سرظفراللہ خان، باؤنڈری کمیشن اور کھوٹے سکے


تاریخ کے گلے پہ چھری پھیرنے کا چلن اتنا ہی پرانا ہے جتنی کہ خود تاریخ۔صدیوں پرانی تاریخ کے ساتھ کوئی کھلواڑ کرے تو بعض اوقات تاریخی حقائق وشواہد کے نہ ہونے کی وجہ سے کھلواڑ کا رد کرنا چنداں مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے یار لوگ چند سال پرانی تاریخ کے ساتھ بھی دو دو ہاتھ کرنے پہ تلے ہیں.

قائد اعظم سے منسوب ایک جملے کو بھی گاہے گاہے تازہ کیا جاتا ہے جس میں قائد اپنے ساتھیوں کو کھوٹا سکہ کہتے نظر آتے ہیں اور پاکستان کے قیام کا سارا کریڈٹ خود کو اور اپنے ٹائپ رائیٹر کو دیتے بھی نظر آتے ہیں۔ اس کھوٹے سکے والے بیان کی اوٹ سے سب سے زیادہ سنگ باری سر ظفراللہ خان پہ کی جاتی ہے جو جماعت احمدیہ کے سرکردہ رکن اور قائد کے ممتاز ساتھیوں میں سے تھے۔ اسی وجہ سے شاید ان پہ الزامات لگانا نسبتا آسان ہے، مگر برا ہو تاریخ کا یہ سر ظفراللہ خان کا دفاع کرتی نظر آتی  ہے۔

اس قصہ پارینہ کو اب کے سیف اللہ خالد صاحب نے تازہ کیا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں:

“باؤنڈری کمیشن میں بھیجا گیا وکیل اپنے عہد کا کامیاب وکیل کہا جاتا ہے، اس کے بعد بھی عالمی شہرت کا دعویٰ ہے۔ مگر وہاں اپنے ہی کیس کے خلاف نہ صرف دستاویز جمع کروا دی بلکہ تقسیم کے یونٹ کے معاملہ میں اپنے موکل کے مفاد کے خلاف رائے اختیار کی۔ کشمیر کا قضیہ اس نو مولود ریاست کی گردن میں ایسا فٹ کیا کہ پون صدی اس کی نذر ہوگئی، آئندہ بھی آزادی کا کوئی لمحہ میسر آتا دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

باونڈری کمیشن میں بھیجے جانے والے وکیل سرظفراللہ خان تھے،جن پر سیف اللہ خالد کا الزام ہے کہ انہوں نے:

۱)اپنے کیس کے خلاف دستاویز جمع کروائیں

۲) تقسیم کے یونٹ کے معاملہ میں اپنے موکل کے مفاد کے خلاف رائے اختیار کی۔

۳)کشمیر کا قضیہ ریاست کی گردن میں فٹ کیا

یہ الزامات قطعاً نئےنہیں ہیں۔ قبل ازیں مختلف شکلوں میں یہ باتیں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ اس ویب سائٹ ہی پر ان الزمات کی حقیقت الم نشرح کی گئی تھی، مگر جب مطمح نظر صرف الزام تراشی ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے جس میں دھول اڑانا ہی مقصد رہ جاتا ہے۔

جہاں تک اول الذکر الزام کی بات ہے تو یہ اس طرف اشارہ ہے جس میں جماعت احمدیہ نے بھی علیحدہ میمورنڈم پیش کیا تھا۔ اس سلسلے میں حقائق یہ ہیں کہ باونڈری کمیش میں کل 23 میمورنڈم پیش کئے گئے تھے جن میں مسیحی برادری کے علاوہ مسلم لیگ بٹالہ نے بھی ایک میمورنڈم کمیشن میں پیش کیا تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ جماعت احمدیہ نے الگ سے کیوں میمورنڈم پیش کیا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ سکھوں کی طرف سے کمیشن میں یہ میمورنڈم پیش کیا گیا کہ چونکہ گورو گوبند سنگھ کی جائے پیدائش گوبند گورداسپور میں واقع ہے اس لئے اس خاص امر کا لحاظ رکھنے سے مسلمانوں کی ایک اعشاریہ چار کی اکثریت کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔اس پراپیگنڈہ کا اثر زائل کرنے کے لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے میمورنڈم پیش کیا گیا کہ اگر مقدس مقامات کی بنیاد پر کسی علاقے کے پاکستان یا انڈیا میں شامل ہونے کا فیصلہ ہونا ہے تو قادیان میں جماعت احمدیہ کے مقدس مقامات موجود ہیں اور وہاں کے احمدیوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے اس لئے سکھوں کی یہ دلیل کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

اسی مضمون کا میمورنڈم مسلم لیگ بٹالہ نے بھی کمیشن میں پیش کیا تھا جس میں سکھوں کے مقدس مقامات کی بناپر ضلع کو ہندوستان میں شامل کرنے کی دلیل کو رد کرنے کی غرض سے یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اگر مقدس مقامات کی بنیاد پر کسی علاقے کے پاکستان یا انڈیا میں شامل ہونے کا فیصلہ ہونا ہے تو قادیان میں مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے اور اس کے مقدس مقامات وہاں موجود ہیں اور وہاں کے احمدیوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔حوالے کے لئے ملاحظہ فرمائیے:

(صفحہ 472The Partition of Punjab 1947 , Volume I)

باونڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کے وکیل شیخ بشیر احمد صاحب نے یہ میمورنڈم پیش کیا تھا نہ کہ سر ظفراللہ خان صاحب نے۔ اس امر سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ یار لوگ کس طرح سنی سنائی پہ اکتفا کرتے ہوئے الزام جڑ دیتے ہیں معمولی سی تحقیق کی بھی زحمت نہیں کی جاتی۔

سابق سفیر اور وزیر سید احمد سعید کرمانی باونڈری کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے والے سنئیر وکیل سر محمد ظفر اللہ خان کے معاون وکلا میں شامل تھے ایک انٹرویو کے دوران احمد سعید کرمانی صاحب ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:

”چودھری صاحب نےجو پھر بحث کی ،ایڈوکیسی کی ہسٹری میں، انڈیا کی نہیں، انگلینڈ کی نہیں، امریکہ کی نہیں، پوری دنیا میں اس کی ایک مثال نہیں۔ اور سیتل واڈا جو بعد میں انڈیا کا اٹارنی جنرل بنا وہ انڈیا کی طرف سے پیش ہو رہا تھا کانگریس کی طرف سے، اس نے کہا کہ اگر اس مقدمے کا فیصلہ دلائل کی بنیاد پر ہونا ہے توظفر اللہ خان جیت چکے ہیں۔ اور میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اچھے آرگومنٹس مسلم انڈیا کی طرف سے کوئی پیش کر سکتا ہے ۔‘‘

(از انٹرویو سعید احمد کرمانی مطبوعہ قومی ڈائجسٹ اگست2002صفحہ29۔30)

جسٹس منیر صاحب جو اس کمیشن کا حصہ تھے،سر ظفراللہ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”احمدیوں کے خلاف معاندانہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے ہیں کہ باونڈری کمیشن کے فیصلے میں ضلع گورداسپور اس لئے ہندوستان میں شامل کر دیا گیا کہ احمدیوں نے خاص رویہ اختیار کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان نے جنہیں قائد اعظم نے اس کمیشن کے سامنے مسلم لیگ کا کیس پیش کرنے پر مامور کیا تھا خاص قسم کے دلائل پیش کئے۔ لیکن عدالت ہذا کا صدر جو اس کمیشن کا ممبر تھا اس بہادرانہ جدوجہد پر تشکر و امتنان کا اظہار کرنا اپنا فرض سمجھتا ہے جو چوہدری ظفر اللہ خان نے گورداسپور کے معاملہ میں کی تھی۔ یہ حقیقت باونڈری کمیشن کے کاغذات میں ظاہر و باہر ہے اور جس شخص کو اس معاملے میں دلچسپی ہو وہ شوق سے اس ریکارڈ کا معائنہ کر سکتا ہے ۔چوہدری ظفر اللہ خان نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات انجام دیں۔ ان کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالت تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ شرمناک ناشکرے پن کا ثبوت ہے۔ ‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ 209)

اس شرمناک شکرے پن کا سلسلہ ابھی تک پوری شدومد کے ساتھ جاری ہے۔ مسلم لیگ کیس کیس میں سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ بقول عاشق حسین بٹالوی:

’’ سات سال مسلسل نعروں، تقریروں اور بیان بازیوں میں صرف کر دیے۔ بالآخر جب قرارداد لاہور کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آیا تو چودھری ظفراللہ خاں کو صرف تین دن کی مہلت دی گئی کہ اس قلیل عرصے میں تن تنہا بیٹھ کر کیس بھی تیار کریں اور گزشتہ ایک سو سال کا تاریخی مواد بھی فراہم کریں“۔

ان تین دنوں میں چوہدری صاحب نے جس محنت،کوشش اور سعی پیہم سے مسلم لیگ کا کیس لڑا اس کی مثال ایڈوکیسی کی تاریخ میں ملنی ممکن نہیں، لیکن معترضین کا کیا کیا جائے کہ مخالف کے اوصاف بھی انہیں عیوب ہی نظرآتے ہیں۔

دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اپنے موکل کے خلاف رائے اختیار کی۔سوال یہ ہے کہ موکل کی کیا رائے تھے؟ کیا موکل وہاں موجود بھی تھا؟ اس کیس کی تیاری مسلم لیگ پنجاب کے ذمہ تھی، لیکن سرظفراللہ خان جب لاہور پہنچے ہیں تو وہاں موجود وکلا بھی بے خبر تھے کہ ہم نے کسی کیس میں پیش ہونا ہے۔ چوہدری صاحب اپنی خود نوشت میں لکھتے ہیں:

’’ پورے غور و خوض کے بعد ہم سب کا میلان اسی طرف ہوا کہ تحصیل کو یونٹ قرار دیے جانے پر زور دیا جائے۔ لیکن اس بات کا فیصلہ ہم اپنے میلان کی بنا پر نہ کرسکتے تھے۔ ہم مسلم لیگ کی طرف سے وکیل کے طور پر مسلم لیگ کا کیس تیار کر رہے تھے۔ لیگ کی طرف سے کیا کیس پیش کیا جائے اس کا فیصلہ کرنا مسلم لیگ کے اختیار میں تھا۔ پنجاب میں مسلم لیگ کے صدر نواب صاحب ممدوٹ تھے ان سے استصواب لاحاصل تھا۔ وہ اپنی روایتی تواضع اور انکساری کی وجہ سے خود کوئی فیصلہ فرماتے نہیں تھے۔

 میاں ممتاز محمد خان دولتانہ کی خدمت میں میں نے گزارش کی کہ ”ملحقہ اکثریت کے علاقوں“ کی تشخیص کے لیے ہماری طرف سے کونسا یونٹ اختیار کرنے پر زور دیا جائے۔ انہوں نے فرمایا اس بات کو تم سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے؟ جو تجویز تم کرو گے، وہی بہتر ہو گی۔ میں نے کہا یہ فیصلہ مسلم لیگ کی طرف سے ہونا چاہیے۔ میں تو ایک فرد واحد ہوں اور میری حیثیت بھی وکیل کی ہے۔ مجھے جو ہدایات مسلم لیگ کی طرف سے دی جائیں مجھے ان کی پابندی کرنی ہو گی۔ میاں صاحب نے میری رائے دریافت کی۔ میں نے مختصر طور پر اپنا اور اپنے رفقائے کار کا رجحان بیان کر دیا۔ میاں صاحب نے فرمایا تو بس یہی ٹھیک ہے۔ اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے“۔

کس قدر وضاحت کے ساتھ انہوں نے اپنے موکل سے ہدایات لیکر کیس پیش کیا۔ اس کے باوجود یہ الزام لگانا کہ انہوں نے موکل کے رائے کے خلاف رائے اختیار کی سفید جھوٹ کے علاوہ کیا کہلا سکتا ہے۔ بٹالوی صاحب نے حقیقت بیان کر دی ہے۔ تحصیل کو یونٹ قرار دئے جانے کی تفصیل بھی چوہدری صاحب نے بیان کی ہے

ایسے بے بنیاد الزامات کی اوٹ سے کشمیر کا قضیہ چوہدری صاحب کے سرمنڈھنے کا افسانہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں رہتا۔ سر ظفراللہ خان جیسے دور اندیش اور محنتی کارکنان کے ساتھ ہی قائد ملک بنانے میں کامیاب ہوئے، جنہوں نے اپنی زندگیوں کے قیمتی لمحات قائد کے نام کئے اور ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ آج ان پر بے سروپا الزامات سے ان کا قد تو گھٹنے سے رہا، معترضین کی اپنی لاعلمی ضرور ظاہر ہوتی ہے۔

راشد احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

راشد احمد

راشداحمد بیک وقت طالب علم بھی ہیں اور استاد بھی۔ تعلق صحرا کی دھرتی تھرپارکر سے ہے۔ اچھے لکھاریوں پر پہلے رشک کرتے ہیں پھر باقاعدہ ان سے حسد کرتے ہیں۔یہ سوچ کرحیران ہوتے رہتے ہیں کہ آخر لوگ اتنا اچھا کیسے لکھ لیتے ہیں۔

rashid-ahmad has 27 posts and counting.See all posts by rashid-ahmad