وی پی این کا استعمال غیر شرعی قرار اور یوٹیوب؟
ملک اس وقت اسموگ میں گھرا ہوا ہے، تعلیمی ادارے بند ہو چکے ہیں، مہنگائی کا طوفان تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے جس کی وجہ سے لوگ خود کشیوں پر مجبور ہو چکے ہیں۔
بجلی اور گیس کے بلوں نے ایک غریب خاندان کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے، بجلی اور گیس کا بل ادا کرنے کے بعد ایک متوسط فیملی کے پاس اتنی سکت نہیں رہتی کہ وہ مہینہ بھر اپنی فیملی کا راشن پانی چلا سکیں۔
ان ساری مشکلات و حکومتی بدانتظامیوں کے باوجود ایک طبقہ ایسا ہے جو انسانوں کے اعمال و افعال پر کیمرا لگائے بیٹھا ہے، ہر وقت مورل پولیسنگ، دوسروں کے بیڈ روم اور نجی زندگیوں میں داخل ہونے کے بہانے ڈھونڈنا ان کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے۔
یہ طبقہ ہمارے معزز علماء کرام کا ہے، جنہیں دوسروں کے ایمان اور مذہب کی بڑی فکر لاحق رہتی ہے لیکن کبھی بھی زندگی کے اس نازک مرحلے پر بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے لوگ فاقوں مرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اس وقت صرف امیر کبیر پوش طبقہ اپنی ضروریات پوری کرنے کی سکت رکھتا ہے اس کے علاوہ باقی سارے طبقات جن میں مڈل، لوئر مڈل، انتہائی غریب یا سفید پوش کلاس شامل ہے کے مابین فرق یا تفریق بالکل ہی مٹ چکی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ لوگ اس قدر مجبور ہو چکے ہیں کہ کسی کے سامنے عزت نفس کی خاطر ہاتھ نہیں پھیلا سکتے باقی اہل فکر و نظر ڈاٹ سے ڈاٹ ملا کر پورا خاکہ بنا سکتے ہیں۔
ہماری اسلامک نظریاتی کونسل کو بڑی دور کی سوجھی، انہیں یہ لگتا ہے کہ ان ساری محرومیوں اور تباہی کے پیچھے وی پی این ”ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس“ کا ہاتھ ہے جس کے ذریعے سے لوگ غیر اخلاقی مواد دیکھتے ہیں اور ہاتھ، کان اور جسمانی گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اس کا استعمال غیر اسلامی اور شرعی طور پر حرام اور ناجائز ہے۔
کیا آ لات و ٹیکنالوجی پر ناجائز اور حرام کا ٹیگ لگا دینے سے عوام میں گناہ کا تناسب کم ہو جاتا ہے یا خوشحالی کی شرح میں اضافہ ہونے لگ پڑتا ہے؟
کیا فتویٰ جاری کر دینے یا کسی عمل کو ناجائز قرار دینے سے عوام اس فرمان پر من و عن عمل کرنے لگتے ہیں؟
اس طرح کے فیصلے لینے سے پہلے اس حقیقت کا تعین کرنا ضروری ہے کہ جو کچھ پہلے سے ہمارے زیر استعمال ہے کیا وہ ہمارا ہے یا ہم بطور صارف استعمال کر رہے ہیں؟
اس میں مہنگے ترین اور ڈیسنٹ سے کیمرے والے موبائل ہیں، لیپ ٹاپ، ہائی فائی گاڑیاں اور ریکارڈنگ کے نظام کو بہتر بنانے والے آ ٹو میٹک کالر اور فیس مائیک شامل ہیں، کیا یہ ہماری پروڈکٹ ہیں یا سب کفار کی دین ہے؟
سب سے بڑھ کر فیس بک، یو ٹیوب، ٹویٹر اور انسٹا گرام ایسے مقبول ترین پلیٹ فارم جن سے اہل جبہ و دستار مفت میں فیض یاب ہوتے ہیں اور عوام میں فالوورز کی صورت میں مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھتے ہیں۔
کیا ان میں سے کسی چیز پر بھی ہماری ”پروپرائیٹر اسٹمپ“ لگی ہوئی ہے؟
بالکل نہیں، ہاں حرام یا غیر اخلاقی ہونے کا فتویٰ ضرور ہمارا ہی ہو گا کیونکہ دنیا کا سب سے آ سان ترین کام ”وربل سروس“ ہی تو ہوتا ہے نا! جس میں ہمارا کوئی ثانی نہیں۔
مذہبی فکر کے حساب سے تو اسپیکر، مووی میکنگ، انگریزی تعلیم، پرنٹنگ پریس اور ہر وہ نئی ایجاد حرام اور ناجائز تھی جس کے بغیر آج ہمارے علماء کرام کا گزارہ تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور ان سب کے جائز ہونے کا فتویٰ کب اور کس دارالعلوم نے جاری کیا تھا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
لیکن تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور جدید تبدیلیاں انتہائی خاموشی سے ہمارے علماء کرام کی زندگیوں کا اہم ترین حصہ بن چکی ہیں۔
عرصہ پہلے مفتی عبد العزیز نے مدرسے میں اپنے ہزاروں طلباء کے سامنے یہ کہتے ہوئے صوفے کو آگ لگائی تھی کہ ان صوفوں کا استعمال صحابہ کرام نہیں کرتے تھے، ستم ظریفی دیکھیے کہ جس موبائل کے کیمرے میں طلباء وڈیو بنا رہے تھے وہ بھی صحابہ کرام کے زمانے میں موجود نہیں تھا لیکن اس طرف حضرت جی کی توجہ ہی نہیں گئی۔
اب وی پی این کو غیر اخلاقی مواد تک رسائی کی وجہ سے حرام قرار دیا گیا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تالے کی ایجاد سے چوری چکاری ہونا بند ہو گئی یا چور منظر عام پر آ نا بند ہو گئے؟
باقی یہ کہنا کہ لوگ پورنوگرافک ویب سائٹس دیکھتے ہیں تو جناب دنیا میں انسان بستے ہیں روبوٹ نہیں کہ جنہیں بٹن کے آن آف کی طرح سے سدھایا جا سکے۔
باقی ٹی وی کا ریموٹ ہو یا کمپیوٹر کا ماؤس یہ انسان کے ہاتھوں میں ایک بے جان سے پرزے کی مانند ہوتا ہے جو اسی ہاتھ کے اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔
صاحب تقوی و طہارت یا پاکیزہ ہستیاں ان آ لات کا بہتر استعمال کرتے ہوئے خود کو برائی سے محفوظ رکھ سکتی ہیں لیکن زبردستی دوسروں پر اپنے نظریات کو تھوپنے یا پابندی عائد کر دینے سے کوئی زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا بلکہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
اگر من اپنا ہی پاپی یا گدلا ہو، نظروں میں جنسی گھٹن کی وجہ سے پورنوگرافک مناظر رچے بسے ہوں اور ذہن پر ہر وقت جنس سوار ہو تو بیچاری وی پی این کا بھلا کیا قصور؟
اب نظریاتی کونسل کو یو ٹیوب، ٹی وی، فیس بک اور دوسرے سوشل میڈیا چینل بلکہ انٹرنیٹ تک کو بھی حرام قرار دے دینا چاہیے۔
کیونکہ یہ سب کچھ انٹرنیٹ سے ہی تو منسلک ہے، جب جڑ ہی نہیں رہے گی تو سارے مسئلے خود بخود حل ہو جائیں گے۔
دیر مت کیجیے فی الفور اس قوم کو غاروں والے دور میں دھکیل دیں تاکہ ہر طرف امن و شانتی ہو سکے۔
- ہمارا مذہب خطرے میں کیوں رہتا ہے؟ - 04/12/2024
- کیا سیکس ایجوکیشن کا مطلب جنسی بے راہ روی ہوتا ہے؟ - 01/12/2024
- کیا فنا فی القدرت کا مطلب فنا فی الدنیا ہوتا ہے؟ - 28/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).