اسرائیل اور فلسطین کی جنگ کی دردناک کہانی (1)


ایک سنجیدہ جرنلسٹ سنی سنائی باتوں اور سوشل میڈیا پر بے پر کی اڑائی جھوٹی خبروں پر یقین نہیں کرتا۔ وہ تحقیق کرتا ہے، پیشہ ورانہ محنت اور ریاضت سے کام لیتا ہے، اپنے سب وسائل استعمال کرتا ہے، پس پردہ جو ہو رہا ہوتا ہے اس کو تلاش کرتا ہے، اصحاب بست و کشاد کے ڈھکے چھپے تضادات کی تہہ تک پہنچتا ہے، وہ مصلحت اور منافقت کے پردے چاک کرتا ہے، وہ کسی بھی واقعے ’حادثے یا سانحے کی اصل کہانی جاننے کی کوشش کرتا ہے اور جب وہ سچ کو تلاش کر لیتا ہے تو پھر اس سچ کو اپنی تحریروں میں عوام و خواص کے سامنے پیش کرتا ہے چاہے وہ سچ کتنا ہی تلخ یا کڑوا کیوں نہ ہو۔

اسرائیل اور غزہ کی جنگ کے بارے میں ہم سب نے سوشل میڈیا اور اپنے اپنے ملک کے مقامی ریڈیو اور قومی اخبار اور بین الاقوامی ٹیلی ویژن کی خبروں میں بہت کچھ دیکھا اور سنا لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ پس پردہ کیا ہوا؟ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کے حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کے اصل ارادے کیا تھے؟ اسرائیل کے جنگی فیصلوں کو امریکی حکام نے کیسے اور کتنا بدلا؟ مشرق و سطیٰ کے دیگر ممالک کے رہنماؤں نے جن میں قطر، سعودی عرب، اردن اور مصر سبھی شامل ہیں جنگی قیدیوں کی رہائی، فلسطینی بھوکے بچوں تک کھانے کے ٹرک پہنچانے اور جنگ بندی کی کوششوں میں کیا کردار ادا کیا؟

بوب وڈورڈ نے اپنی حالیہ کتاب WAR میں ان سوالوں کے جواب دینے کی اور جنگ کی ہولناکیوں کی گہرائیوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔ بوب وڈورڈ ایک سنجیدہ ’مستند اور معتبر صحافی ہیں جو ماضی میں اپنے مشاہدے، تجربے، مطالعے اور تجزیے کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت اور صدر نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل کے بارے میں لکھی گئی کتابوں پر قومی اور بین الاقوامی انعامات حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب ہمیں ہمارے دور کی نسل کشی کے کڑوے سچ سے متعارف کرواتی ہے اور بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔

میں اس کتاب کے چند ابواب کا ترجمہ اور تلخیص آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

ہم حالت جنگ میں ہیں

سات اکتوبر دو ہزار تئیس کی صبح ساڑھے چھ بجے جب اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیٹن یاہو کے خصوصی مشیر رون ڈرمر کے فون کی گھنٹی بجی تو وہ گھنٹی بجتی چلی گئی۔ وہ ہفتے کا دن تھا جب ڈرمر بھی باقی یہودیوں کی طرح اپنے خاندان کے ساتھ سبت کا مقدس دن منانے کی تیاریاں کر رہا تھا۔ اس صبح فون کی گھنٹی بجنے کے ساتھ ایک سرخ رنگ کی بتی بھی روشن ہوئی جو خطرے کی گھنٹی تھی۔ یہ سرخ بتی صرف اس وقت روشن ہوتی تھی جب اسرائیل پر کوئی فوجی حملہ ہوتا تھا۔ ڈرمر کو یہ تشویشناک خبر ملی کہ اسرائیل پر حماس نے تین ہزار راکٹوں سے حملہ کر دیا ہے۔

ڈرمر نے ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھنے شروع کیں تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا کہ اسرائیل کی گلیوں اور بازاروں میں حماس کے جنگجو اپنی بندوقیں تانے دندناتے پھر رہے ہیں۔ ایسے ہولناک مناظر دیکھ کر ڈرمر اپنی کار میں بیٹھا اور یروشلم سے ٹیلاویو کی طرف روانہ ہو گیا تا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم بی بی نیٹن یاہو سے بالمشافہ ملاقات ہو سکے۔ جب ایک خفیہ مقام پر دونوں کی ملاقات ہوئی تو نیٹن یاہو نے ڈرمر سے گھبراتے ہوئے کہا ’ہم حالت جنگ میں ہیں‘ نیٹن یاہو کا یہ پیغام کہ ہم حالت جنگ میں ہیں سارے ملک میں جلد ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔

جہاں اسرائیل حماس کے حملے کے لیے تیار نہ تھا وہیں امریکی حکومت بھی اس اچانک حملے سے حیران و پریشان تھی۔ امریکی حکومت کے مشرق و سطیٰ کے مشیر بریٹ کنگرک کو امریکہ کے رات سوا بارہ بجے ’جو اسرائیل کے صبح کے سوا سات بجے تھے‘ اسرائیلی سفیر مائیکل برزگ کا پیغام آیا، ’اسرائیل پر حماس نے شدید حملہ کیا ہے۔ ہم حالت جنگ میں ہیں۔ اس وقت اسرائیل کو امریکی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ امریکی حکومت اس حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرے‘ امریکی مشیر نے اسرائیلی سفیر کنگرک کو ایک گھنٹے کے بعد جواب دیا ’ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘

چند دن تک حالات جنگ کی دھند میں کھوئے رہے اور چاروں طرف بے یقینی کی فضا قائم رہی۔ جب دھند چھٹی تو پتہ چلا کہ حماس کے تین ہزار جنگجوؤں نے اسرائیل کے کبوتز پر اور پچاس جنگجوؤں نے ایک موسیقی کے فیسٹیول پر حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں حماس کے حملہ آوروں نے بارہ سو اسرائیلی قتل کر دیے اور دو سو چالیس اسرائیلیوں کو اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اپنے ساتھ لے گئے اور ان مردوں عورتوں اور بچوں کو غزہ کی زیر زمین سرنگوں میں جنگی قیدی بنا دیا۔

اسرائیل کی حکومت اور ان کے وزیر اعظم نیٹن یاہو کا دہائیوں کا دعویٰ کہ اسرائیل ساری دنیا کے یہودیوں کے لیے نہایت محفوظ مقام ہے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو خاک میں مل گیا۔ اس دن اسرائیلی حکومت کے حفاظتی نظام اور خفیہ انٹیلی جنس کو سخت ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور اسرائیلی فوج کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ کہیں حماس دوسرا حملہ نہ کر دے۔

جو بائیڈن اور بی بی نیٹن یاہو کا مکالمہ

امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے سیاسی و عسکری مشیروں ٹونی بلنکن، جیک سالیوان اور لوئڈ آسٹن سے مشاورت کی۔ انہوں نے بائیڈن کو تازہ ترین حالات سے باخبر کیا۔ بائیڈن نے کہا کہ وہ جلد از جلد اسرائیلی وزیر اعظم بی بی نیٹن یاہو سے بات اور حماس کے حملے کی مذمت کرنا چاہتا ہے۔

جب بائیڈن کی نیٹن یاہو سے بات ہوئی تو نیٹن یاہو نے کہا ’اسرائیل حماس سے یہ جنگ جیت کر رہے گا‘ پھر نیٹن یاہو نے بائیڈن کو مشورہ دیا ’تم حزب اللہ سے کہہ دو کہ وہ اس جنگ سے دور رہیں۔ بہت دور‘ نیٹن یاہو کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں حماس جنوب سے اور حزب اللہ شمال سے اسرائیل پر بیک وقت حملہ آور نہ ہو جائیں۔ نیٹن یاہو نے بائیڈن سے کہا ’ہمارے دشمن یہ نہ سمجھیں کہ ہم کمزور ہیں۔ مشرق و سطیٰ میں جو ملک بھی کمزور سمجھا جاتا ہے اسے دوسرے ممالک کچا کھا جاتے ہیں‘ بائیڈن نے بڑے تحمل سے نیٹن یاہو کی ساری بات سنی اور پھر مختصر جواب دیا ’ہم تمہارے ساتھ ہیں‘

جو بائیڈن سے بات کرنے کے بعد نیٹن یاہو نے امریکی نیشنل سیکورٹی کے مشیر جیک سالیوان کو فون کیا جو فرانس میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ چھٹیاں منانے گیا ہوا تھا۔ نیٹن یاہو نے سالیوان کو مشورہ دیا ’تم حزب اللہ کو بتا دو کہ ان کا اسرائیل پر حملہ کرنا ایسا ہی ہے جیسے انہوں نے امریکہ پر حملہ کیا ہو‘ نیٹن یاہو اس حقیقت سے بخوبی واقف تھا کہ حزب اللہ کے پاس ہزاروں فوجیوں کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ راکٹ بھی ہیں۔ سالیوان کو یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ نیٹن یاہو خوفزدہ ہے کیونکہ اسرائیل ایک وجودی بحران کا شکار ہے۔ نیٹن یاہو کو ڈر ہے کہ اس کے دشمن چاروں طرف سے اسرائیل پر حملہ آور ہو جائیں گے اور اسے صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیں گے۔ اسرائیل کو اپنی فوج اور اپنی انٹیلی جنس پر جو غرور تھا وہ غرور سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو خاک میں مل گیا تھا۔

امریکی حکومت کے مشرق و سطیٰ کے مشیر بریٹ میکگرک نے جب اسرائیلی حکومت سے رابطہ کیا تو اسرائیلی حکومت نے کہا کہ انہوں نے حماس کے سب دہشت گردوں کو ٹھکانے لگا دیا ہے لیکن جب میکگرک نے اپنے ذرائع سے غیر جانبدارانہ معلومات جمع کیں تو اسے پتہ چلا کہ اسرائیل کی گلیوں اور سڑکوں پر ابھی تک ایک ہزار حماس کے جنگجو بندوقیں تانے گھوم پھر رہے تھے۔

جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس سے ساری دنیا سے خطاب کرتے ہوئے کہا
’ہم ساری دنیا کے دہشت گردوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ ‘

اسرائیل کو یہ جاننے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ یہودیوں کی تاریخ میں ہولوکاسٹ کے بعد سات اکتوبر دو ہزار تئیس کا حملہ سب سے زیادہ مہلک حملہ تھا جس میں بارہ سو یہودی مارے گئے اور دو سو چالیس اسرائیلی جنگی قیدی بن گئے۔

اسرائیلی حکومت کی غفلت

حماس کے غیر متوقع حملے کے خوفناک نتائج دیکھ کر نیٹن یاہو کا خصوصی مشیر رون ڈرمر دیر تک سوچتا رہا کہ اسرائیلی حکومت ’فوج اور انٹیلی جنس سے اتنی بڑی غفلت کیسے ہوئی۔ اس بحران کی وجوہات کیا ہیں۔ اسے جو سمجھ آیا وہ یہ تھا

پہلی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل کی ساری توجہ کا مرکز حزب اللہ کی سیاسی اور عسکری کارروائیاں تھیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ حماس ان پر اتنا تباہ کن حملہ کرے گا۔ اسرائیل نے حماس کی طاقت کا غلط تخمینہ لگایا تھا۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ کے باشندوں کو خوش کرنے کے لیے بیس ہزار فلسطینیوں کو اسرائیل میں ملازمت دے رکھی تھی۔

رون ڈرمر نے جب اپنے پرانے کاغذات کو ٹٹولا تو اسے اندازہ ہوا کہ حملے سے ایک سال پہلے انٹیلی جنس نے ایک رپورٹ بھیجی تھی جس میں درج تھا کہ حماس ایک بڑے پیمانے پر اسرائیل پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اس رپورٹ میں حملے کی سب تفاصیل درج تھیں۔ حماس نے سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو ان ہی تفاصیل پر عمل کرتے ہوئے حملہ کیا تھا۔ اسرائیلی حکومت اور انٹیلی جنس نے اس رپورٹ کو نظر انداز کیا تھا اسی لیے انہیں اس غفلت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔

نیٹن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ حماس تنظیم کا سر کچل ڈالے گا۔ اسے اتنا تباہ و برباد کر دے گا کہ وہ آئندہ اسرائیل کی طرف غلط نگاہ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔

امریکہ کی نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائرکٹر ایول ہینز نے امریکی حکام کو بتایا کہ اس جنگ میں اسرائیل کی حالت نازک ہے کیونکہ ان پر ایک طرف سے حماس دوسری طرف سے حزب اللہ تیسری طرف سے ہوتیز اور چوتھی طرف سے ایران حملہ آور ہو کر اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

گیارہ اکتوبر: ایک خطرناک دن

جنگ شروع ہونے کے چار دن کے بعد گیارہ اکتوبر دو ہزار تئیس کو صبح نو بج کر پچپن منٹ پر جو بائیڈن اور بی بی نیتن یاہو کا فون پر مکالمہ ہوا جو بائیڈن کے سیاسی اور عسکری مشیروں نے بھی سپیکر فون پر سنا۔ اس مکالمے میں نیتن یاہو بائیڈن سے اس بات کی یقین دہانی لینا چاہتا تھا کہ جب اسرائیلی فوج لبنان میں حزب اللہ پر حملہ کرے تو امریکہ اس کا پورا ساتھ دے۔ نیتن یاہو نے اپنے فیصلے کی حمایت میں یہ دلیل پیش کی کہ اسرائیلی انٹیلی جنس نے اسے بڑے تیقن سے یہ بتایا ہے کہ حزب اللہ اسرائیل پر حملے کی تیاریاں مکمل کر چکا ہے اسی لیے اسرائیل حزب اللہ کے حملے سے پہلے اس پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے ایک لاکھ پچاس ہزار راکٹوں کے ذخیرے کو مکمل طور ہر تباہ و برباد کرنا چاہتا ہے۔

جب نیتن یاہو کی بات مکمل ہو گئی تو جو بائیڈن نے کہا کہ تم حزب اللہ کے اسلحہ و بارود کے ذخیرے کو مکمل طور پر تباہ و برباد نہیں کر سکتے۔ تم جانتے ہو کہ تمہارے حملے کے بعد جو حزب اللہ کا جوابی حملہ ہو گا وہ بہت شدید اور خطرناک ہو گا جس کے بعد حالات بے قابو ہو جائیں گے اور جنگ کی آگ مشرق و سطیٰ میں چاروں طرف پھیل جائے گی۔ بائیڈن نے مزید کہا کہ اسرائیل کا کل رقبہ مشرق مغرب پچاسی میل اور شمال جنوب دو سو نوے میل ہے اور حزب اللہ کے پاس ایسے راکٹ موجود ہیں جو وہ اسرائیل کے کسی بھی شہر یا دیہات پر پھینک کر اسے تباہ و برباد کر سکتے ہیں اور بہت سے اسرائیلیوں کو ہلاک کر سکتے ہیں۔

نیتن یاہو نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ حزب اللہ پر حملہ کریں گے تو جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ بائیڈن نے کہا کہ میں نے اپنے عسکری مشیروں سے مشورہ کیا ہے وہ اسرائیل کے حزب اللہ پر حملہ کرنے کے حامی نہیں ہیں۔ اس لیے اگر تم نے حملہ کرنے میں پہل کی تو پھر تم خود کو اکیلا پاؤ گے ہم پھر اس جنگ میں تمہاری مدد نہیں کر سکتے۔ جب نیتن یاہو پھر بھی پیچھے نہ ہٹا تو بائیڈن نے کہا ہاں اگر حزب اللہ اسرائیل پر راکٹوں اور میزائلوں سے حملہ کرنے میں پہل کرتا ہے تو پھر اسرائیل اپنی مدافعت میں حزب اللہ پر حملہ کر سکتا ہے۔ بائیڈن نے نیتن یاہو کو یہ بھی سمجھانے کی کوشش کی کہ سیاسی لیڈروں کو فوجیوں کی لگی لپٹی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔ انہیں اپنے فیصلے خود کرنے چاہئیں اور پھر ان فیصلوں کے نتائج کی ذمہ داری لینی چاہیے۔

نیتن یاہو نے پھر بھی اصرار کیا تو بائیڈن نے کہا کہ تم نہیں جانتے کہ امریکہ کے پینتالیس ہزار فوجی مشرق و سطیٰ کے مختلف عرب ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ اس لیے اگر تم نے حزب اللہ پر حملہ کیا تو ہمارے پینتالیس ہزار فوجیوں کی جان خطرے میں ہوگی کیونکہ حزب اللہ انہیں مار ڈالنے کی کوشش کرے گا۔ جب نیتن یاہو بائیڈن کو قائل نہ کر سکا تو اس نے کہا کہ میں نے تمہاری بات سن لی ہے اب میں اپنی فوجی کابینہ کا پاس جاؤں گا اور تمہارا مشورہ پیش کروں گا اور پھر ہم مل کر فیصلہ کریں گے جو ہماری ریاست کے لیے ضروری ہو گا۔ گفتگو کے آخر میں بائیڈن نے نیتن یاہو سے کھل کر کہا کہ اگر تم نے حزب اللہ پر پہلے حملہ کیا تو وہ ایک فاش غلطی ہوگی۔ اس کے جواب میں نیتن یاہو نے بھی تلخ لہجے میں کہا
ہم اپنے فیصلے خود کریں گے۔ اگر ہم ضروری سمجھیں گے تو حزب اللہ پر ضرور حملہ کر دیں گے۔

بے یقینی کا عالم

جو بائیڈن کو اندازہ ہو گیا تھا کہ نیتن یاہو اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹا تھا اس لیے اس نے اپنے عسکری مشیروں سے مشورہ کیا کہ انہیں تیار رہنا چاہیے کہ اگر اسرائیل نے حزب اللہ پر حملہ کر دیا تو انہیں کیا کرنا ہو گا۔

بائیڈن کا خیال تھا کہ چونکہ اسرائیل کو حماس کے حملے سے بہت ندامت ہوئی تھی اور ان کی قومی انا مجروح ہوئی تھی اس لیے وہ حزب اللہ پر حملہ کر کے دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ ہم طاقتور ہیں۔

ایک گھنٹہ بعد نیتن یاہو کے مشیر رون ڈرمر نے جیک سالیوان کو فون کر کے بتایا کہ نیتن یاہو پر اسرائیلی فوجی قیادت کا دباؤ ہے کہ اسے حزب اللہ پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ڈرمر نے یہ بھی کہا کہ وہ اس بات سے خوش نہیں ہیں کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کا ساتھ نہیں دیا۔ ڈرمر کی باتیں سن کر سالیوان بھی غصہ میں آ گیا۔ اس نے اونچی آواز سے ڈرمر سے کہا کہ تم جو حملہ کرنے کا سوچ رہے ہو وہ ایک خطرناک قدم ہو گا۔ وہ قدم نہ تمہارے لیے اچھا ہو گا نہ امریکہ کے لیے۔ امریکی صدر اس حملے کے سخت خلاف ہے۔ سالیوان نے گیارہ بج کر تیرہ منٹ پر بائیڈن، بلنکن اور میکگرک کو ڈرمر سے اپنی گفتگو کے بارے میں بتایا۔

تین منٹ کے بعد ڈرمر نے پھر سالیوان کو فون کیا۔ سالیوان نے سپیکر فون آن کر دیا تا کہ باقی لوگ بھی اس گفتگو کو سن سکیں۔ ڈرمر نے کہا ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ حزب اللہ کا حملہ شروع ہو چکا ہے۔ شمال کی طرف سے پیراگلائڈر آ رہے ہیں۔ اب ہم بھی آدھ گھنٹے میں جوابی حملے کے لیے تیار ہیں۔

سالیوان کو اندازہ ہو گیا کہ مشرق وسطیٰ کی جنگ شروع ہونے والی ہے۔ میکگرگ نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ پیراگلائڈر کا کوئی نشان نہیں ہے۔ سالیوان اور بلنکن نے جلد سے ہینز ’برنز اور اوسٹن سے پوچھا کہ کیا انہیں کوئی پیرا گلائڈر نظر آیا ہے۔ ان سب نے کہا۔ نہیں۔ چنانچہ سالیوان نے ڈر مر کو فون کر کے بتایا کہ تم جن معلومات کی بنیاد پر حملہ کر رہے ہو وہ معلومات غلط ہیں۔ حزب اللہ کے پیرا گلائڈرز کی خبر غلط ہے۔ تم جنگ کی دھند میں کھو گئے ہو۔ چنانچہ اسرائیل نے حملہ کرنے کے فیصلے کو منسوخ کر دیا۔ بعد میں پتہ چلا کہ اسرائیلی جن تصویروں کو پیرا گلائڈر سمجھ رہے تھے وہ دراصل پرندوں کی تصویریں تھیں۔

امریکی حکام کو اندازہ تھا کہ اگر وہ اسرائیلی حکام کو ان کی غلطی کا احساس نہ دلاتے تو ایک اور خوفناک جنگ کا آغاز ہو سکتا تھا۔ (جاری ہے )

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 751 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments