تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکت۔ ایک سنجیدہ تحریر
سنجیدہ تحریر لکھنا ہمیں پسند نہیں۔ لیکن بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں کہ سنجیدہ تحریر کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں ہوتا۔ اور اب ایسا ہی ایک موقع ہے۔
تحریک انصاف کے احتجاج سے حکومت نے نہایت سختی سے نمٹا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا سیل کے علاوہ ذمہ دار بھی اس تواتر سے جھوٹ بولتے ہیں کہ صرف ان کے بیان پر اعتبار کرنے میں تامل ہوتا ہے۔ پہلے پہل تحریک انصاف کے ترجمان نے 8 ہلاکتوں کا بتایا، شیر افضل مروت نے 12 کا، کسی ذمہ دار لیڈر نے سو سے زیادہ کا، کسی نے ڈھائی سو پلس کا۔ سچی بات ہے کہ ہمیں یقین ہی نہیں آیا تھا کہ حکومت ایسی حماقت کر سکتی ہے۔
اب گارجین اور بی بی سی نے ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے تو حتمی طور پر پتہ چلا ہے کہ حکومت سفید جھوٹ بول رہی ہے اور واقعی تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ اس بات کی بحث نہیں رہی کہ چار افراد ہلاک ہوئے ہیں یا بیس یا زیادہ۔ معاملہ افسوس ناک ہے۔ چلیں جو افراد قانون ہاتھ میں لے رہے تھے انہیں تو طاقت سے روکا جانا چاہیے تھا، لیکن اس مظاہرے میں ایسے عام لوگوں کی بھی نمایاں تعداد موجود تھی جو محض اپنا جمہوری اور آئینی حق چاہتے تھے اور کسی قسم کی قانون شکنی کے قائل نہیں تھے۔ ان کے ساتھ ایسا ظلم کیوں کیا گیا؟ شاید رینجرز کی ہلاکت کے بعد حکومت نے سخت ترین اقدام کا فیصلہ کیا ہو گا۔ اسے بھِی تو کسی کو جواب دینا ہوتا ہے نا۔
ذمہ داری کی بات کی جائے تو حکومت ذمہ دار ہے جس نے کسی بہتر انداز میں معاملے کو حل نہیں کیا، اور تحریک انصاف کی لیڈر شپ بھی ذمہ دار ہے جس نے عمران خان کی ہدایات کے باوجود ہر قیمت پر ڈی چوک پہنچنے کی کوشش کی۔ وزیروں کے بیانات کی تو ہم بات نہیں کرتے، لیکن سنگ جانی پر جلسہ کرنے کا عمران خان کا موقف مشیر اطلاعات خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف کے علاوہ شیر افضل مروت اور دیگر کا بھی ہے۔ اور یہی بہتر ہوتا۔ لمبے دورانیے کی گیم کھیلنے کے کامیاب کپتان عمران خان کا فیصلہ درست تھا۔
حکومت سے سوال ہے کہ اگر یہ افراد ڈی چوک پہنچ کر پر امن جلسہ کر لیتے تو کیا فرق پڑ جاتا؟ 2014 میں وہاں 126 دن کے دھرنے سے کیا فرق پڑ گیا تھا؟ اب تو ویسے بھی دسمبر سر پر آیا کھڑا ہے۔ اسلام آباد کی سخت سردی میں ڈی چوک کے کھلے آسمان تلے کتنے دن تک قیام کیا جا سکتا ہے؟ اگر وہاں مظاہرین اسی طرح پارلیمنٹ اور پی ٹی وی وغیرہ پر دوبارہ حملہ کرتے جیسا 2014 میں کیا تھا، تو حکومت کے پاس صرف ان حملہ آوروں کو اندھی طاقت کے استعمال سے روکنے کا جواز موجود ہوتا۔ اب یہ جواز موجود نہیں تھا۔
لگتا یہی ہے کہ حکومت اب مسلسل سخت اقدامات اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ملک کو مسلسل ہیجان میں مبتلا رکھنا اسے ٹھیک نہیں لگ رہا۔ اس لیے وہ سختی کی طرف مائل ہو رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سختی گولیاں چلانے کے بعد کہاں تک جائے گی؟ کیا ایمرجنسی نافذ کر کے بنیادی حقوق معطل ہوں گے یا اس سے بھی بڑھ کر کچھ ہو گا؟ مارچ 1971 کے آپریشن سرچ لائٹ میں بھی اندھی طاقت کے استعمال سے ملک کو استحکام بخشنے کی کوشش سب کو یاد ہی ہے۔
تحریک انصاف کے کیمپ سے اطلاعات یہی ہیں کہ یہ کارکن اپنی لیڈر شپ پر بھی اعتبار نہیں کر رہے تھے۔ جس طرح علی امین گنڈاپور کو کارکنوں نے محصور کیا ہوا تھا، اور انہیں ٹائلٹ بھی نہیں جانے دے رہے تھے، وہ ویڈیو سب کے سامنے ہے۔ کارکن مشتعل تھے، لیڈر شپ کا کام انہیں کنٹرول کرنا تھا لیکن وہ انہیں مزید مشتعل کرنے میں لگی رہی، حتیٰ کہ وہ لیڈر شپ کو بھی ایک طرف کرنے پر مائل ہو گئے۔
سیاسی معاملات کو سمجھوتے سے حل کرنا چاہیے۔ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہوتا، نہ عام بندے کے ساتھ نہ سیاسی لیڈر کے ساتھ۔ یہ انصاف 1977 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ نہیں ہوا، 1993 سے پاکستان مسلم لیگ نون کے ساتھ نہیں ہوا اور اب تحریک انصاف کے ساتھ بھی نہیں ہو رہا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی لیڈر شپ نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا اور کڑا وقت سر نیچے کر کے گزارا تاکہ ان کے کارکن اور حامی محفوظ رہیں، ان کے ساتھ وہ کچھ نہ ہو جو جنرل ضیا کے فسطائی دور میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہوا تھا۔
ویسے بھی پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ ڈھائی تین سال بعد سیاسی حکمرانوں سے نہ صرف عوام بلکہ باطنی حکمران بھی عاجز آ جاتے ہیں۔ ایک دو سال مزید انتظار کر کے عوام اور خواص کی توجہ حکومتی کارکردگی کی طرف مبذول ہونے کا انتظار کرنا بہتر ہو گا۔ امریکہ اور برطانیہ میں پاکستانی کی بہت بڑی تعداد عمران خان کی حامی ہے۔ ان کے ذریعے بیرونی دباؤ برقرار رکھنا چاہیے۔
اس موقعے پر تحریک انصاف کی لیڈر شپ کو صدر آصف علی زرداری سے رابطہ کرنا چاہیے۔ آصف زرداری سجھوتے اور ثالثی کروانے کے بادشاہ ہیں اور ایسا سمجھوتہ کروا دیتے ہیں جس میں ہر فریق کے لیے کچھ اچھا موجود ہو۔ یا پھر تحریک انصاف کے لیے دوسرا راستہ یہ ہے اس خون پر سیاست کر کے حالات کو مزید گرم کیا جائے۔ اس سے کیا ہو گا؟ مزید جانیں جائیں گی اور عین ممکن ہے کہ بات بنیادی حقوق معطل کرنے یا اس سے بھی سخت اقدام کی طرف جائے۔ اس صورت میں فی الحال تحریک انصاف کا زیادہ نقصان ہو گا۔
بہرحال یہ تو ہمارے خیالات ہیں، نہ حکومت ان کی پروا کرتی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف، جنگل میں ہو گا تو وہی جو شیر کی مرضی ہو گی۔ اس لیے بس بے بسی سے بیٹھے ہاتھ ملیں اور افسوس کریں۔ اس لنکا میں تو ہر شخص ہی باون گز کا ہے تو ہم تم بھلا کیا بیچتے ہیں
پی ٹی آئی کے خلاف گرینڈ آپریشن کے بعد اسلام آباد کے ہسپتالوں میں بی بی سی کی ٹیم نے کیا دیکھا
- درویش کی آہ نے گودی میڈیا کا منہ کالا کر دیا - 13/05/2025
- طاقتور سے نمٹنے کے تین طریقے اور پاکستانی رام لیلا - 05/02/2025
- تحریک انصاف کے کارکنوں کی ہلاکت۔ ایک سنجیدہ تحریر - 28/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).