے لیے صاحب صدر نقیب محفل اور چوکیدار ہی بچے تھے ہماری فریاد پر کچھ شعرا ادھر ادھر سے آ بیٹھے۔

سامعین پر رعب ڈالنے کے لئے ندیم ناجد نے انہیں بتایا کہ یہ ڈاکٹر یوسف سمرا ہیں، مزاح نگار اور چار کتابوں کے مصنف ہیں۔ سامعین نے کوئی ردعمل نہیں دیا تو ندیم ناجد نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا ”میں جون ایلیا کا شاگرد ہوں“ ایک مسافر نے کہ زیادہ پر جوش نظر آتا تھا کہنے لگا ہمیں جون ایلیا کے شعر سناؤ۔ یہ فرمائش سنتے ہی شعرا کے کھلکھلاتے چہروں پر اوس پڑ گئی۔ کوئی شاعر کسی اور کا کلام سنانا پسند نہیں کرتا۔ ہم تو دوسرے شاعر کو سنتے ہوئے داد بھی اس لئے دیتے ہیں کو وہ ہمارے شعروں پر داد دے گا۔ قارئین آپ بھی دیکھیں۔

تیری کلائی پہ جچتی ہیں چوڑیاں لیکن
میں چوڑیوں سے بھی نازک ہوں یہ خیال رہے۔ عقیل شیخ۔

اے مرے دوست یونہی بے سبب اداس نہ ہو
تری اداسی سے سب ہوتے ہیں اداس نہ ہو۔ مجاہد علی یاسر

عشق کی راہ میں حائل کہیں میں ہی تو نہیں
اگر ایسا ہے تو رستے سے ہٹاؤ مجھ کو۔ ندیم ناجد۔

نسل در نسل مسائل بھی ہوا کرتے ہیں۔
خون کے اپنے خصائل بھی ہوا کرتے ہیں۔ یوسف سمرا۔

قارئین کرام یہ چائے کے کھوکھے ہمارے، ٹی ہاؤس، رمادہ اور پی سی ہیں۔ یہ ہمیں ٹوٹی کرسیاں دیتے اور ٹوٹے دلوں کو جوڑتے ہیں۔

ڈاکٹر محمد یوسف سمرا
Latest posts by ڈاکٹر محمد یوسف سمرا (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments