چند دن تاریخی روایات کی سرزمین ملتان میں ( 1 )


مجھے نگر نگر گھومنے کا شوق بچپن سے ہی تھا۔ اسی شوق کی تکمیل میں اب تک میں پاکستان کی سب ہی بڑے شہر دیکھ چکا ہوں لیکن ملتان جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اس سرزمین کو دیکھنے کی تڑپ بہت عرصے سے میرے دل میں تھی۔ گزشتہ سال برطانیہ سے آئی ہوئی بیٹی کے ساتھ ملتان سے اس کی ہم جماعت سے ملنے کا پروگرام طے ہو گیا تھا لیکن سموگ اور دھند کی وجہ سے موٹر وے بند ہو جانے پر منسوخ کرنا پڑا۔

پچھلے دنوں رشتے کی ایک بھانجی کی ملتان میں شادی کا بلاوا آیا تو خاتون خانہ فورا تیار ہو گئیں اور میں نے بھی اولیا کے شہر کو دیکھنے کی آرزو کو عملی جامہ پہنانے کے لیے فوراً تیاری کر لی۔ پاکستان میں جب بھی کبھی لمبے سفر پر نکلنا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خالد بھائی کے پاس حاضری لگوانا پڑتی ہے جو ہماری گاڑی کی رگ رگ سے واقف ہیں اور اُن کے سرٹیفیکیٹ کے بغیر ہمارا سفر شروع نہیں ہوتا۔ ان کے ورکشاپ نے گاڑی کی سب اچھا کی رپورٹ دی تو ہم نے رخت ِسفر باندھنا شروع کیا۔ شام کو سب تیاریاں مکمل کر کے منگل صبح نو بجے گھر سے نکلنے کا وقت بھی طے ہو گیا۔

گاڑی یا پیدل سفر کے لیے آج کل گوگل ہی سب کا راہنما ہے۔ ہم نے بھی گوگل سے مدد مانگی تو اس نے بتایا کہ 495 کلو میٹر کا سفر ہے اور آپ کو سات گھنٹے لگیں گے۔ راستوں کی راہنمائی بھی اُس نے کر دی اور براستہ منڈی بہاؤالدین جانے کی تجویز بھی دے دی۔ ہم دونوں میاں بیوی سحر خیزی کے عادی ہیں۔ ساڑھے نو بجے ہم گاڑی میں بیٹھ کر سفر کا آغاز کر چکے تھے۔ رات کی ہلکی سی بارش اور بادلوں کی گھن گرج سے موسم کافی حد تک خوشگوار ہو چکا تھا۔

شکر ہے اب سڑکوں کی حالت اب بہتر ہو چکی ہے۔ سرائے عالمگیر سے منڈی بہاؤالدین تک در رویہ سڑک بن گئی ہے۔ تھوڑا بہت کام ابھی باقی ہے۔ لیکن بڑی تکلیف دہ بات یہ دیکھنے میں آئی کہ غلط اور مخالف سمت سے بہت سی گاڑیاں آ رہی تھیں جو کسی بھی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہیں۔ پتہ نہیں ان گدھوں کو عقل کب آئے گی اور یہ غلط کام چھوڑیں گے۔

منڈی بہاؤالدین سے موٹر وے ایم ٹو تک رسائی کے لیے ہم سالم انٹرچینج کی طرف روانہ ہوئے۔ منڈی بہا الدین سے سالم تک سڑک بھی دو رویہ ہے لیکن اس کی حالت اب خراب ہو چکی ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف تھوڑے تھوڑے فاصلے پر شادی ہال، مساجد، درسگاہیں اور سکول کی عمارات نظر آتی ر ہیں۔ سڑک کے ساتھ سرسبز کنو اور مالٹوں کے باغوں کا بھی بڑی دلفریب نظارہ نظر آیا۔ پہلے ہیڈ فقیریاں کے اوپر سے ٹریفک گزرتی تھی لیکن اب موٹر وے تک بائی پاس بن چکا ہے۔

گاڑیوں کی آمدو رفت اس سڑک پر زیادہ نہیں ہے۔ سڑک کے دونوں اطراف بہت سے گاؤں نظر آتے ہیں۔ بہت عرصہ پہلے ایک دفعہ اس راستے سے گزر ہوا تھا تو گاؤں میں زیادہ تر گھر کچی مٹی سے بنے ہوئے تھے۔ لیکن جب سے منڈی بہاؤالدین ضلع کے ہزاروں نوجوان فرانس، اٹلی اور یورپ کے دوسرے ممالک میں گئے ہیں، مٹی کے گھر اب کوٹھیوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ پہلے پوری بستی میں چھوٹے چھوٹے میناروں والی ایک مسجد ہی نظر آتی تھی۔ اب ہر بستی میں بڑے بڑے میناروں والی تین چار مسجدیں نظر آتی ہیں۔ مسجدیں زیادہ ہیں اور نمازیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔

سالم انٹرچینج سے ہم موٹروے ایم 2 پر چڑھ گئے۔ تین رویہ موٹروے پر ٹریفک معمول سے کم تھی۔ پنڈی بھٹیاں تک سفر بڑا خوشگوار رہا۔ پنڈی بھٹیاں سے ہم نے ایم 4 پر چڑھنا تھا لیکن ہم غلطی سے انٹرچینج کی طرف نکل گئے۔ انٹرچینج والوں نے گاڑی ریورس کروائی اور ہم دوبارہ موٹر وے پر آ گئے اور دو کلو میٹر بعد فیصل آباد جانے والی موٹر وے کو جو آئین کر لیا۔ فیصل آباد کے نزدیک سائناں والا کے نزدیک ایک چھوٹے سے ریسٹ ایریا میں گاڑی کھڑی کی۔

طہارت خانوں کی حالت گوارا ہی تھی۔ ڈیوٹی پر موجود لڑکے نے واش روم دوبارہ صاف کر دیا۔ ڈیوٹی سمجھ کر نہیں بلکہ پیسے لینے کی غرض سے۔ سب جگہوں پر چائے کے ساتھ چینی علیحدہ رکھی جاتی ہے لیکن یہاں میٹھی چائے پینے کو ملی۔ ریستوران میں کام کرنے والوں کا رویہ گاہکوں پرا حسان کرنے جیسا لگا۔ فیصل آباد سے ملتان تک موٹر وے اچھی حالت میں نظر آئی اور ٹریفک بھی بہت کم نظر آئی۔ ساڑھے چار بجے سے کچھ پہلے ہم خانیوال انٹرچینج پر پہنچ گئے۔

گوگل والی خاتون کی ہدایت پر موٹروے سے اتر کر آدھے گھنٹے میں ہم ملتان شہر میں اپنی منزل مقصود ایم اے جناح روڈ پر واقع بخاری کالونی میں پہنچ بھی گئے۔ سات گھنٹے سفر کا پتہ نہیں چلا۔ پنڈی بھٹیاں سے خانیوال موٹر وے پر سفر کے دوران انتہائی کم ٹریفک کا سامنا کرنا پڑا اور ہم خیریت سے منزل مقصود پر پہنچا دیا۔ شام کو ملتان کے تین چار دوستوں سے رابطہ کیا تو سب نے ملتان میں خوش آمدید کہا اور اگلے دن ملاقات کا عندیہ دیا۔

شادی والے گھر میں سبھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ اگلے دن میں صبح سویرے اٹھ گیا۔ گھر میں شادی کے ہنگامے میں دیر تک جاگنے کی وجہ سے سبھی ابھی تک سو رہے تھے۔ میں چھت پر چلا گیا۔ چھت پر کھڑے ہو کر اردگرد کے ماحول پر نظر ڈالی۔ سموگ کی آمد آمد تھی۔ ہر طرف دھند ہی دھند نظر آ رہی تھی۔ تھوڑی دیر سورج نکل آیا لیکن اس کی روشنی بھی دھندلی سی تھی۔ کافی عرصہ سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے گرد و غبار چھایا ہوا تھا جس کی وجہ سے بہت کم دکھائی دے رہا تھا۔

دس بجے میں نے ناشتہ سے فارغ ہو کر طارق جاوید کو فون کیا۔ وہ میرے انتظار میں تیار بیٹھے تھے۔ انھوں نے گوگل سے اپنے گھر کی سمت بھیج دی تھی جو ہماری رہائش گاہ ایم اے جناح روڈ سے پانچ منٹ کی مسافت پر تھی۔ میں پانچ منٹ میں ان کے گھر واقع واپڈا ٹاؤن میں پہنچ گیا۔ طارق جاوید ملتان شہر سے باسی ہیں۔ یونائیٹڈ بینک میں ہمارے ساتھی تھے لیکن 1997 میں بینک کی جبری ریٹائرمنٹ سکیم کی وجہ سے بینک سے فارغ ہو گئے تھے۔

کبیر والا میں اپنا پرائیویٹ سکول چلاتے تھے۔ اب ملتان میں مقیم ہیں۔ ان کے گھر سے ہم بیس منٹ میں ممتاز ادیب اور کالم نگار محمد سجاد جہانیہ کے دفتر پہنچ گئے۔ وہ ملتان ڈویژن کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے بڑا پرتپاک استقبال کیا۔ دفتر میں ہی انھوں نے بڑی پر تکلف چائے کا انتظام کر رکھا تھا۔ ان سے میری بالمشافہ پہلی ملاقات تھی۔ بڑی محبت سے پیش آئے۔ ادب اور کتابوں پر ان سے بڑی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

شاکر حسین شاکر بھی ایک ممتاز کالم نگار اور مصنف ہیں۔ کتاب نگر کے نام سے کتابوں کا ایک بہت بڑا سٹور چلا رہے ہیں۔ ان سے ملنے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے ٹی وی کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ سجاد جہانیہ صاحب نے انھیں انتظار کرنے کا کہا اور ہمیں اپنی گاڑی میں بٹھا کر کتاب نگر لے گئے۔ شاکر حسین شاکر بڑے تپاک سے ملے۔ تھوڑی دیر بعد ملتان کی ایک اور متحرک شخصیت فیاض احمد اعوان بھی وہیں آ گئے۔ وقت کی تنگی کی وجہ سے زیادہ دیر گفتگو تو نہ ہو سکی لیکن مختصر ملاقات بھی بہت خوش گوار تھی۔

جہانیہ صاحب ہمیں کسی اچھے ریستوران میں کھانا کھلانے کے لیے لے کر جانا چاہتے تھے۔ چونکہ دوپہر کے کھانے کا بندوبست طارق جاوید نے اپنے گھر میں کر رکھا تھا اور ان کے گھر سے نکلتے وقت بھابھی صاحبہ نے تاکید کی تھی کہ کھانا ہر حال میں گھر کھانا ہے۔ اس لئے میرے اصرار کرنے پر وہ ہمیں اپنے دفتر واپس لے آئے۔ انھوں نے اپنی نئی تصنیف (کہانی پوچھتی ہے ) عنایت کی اور ملتان کا حافظ کا سوہن حلوہ تو وہ پہلے ہی ہماری گاڑی میں رکھوا چکے تھے۔

شام کو کھانے پر ملنے کا وعدہ کر کے ہم اُن سے رخصت ہوئے۔ اب ہمارا رخ ملتان آرٹس کونسل کی طرف تھا جس کے پڑوس میں ڈاکٹر علی اصغر رہتے تھے۔ ڈاکٹر اصغر علی سے چند ماہ پہلے ہی فون پر رابطہ ہوا تھا۔ میری ایک کہانی بیڈن روڈ کی بیلا کے ہم سب ڈاٹ کام میں چھپنے کے بعد انھوں نے فون پر رابطہ کیا تھا۔ وہ بڑی علمی و ادبی شخصیت ہیں اور پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے پریکٹس چھوڑ کر آج کل ریٹائر زندگی گزار رہے ہیں۔

ان سے فون پر رابطہ نہ ہو سکا۔ محمد رمضان یونائٹیڈ بینک کے پنجاب سینٹرل ساؤتھ کلسٹر کے جنرل منیجر ہیں۔ کم عمری میں ہی اپنی محنت اور صلاحیتیوں کی بنیاد پر اہم عہدے پر فائز ہو گئے ہیں۔ ان سے بینک کے ایک ٹریننگ سیشن میں سرینا ہوٹل اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی تب وہ یو بی ایل کے ملتان ریجن کے ریجنل چیف تھے۔ وہ کچھ عرصہ کے لیے کسی اور بینک میں چلے گئے تھے۔ ان سے دو بجے ملاقات کا وقت طے تھا۔ ہم وقت مقررہ سے مچھ پہلے ہی ان کے دفتر پہنچ گئے۔

چھ سات سال بعد ان سے ملاقات ہو رہی تھی۔ بڑے خوش ہوئے۔ پرانے ساتھیوں کے حوالہ سے گفتگو میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا۔ وہ کھانا کھلانے پر زور دیا لیکن طارق جاوید نے بتایا کہ کھانا گھر میں تیار ہے اور جلد پہنچنے کے لیے دو دفعہ فون بھی آ چکا ہے۔ رمضان سے جانے کی اجازت چاہی تو انھوں نے ملتان کا تحفہ نیلے رنگ کی چادر پہنا کر ہمیں رخصت کیا۔ طارق جاوید کے گھر بھابھی نے بڑے پر تکلف لنچ کا انتظام کر رکھا تھا۔ میں نے لیٹ ہونے پر معذرت کی اور کھانا کھانے کے بعد طارق سے اجازت لے کر واپس اپنی رہائش گاہ پر پہنچ گیا۔

آج شام کو مہندی کا فنکشن تھا جس وجہ سے بہت گہما گہمی تھی۔ شام کو سجاد جہانیہ نے فون کر بتایا کہ وہ کھانے پر لے جانے کے لیے مجھے لینے آ رہے ہیں۔ ہمارے میزبان مہندی کا فنکشن سے جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھے اس لیے سجاد جہانیہ سے معذرت کرنی پڑی کیونکہ دوست معذرت قبول کر لیتے ہیں لیکن رشتہ دار نہیں۔ (ملتان شہر کی کچھ اور باتیں اگلی قسط میں )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments