صلیبیں اپنی اپنی، قسط نمبر 26 : شکستِ آرزو


” ڈرو مت، کیونکہ میں تمہارے ساتھ ہوں ؛ پریشان نہ ہو، کیونکہ میں تمہارا خدا ہوں۔ میں تمہیں تقویت دوں گا، میں تمہاری مدد کروں گا، اور میں اپنے راست باز دائیں ہاتھ سے تمہیں سنبھالوں گا۔“ اشعیا 41 : 10

نیلوفر لاہور میں مزنگ کے محلّے میں رہتی تھی جو اس زمانے میں ثقافتی لحاظ سے اہم محلہ تھا۔ وہاں کی تنگ گلیاں زندگی سے بھرپور تھیں، اور محلے کے چائے خانے دن رات آباد رہتے تھے۔ جِم کی بڑی بہن، کیتھرین جیل روڈ پر رہتی تھی جو نہ صرف متوسط بلکہ نسبتاً خوشحال طبقے کے لیے بھی پرکشش تھا۔ کیتھرین نیلوفر سے بڑی محبت سے پیش آتی تھی۔ اس کی دو جڑواں بیٹیاں تھیں جو مریم سے چھ مہینے بڑی تھیں۔ کیتھرین کے شوہر، شریف دین، کسی حکومتی ادارے میں بڑے افسر تھے لہٰذا سرکاری طور پر ان کے گھر میں ٹیلی فون لگا ہوا تھا جسے محلّے کے لوگ بھی استعمال کرتے تھے۔

شریف صاحب نے بینک سے قرض لے کر 1958 کی فیاٹ 500 کار خریدی تھی جسے عرف عام میں صابن دانی کہتے تھے۔ وہ خود لمبے تڑنگے چھ فٹ کے تھے اور جب وہ اس صابن دانی میں لیٹ کر گھستے تھے اور خود کو تہہ کر کے ڈرائیور کی سیٹ پر بیٹھتے تھے تو محلے کے بچے انہیں حیرت سے دیکھتے تھے۔ کیتھرین ان کے برابر اور دونوں بیٹیاں پچھلی سیٹ پر بیٹھتی تھیں۔ کبھی کبھار نیلوفر اور مریم بھی ان کے ساتھ سیر کے لیے جاتی تھیں اور نیلوفر پچھلی سیٹ پر مریم کو گود میں لے کر بیٹھتی تھی۔

جم کے گھر چھوڑ جانے کے بعد کم از کم روزانہ کی کِل کِل سے تو نجات مل گئی تھی۔ نیلوفر کی زندگی میں باقاعدگی آ گئی تھی۔ صبح اٹھ کر سب سے پہلے وہ خود تیار ہوتی، پھر مریم کو جگاتی۔ جب تک مریم تیار ہو کر آتی، نیلوفر ناشتہ تیار کرچکی ہوتی۔ جیسے ہی وہ ناشتے سے فارغ ہوتیں تو رکشہ دروازے پر موجود ہوتا۔ نیلوفر نے رکشہ ڈرائیور، حبیب خان، کو مہینہ داری پر رکھ لیا تھا۔ وہ ماں بیٹی کو روزانہ وقت پر اسکول پہنچا دیتا اور چھٹی کے بعد جوں ہی دونوں اسکول کے گیٹ پر پہنچتیں، حبیب خان وہاں پہلے سے ہی موجود ہوتا۔ وہ عمر رسیدہ تھا اور نیلوفر کو ”بٹیا“ کہہ کر مخاطب کرتا تھا جو نیلوفر کو بڑا اچھا لگتا تھا۔ وہ اسے حبیب چاچا کہتی تھی۔ کئی بار ایسا ہوا کہ صبح کو مریم کھانسی زکام کے ساتھ اٹھی۔ ایسے موقعوں پر نیلوفر ہیڈ مسٹریس کے نام چھٹی کی درخواست لکھ کر حبیب خان کو دے دیتی اور وہ میڈم روبینہ تک پہنچا دیتا۔

زندگی آرام سے گزر رہی تھی۔ نیلوفر روزانہ چار پیریڈ پڑھاتی تھی اور بقیہ اوقات میں بچوں کا ہوم ورک اور امتحانوں کی کاپیاں چیک کرتی تھی۔ چوں کہ وہ کئی سال سے وہی مضامین پڑھا رہی تھی لہٰذا کلاس کے لیے برائے نام تیاری کرنی پڑتی تھی۔ کبھی کبھی وہ سوچتی تھی کہ نہ جانے جِم کس حال میں ہو گا مگر اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اسے نہ جِم کی ضرورت تھی اور نہ اس کی واپسی کی توقع تھی۔

نیلوفر کی انکل شاہد سے خط و کتابت رہتی تھی۔ اس نے انہیں جِم کے متعلق تفصیل سے لکھ دیا تھا۔ انکل شاہد نے اسے لکھا تھا کہ انہیں اسی وقت شک ہو گیا تھا کہ ان کے چھوٹے بھائی کو نشے کی عادت ہو گئی ہے جب وہ ان سے ایک ہزار روپے قرض لینے حیدرآباد آیا تھا۔ اس نے انہیں بتایا تھا کہ وہ کوئی بزنس شروع کرنا چاہ رہا ہے۔ انکل شاہد نے کبھی ایک ہزار روپے کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی کیوں کہ اس زمانے میں جب ان کی تنخواہ دو سو روپے مہینہ تھی، ایک ہزار روپے بہت ہوتے تھے، مگر مرتا کیا نہ کرتا، چھوٹے بھائی کی فرمائش تھی، چناں چہ انہوں نے دوستوں سے قرض لے کر ایک ہزار روپے جمع کر کے جِم کو دیے تھے۔ اس کے بعد نہ اس نے پلٹ کر کبھی انہیں خط لکھا اور نہ بزنس کا حال لکھا۔ انکل شاہد کا کہنا تھا کہ انہوں نے دوستوں کو دس دس بیس بیس روپے کر کے قرض ادا کیا۔

***

وہ ایک سرد شام تھی، جب نیلوفر نے پہلی بار اپنی دائیں چھاتی میں ایک عجیب سی گٹھلی کو محسوس کیا جسے دبانے سے ہلکی سی دُکھن ہوتی تھی۔ ڈاکٹر ذکیہ اس کے بچپن کی سہیلی تھی اور وہ مریم کو اسی کو دکھاتی تھی۔ اپنے معاملے میں وہ بے حد لاپروا تھی اور ڈاکٹر کے پاس وہ اسی وقت جاتی تھی جب اسے یقین ہوجاتا تھا کہ خود ٹھیک نہ ہو پائے گی ورنہ اس کا خیال تھا کہ چھوٹی موٹی شکایات خود ہی دور ہوجاتی ہیں۔ کئی روز وہ خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتی رہی کہ شاید وہ ایک معمولی سوجن ہے جو دو ایک روز میں خود ٹھیک ہو جائے گی، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گٹھلی بڑی ہونے لگی اور درد میں بھی شدت آ گئی۔ بالآخر اس نے ڈاکٹر ذکیہ کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا۔ انہوں نے اپنی اسٹیتھو اسکوپ کو نیلوفر کی چھاتی پر رکھ کر معائنہ کیا اور کچھ دیر خاموش رہیں۔

” نیلو، یہ معاملہ کچھ سنجیدہ لگتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ تم ڈاکٹر نور محمد سے مل لو،“ ڈاکٹر ذکیہ نے اپنی اسٹیتھو اسکوپ میز کی دراز میں رکھتے ہوئے کہا۔

”کون ڈاکٹر نور محمد؟“
”وہ کینسر جیسے پیچیدہ امراض کے ماہر ہیں۔“
”تمہارا مطلب ہے کہ مجھے کینسر ہے؟“ نیلوفر نے گھبرا کر پوچھا۔
”یہ تو تشخیص کے بعد ہی پتہ چلے گا۔ ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا ۔“
نیلوفر نے کوئی جواب نہیں دیا۔

” میں دیکھتی ہوں کہ ڈاکٹر نور محمد سے کل کا ہی وقت مل جائے۔“ ڈاکٹر ذکیہ نے انٹر کام پر اپنی سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ نیلوفر کے لیے اگلے دن کا وقت لے لے۔

ڈاکٹر نور محمد کا کلینک اس وقت کے جدید طبی آلات سے لیس تھا۔ ایکس رے مشین، جو اس زمانے کی ایک نادر شے سمجھی جاتی تھی، اور بائیوپسی کے لیے دستیاب بنیادی اوزار ان کے کلینک میں موجود تھے۔ انہوں نے نیلوفر کا تفصیلی معائنہ کیا اور ایکس رے کروانے کو کہا۔ دو دن کے بعد نیلوفر ایکس رے رپورٹ کے ساتھ ڈاکٹر نور محمد کے پاس گئی۔ انہوں نے ایکس رے فلم کو روشنی کے سامنے رکھا۔ نیلوفر کی چھاتی میں موجود گٹھلی کا سیاہ سایہ واضح تھا۔ انہوں نے محتاط لہجے میں کہا، ”یہ گٹھلی سادہ نہیں لگتی۔ ہمیں مزید تحقیقات کے لیے بائیوپسی کرنی ہو گی۔“

نیلوفر کے لیے یہ سب کسی خوف ناک خواب کی طرح لگ رہا تھا، ”ڈاکٹر صاحب، یہ بائیوپسی کیا ہوتی ہے؟“ اس نے پوچھا۔

”بائیوپسی میں ہم مشکوک حصے سے ایک چھوٹا سا نمونہ لے کر خوردبین سے دیکھتے ہیں جس سے ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ معمولی سوجن ہے یا اس کے خلیات کینسر زدہ ہیں۔“

”ڈاکٹر صاحب، مجھے آپریشن وغیرہ سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ اس میں تکلیف تو نہیں ہوتی۔“

”نہیں، ہم اس حصے کو سُن کر دیتے ہیں۔ آپ اس کے بعد فوراً گھر جا سکیں گی اور اس دن گھر پر ہی آرام کرنا پڑے گا۔“

”اگر یہ ضروری ہے تو میں تیار ہوں،“ نیلوفر نے ہچکچاتے ہوئے کہا،

بائیوپسی کے نتائج نے خدشات کو درست ثابت کر دیا۔ نیلوفر کو بریسٹ کینسر تھا۔ جب ڈاکٹر نور محمد نے اسے یہ خبر سنائی تو اس سے کوئی جواب بن نہ پڑا۔ وہ آنکھیں جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ آنسو کا ایک قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپکا اور اس کی گود میں رکھے ہوئے ہاتھ کی پشت پر گرا۔ اس نے فوراً دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی سے اسے پونچھ دیا۔

” آپ کا مرض ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ہمیں جلد از جلد علاج شروع کرنا ہو گا،“ ڈاکٹر نور محمد نے دھیمے لہجے میں کہا۔

مریم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سر جھکائے بیٹھی رہی، پھر بولی، ”اور علاج کیا ہو گا، ڈاکٹر صاحب؟“
” سرجری ہمارا واحد آپشن ہے۔“
”سرجری کر کے آپ اس گٹھلی کو نکالیں گے؟“
”نہیں، ہمیں پوری چھاتی کو نکالنا پڑے گا،“ ڈاکٹر نور محمد نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔
نیلوفر نے کوئی جواب نہیں دیا۔
”لیکن کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ آپ اپنے سینہ بند کے نیچے ایک مصنوعی بریسٹ پہنیں گی۔“
”ٹھیک ہے ڈاکٹر صاحب،“ نیلوفر نے طویل خاموشی کے بعد گہرا سانس لے کر کہا۔
”آپ شادی شدہ ہیں؟“
”جی۔“
”اگلی مرتبہ آپ کے شوہر آپ کے ساتھ آ سکیں گے۔“
”کیا یہ ضروری ہے؟“
”نہیں، مگر کوئی قریبی عزیز یا دوست ہے؟“
”میری ایک نند ہے۔ اسے لا سکتی ہوں؟“
”ضرور، ان کا نام کیا ہے؟“ ڈاکٹر نور محمد نے اپنا قلم اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
”کیتھرین شریف، اسے سب کیتھی کہتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے، آپ سے ٹیلی فون پر رابطہ ہو سکتا ہے؟“

”جی، کیتھی کے گھر میں فون ہے۔ اسے پیغامات چھوڑے جا سکتے ہیں، اور ہماری ہیڈ مسٹریس میڈم روبینہ کے دفتر میں بھی فون ہے۔ اگر ضروری بات ہو تو انہیں بھی پیغام دیا جا سکتا ہے اور وہ مجھے بلوا کر بات بھی کرا سکتی ہیں۔ “

ڈاکٹر نور محمد نے دونوں ٹیلی فون نمبر لکھ لیے اور اٹھتے ہوئے بولے، ”سرجری سے پہلے میں آپ سے اور کیتھی سے ایک ملاقات اور کرنا چاہتا ہوں، پھر ہفتے عشرے میں ہماری ٹیم آپ کی سرجری کے لیے تیار ہو جائے گی۔“

”جی بہتر، بہت بہت شکریہ،“ نیلوفر نے اٹھتے ہوئے کہا۔

نیلوفر مریم کو کیتھی کے پاس چھوڑ کر آئی تھی۔ ڈاکٹر نور محمد کا کلینک سمن آباد میں تھا جو اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے دفتروں کا مرکز تھا۔ وہاں سے جیل روڈ تقریباً 5 کلومیٹر ہے۔ نیلوفر کو معلوم تھا کہ رکشہ سے اسے 15 منٹ سے زیادہ نہیں لگیں گے۔ وہ کلینک سے باہر نکلی تو ایسا محسوس ہوا جیسے زمین اس کے قدموں تلے سے سرک رہی ہو۔ دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس نے ادھر ادھر دیکھا، مگر دنیا یکایک اجنبی سی لگنے لگی۔ اس کی سانسیں تیز تھیں اور دل کی دھڑکن کانوں میں ہتھوڑے چلا رہی تھی۔ ایک رکشہ قریب ہی کھڑا تھا۔ وہ ایک روبوٹ کی طرح اس میں جا بیٹھی، مگر ذہن جیسے کہیں اور قید ہو۔ اس کے منہ سے صرف دو الفاظ نکلے، ”جیل روڈ!“ ۔ رکشہ ڈرائیور نے کرینک لیور کو ایک جھٹکے کے ساتھ اوپر کھینچا اور رکشہ گڑگڑاہٹ کے ساتھ اسٹارٹ ہو گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).