جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
صبح نو بجے کا وقت ہے۔ یو این کے سٹولک سٹیشن میں پہلی شفٹ کا آغاز ہوئے ایک گھنٹہ گزر چکا ہے۔ ڈیوٹی افسر کی طرف سے دی گئی ضروری بریفنگ میں شرکت کے بعد پولیس افسران دو سفید ڈبل کیب گاڑیوں میں سٹیشن سے باہر نکلے ہیں۔ ان میں دو دو پولیس افسران اور ایک خاتون ترجمان سوار ہے۔ ایک گاڑی لوبینیا کی سمت روانہ ہوتی ہے اور دوسری بیرکووچی کی طرف۔ ان گاڑیوں میں مستقل طور پر آٹھ صفحات پر مشتمل ایک مجلد فائل رکھی ہوئی ہے۔ یہ ڈیٹن معاہدہِ امن کا وہ حصہ ہے جو ملک میں آزادانہ نقل و حمل کے حوالے سے کیے گئے اتفاق کو بیان کرتا ہے۔ یہ دونوں گاڑیاں جن سمتوں میں روانہ ہیں وہاں ایک مقام کو نسلی سرحد قرار دیا گیا ہے جس سے آگے سربوں کا علاقہ جمہوریہ سربسکا شروع ہوتا ہے۔ یہاں مقامی پولیس کی طرف سے چیک پوائنٹ قائم کرنا غیر قانونی ہے لیکن ان دونوں جگہوں پر یہ پوائنٹ قائم ہیں جو کروایٹ پولیس نے قائم کر رکھے ہیں۔ ہر روز ہر شفٹ میں یو این پولیس ان پوائنٹوں پر جا کر وہاں موجود مقامی پولیس اہلکاروں کو بتاتی ہے کہ وہ یہاں غیر قانونی طور پر ناکہ لگائے ہوئے ہیں۔ اس کے جواب میں وہ مسکراتے ہیں اور ہر مرتبہ جو کچھ کہتے ہیں وہ نوری نت کے مکالمے سے مختلف نہیں ہوتا۔ نواں آیا ایں سوہنیا۔ ( لگتا ہے نئے آئے ہو جی)
پاکستان کیا ایشیا کے کسی بھی ملک سے بوسنیا کے یو این مشن میں آنے والے دستے کو دفترِ خارجہ سے بریفنگ کے ذریعے عمومی آگاہی کا انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ چنانچہ ہمیں پتہ ہی نہ تھا کہ اس ملک میں بظاہر دو اور حقیقت میں تین حصے کیوں ہیں۔ ڈیٹن معاہدہِ امن کیا ہے اور یہاں کا نظامِ حکومت ایسا مختلف اور مشکل کیوں ہے۔
1995 میں امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رچرڈ ہالبروک کی قیادت میں امریکہ کے ایک مقام ڈیٹن میں ہونے والے پندرہ روزہ مذاکرات میں اس وقت کی تینوں متحارب قوموں کے بڑوں نے شرکت کی۔ سربوں کی طرف سے سولابودان ملاسوچ، کروایٹوں کی طرف سے کروایشیا کے صدر فرانجوتجمین اور مسلمانوں کی طرف سے عالیجاہ عزت بیگوچ ان مذاکرات کا حصہ بنے۔ یہ بات طے تھی کہ یورپ میں ایک آزاد اور خود مختار مسلمان ریاست کے قیام کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا بھان متی کے کنبے کی طرز پر ایک ملک کے قیام پر اتفاق ہوا۔ اس ملک کے دو حصے ہونے تھے۔ ایک حصہ جمہوریہ سربسکا جو مکمل طور پر ایک سرب مملکت ہو گی جس کا اپنا صدر بھی ہو گا اور اپنی فوج بھی۔ دوسری طرف دوسرا حصہ بوسنین کروایٹ فیڈریشن کہلائے گا۔ یہ دونوں حصے مل کر بوسنیا ہرزیگووینا کی مملکت ہوں گے۔ ملک کا 49 فی صد حصہ جمہوریہ سربسکا کے پاس اور باقی فیڈریشن کے پاس ہو گا۔ ملک کا نظامِ حکومت صدارتی ہو گا لیکن صدارت سے مراد ایک تکونی ادارہ ہو گا جس میں صدر اور دو نائب صدور شامل ہوں گے۔ صدر ہر مرتبہ باری باری نسلی شناخت کی بنیاد پر منتخب ہو گا اور اس کے دونوں نائب صدور کا تعلق بھی علیحدہ علیحدہ دوسری دو قومیتوں سے ہو گا۔ ہر حکومتی فیصلے پہ تینوں کا متفق ہونا لازمی ہو گا۔ حکومتی اہلکاروں کا تقرر نسلی بنیادوں پر مقرر کردہ کوٹے کے مطابق ہو گا۔
اب ایسے نظامِ حکومت کی نتیجے میں جو نتائج برآمد ہوئے ان کا ایک عکس ابتدائی سطور میں بیان ہوا ہے۔
1991 میں یوگوسلاویہ میں جب علیحدگی کی تحریکوں نے زور پکڑا تو ریاستوں نے ایک ایک کر کے اعلانِ آزادی کرنا شروع کیا۔ مرکز کی ان تحریکوں کو پسپا کرنے کی کوششیں ناکامی سے دو چار ہوئیں۔ آخر میں جب بوسنیا نے اعلانِ آزادی کیا تو اس کی مخلوط آبادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مرکز نے ایک بڑی جنگ کا آغاز کیا۔ یہ اگلے پانچ سال جاری رہی اور اس کے نتیجے میں سرائیوو کا محاصرہ اور سربینیسا میں بے دریغ قتلِ عام بہت نمایاں واقعات تھے۔ سربینیسا میں آٹھ ہزار نہتے مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل ایسا بے رحم تھا کی ماہ و سال کی گردشیں بھی اس کا مرہم نہ بن پائیں۔ اس واقعے کو تقریباً تین دہائیاں گزر چکی ہیں۔ لاشوں کی باقیات کی تلاش علاقے میں سال بھر جاری رہتی ہے۔ ہر سال قتلِ عام کے دن ایک تقریب میں ان باقیات کے تابوتوں کو متاثرین کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی میں سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ اس دن وہ لوگ جو کب کے سربنیسا چھوڑ چکے ہیں یہاں آ کر دن کا بڑا حصہ گزارتے ہیں۔ ان میں سے کئی ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہے کہ دیکھنے اور سننے والوں کے دل بھی قابو میں نہیں رہتے۔ اس سال ایسے موقع پہ آنے والے لوگوں میں ڈی ڈبلیو کی ایک دستاویزی فلم کے مطابق ایک شخص قریبی پہاڑ پہ جا کر اپنے بھائی کا نام لے لے کے صدائیں دیتا رہا اور کہتا رہا۔ ڈرو نہیں سامنے آ جاؤ میں یہاں موجود ہوں اب کوئی سرب تمہاری جان نہیں لے سکتا۔
ہمارا پولیس سٹیشن سٹولک ہرزے گووینیا میں اس کے صدر مقام موسطار سے تقریباً تیس کلو میٹر کے فاصلے پہ جمہوریہ سربسکا کی سرحد کے قریب واقع تھا۔ ماسوائے موسطار میں رواں دریائے نرٹوا کے بائیں کنارے کے باقی سارے ریجن میں کروایٹوں کی اکثریت تھی۔ یہ بوسنین فیڈریشن کے باسی ہونے کے باوجود اپنے علاقے کو کروایشیا کا حصہ سمجھتے تھے۔ وہ صرف اس قاعدے قانون کو مانتے تھے جو ان کی نسلی شناخت کو متاثر نہ کرے۔ یورپ جہاں دوسرے ممالک سے آ کر بسنے والوں کو یہ طعنہ دیا جاتا ہے ( جو کچھ ایسا غلط بھی نہیں ) کہ وہ ان ممالک کی معاشرتی اقدار کو اپنا کر دھارے کا حصہ بننے کے خواہاں نہیں پائے جاتے، ان لوگوں کو ایک نہ کر سکے جن کی نسل، زبان اور رنگت ایک جیسی تھی اور کتنے زمانوں سے اکٹھے رہ رہے تھے۔
بوسنیا میں ایک سال گزارنے کے بعد جب ہمارا دستہ 27 مئی 1997 کو واپس وطن روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت کے حالات کا نقشہ جو میری ”کتاب سب ورق تری یاد کے“ میں بیان ہوا تھا وہ کچھ یوں تھا۔
” ریجنل ہیڈ کوارٹر کے صدر دروازے پر پہنچ کر بس بائیں ہاتھ مڑی اور دریائے نرٹوا کے ساتھ ساتھ M۔ 17 شاہراہ پر آگے بڑھنے لگی۔ جامعہ ساریچہ حرم کا اکلوتا مینار کچھ دیر تک نظر آتا رہا۔ پھر وہ بھی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ موسطار کی آخری نشانی کے طور پر اب نرٹوا ہماری بس کے رُخ ہمارے ساتھ ساتھ بہہ رہا تھا۔ میں نے سوچا میرا یہ ہم سفر اس شہر سے گزر کر آیا ہے جہاں اس کے کناروں کا فاصلہ اس سے کہیں زیادہ ہوتا ہے جتنا کہ وہ نظر آتا ہے۔ پچھلے ایک سال کے دوران موسطار کے جہانِ سنگ و خشت میں تو تبدیلیاں آئی تھیں لیکن نفرتوں کے درمیان پیار کی بستی ابھرنے کی کوئی کرن کسی سمت سے نمودار نہ ہوئی تھی۔ نرٹوا کے دونوں کناروں پر تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے پر کچھ نئی عمارتیں وجود میں آ گئی تھیں۔ شاہراہوں کے کنارے لگائے گئے درختوں پر بھی اب کونپلیں پھوٹ چکی تھیں۔ لیکن دلوں کے فاصلے کم کرنے کے تمام حیلے غیر معتبر ٹھہرے تھے۔ میں نے دل ہی دل میں نرٹوا سے یہ سوال کیا کہ تیرے دونوں کناروں پر آباد لوگوں کے درمیان یہ فاصلے آخر کب سمٹیں گے۔ نرٹوا نے میرے کان میں ایک سرگوشی کی۔
صبا کی مست خرامی تہہِ کمند نہیں
اسیرِ دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم ”
افسوس یہ خواہش کبھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکی۔ ستائیس سال بیت جانے کے باوجود اب بھی زمینی حقائق تلخی سے لبریز ہیں۔
- سفرِ کوسوو: آخری قسط - 20/01/2025
- سفرِ کوسوو (3) - 07/01/2025
- سفرِ کوسوو (2) - 29/12/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).