خصوصی بچوں کے والدین


جذبات اور منطق عام طور پر ایک دوسرے کے ساتھ کچھ اس طرح منسلک ہوتے ہیں کہ ان دونوں کو الگ کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر ہمارے طرز عمل کے پیچھے جہاں عقل و فکر کارفرما ہوتے ہیں وہیں جذبات اور احساسات بھی ہمارے عمل کو ایک سانچے میں ڈھالنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اگر آج کسی والدین کو یہ معلوم ہو کہ ان کا بچہ خصوصی ہے، وہ سن نہیں سکتا یا دوسرے بچوں کی طرح دیکھ نہیں سکتا تو ان کے مختلف رد عمل سامنے آ سکتے ہیں۔ وہ دکھی بھی ہو سکتے ہیں، پریشان بھی اور رب کے شکر گزار بھی کہ انہیں پروردگار نے اس ذمہ داری کے قابل سمجھا۔ وہ ڈپریشن کا شکار ہو کر خود سے بیگانہ بھی ہوسکتے ہیں اور خود کو بھلا کر صرف اپنے بچے کی تربیت کو اپنا مقصد زندگی بھی بنا سکتے ہیں۔ یہ تمام رد عمل قدرتی ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی غلط یا صحیح کہنے سے پہلے ہمیں ان والدین کی سوچ، جذبات، مسائل اور حالات کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔

گزشتہ تقریباً ایک ماہ سے اپنی ٹیم کے ساتھ مجھے پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف دیہات میں جانے اور خصوصی بچوں کے والدین سے ملنے کا موقع ملا۔ یقین جانیں کچھ ایسے جذبات اور مسائل ہیں جن کا سامنا بلا تخصیصِ تعلیم، سماجی و معاشی حالات اور جغرافیائی علاقہ، تمام والدین یکساں کرتے ہیں۔

ایک بنیادی چیز جو ہم نے ہر جگہ محسوس کی وہ رہنمائی کی کمی تھی۔ بہت سے والدین اپنی مقدور بھر کوشش کر نے کے باوجود درست مدد حاصل نہیں کر پائے تھے کیونکہ ڈاکٹر انہیں درست رہنمائی نہیں دے پائے۔ عمومی طور پر والدین کی رسائی اپنے علاقے کے جنرل فزیشن تک ہی ہوتی ہے اور اگر اس کو خصوصی بچوں کے بارے میں مناسب معلومات نہ ہوں تو بچے کو جلد ماہرین کی مدد نہیں مل پاتی۔ یہ دیر، اس کی آنے والی زندگی پر بہت دور رس اثرات مرتب کر سکتی ہے کیونکہ جلد طبی اور ماہرین کی مدد اس کو مستقبل میں ایک بہتر زندگی گزارنے اور پیچیدگیوں سے بچنے میں مدد کر سکتی ہے۔

دوسری اور بہت اہم بات یہ کہ والدین کو معذوری کے نام یا قسم سے فرق نہیں پڑتا۔ انہیں نہیں فرق پڑتا کہ ماہرین اس کو کیا نام دیتے ہیں۔ ان کے لیے اہم یہ ہے کہ ان کے بچے کو کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے، وہ چل یا بول کیسے سکتا ہے یا اس کی تکلیف کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں ان کے تعلیم یافتہ ہونے سے زیادہ ان کا درد دل، بچے کے لیے خلوص اور جذبہ ان کی رہنمائی کرتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ کاشترہ (خیبر پختونخوا کا ایک گاؤں ) میں ایک پھوپھو اپنے بھتیجے کو ہمراہ لے کر آئی۔ وہ بکریاں چراتی تھی اور بالکل پڑھی لکھی نہیں تھی، لیکن اس نے یہ بتایا کہ اس کا بھتیجا اپنی عمر کے مقابلے میں سادہ مزاج ہے۔ اس کو پر اعتماد بنانے کے لیے وہ اس کو سودا سلف لینے کے لیے ساتھ لے کر جاتی ہے، اس کو پیسے کی پہچان کرواتی ہے اور اس کو گھر آئے مہمانوں کی مہمان داری کو کہتی ہے تاکہ لوگ اس کی عزت کریں۔ یقین جانیں یہ تمام اعمال ایک بہت اچھا سماجی تربیت، زبان دانی اور خود انحصاری کی تربیت کا پروگرام تشکیل دے سکتے ہیں۔

تیسری اہم بات جو ان ملاقاتوں میں عیاں ہوئی وہ یہ تھی کہ والدین اپنے بچے کو زیادہ اچھا جانتے ہیں۔ اگر آپ کو ایک ماہر کے طور پر ہسٹری لینا آتی ہے تو والدین نا صرف اپنے بچے کے مسائل آپ کو بتائیں گے بلکہ آپ ان حالات میں رہتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کے لیے کیا کر سکتے ہیں یہ معلومات بھی آپ بہت اچھے سے انہیں والدین سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔

معاشی مسائل کے علاوہ جس چیز کا خصوصی بچوں کے والدین کو سامنا کرنا پڑتا ہے وہ سماجی تنہائی ہے۔ انہیں درست گائیڈ کرنے اور ان کے بچے کو اسی طرح قبول کرنے والے لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ ہم سب کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ کسی والد یا والدہ کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ کوئی راہ چلتا شخص ان کے بچے کو گھورے، اس کو حیرت یا ترس سے دیکھے یا ان والدین سے پوچھے کہ ان کے بچے کو کیا مسئلہ ہے۔ انہیں تو اس بات کی امید ہوتی ہے کہ ان کے بچے کو بھی پیار اور قبولیت ملے۔ اس کے تعلیمی مسائل کو سمجھ کر ان کا حل کرنے والے اساتذہ کا ساتھ ہو اور اچھے دردِ دل والے ماہرین تک رسائی ممکن ہو سکے۔

میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ ایک خصوصی بچے اور اس کے والدین کو خاص طور پر ابتدائی برسوں میں مسلسل ساتھ اور ہمت افزائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل جدید ٹیکنالوجی نے بہت سی سہولیات پیدا کر دی ہیں۔ ہم جدید ٹیکنالوجی اور روایتی طریقوں کے تعامل سے دور دراز کے علاقوں میں بیٹھے والدین اور اساتذہ تک رہنمائی اور معلومات کی ترسیل کا ایک مربوط نظام تشکیل دے سکتے ہیں۔ اگلی کسی تحریر میں میں مزید تفصیل سے ایسے گائیڈنس سسٹم کے بارے میں بات کروں گی۔

ابھی کے لیے آخر میں ایک ہی پیغام ہے کہ خالق نے ہم سب کو مختلف بنایا تاکہ یہ دنیا یکسانیت کا شکار نہ ہو۔ یہ انفرادی اختلافات ہماری دنیا کو خوبصورت بناتے ہیں۔ انسانی تنوع کو قبول کریں اور ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments