سولہ دسمبر کا سیاہ ترین دن
16 دسمبر 1971 تاریخ پاکستان کا سیاہ ترین دن، جب 53 برس قبل دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت اپنوں کی ہٹ دھرمی اور غیروں کی سازش کے باعث دو لخت ہو گئی تھی۔ سقوط غرناتا اور سقوط بغداد کے بعد امت مسلمہ کا ایک اور بڑا حادثہ فاجعہ سقوط ڈھاکہ تھا۔
دسمبر 1971 ء کا عہد، عہد بچپن تھا۔ مسجد سے قرآن شریف پڑھ کر باہر نکلے تو طیاروں کی گھن گرج سنائی دی۔ اماں سے آ کر پوچھا کہ یہ ہوائی جہاز اور طیارے کیوں آسمان پر نظر آرہے ہیں، اماں نے دکھ بھرے لہجے میں جواب دیا، پتر ہندوستان اور پاکستان کی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ سکول آتے جاتے دیواروں پر بنگلادیش نامنظور، البدر و الشمس زندہ باد اور مکتی باہنی مردہ باد کے نعرے روزانہ لکھے نظر آتے۔ اس وقت کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ بنگلا دیش کیا ہے، البدر اور الشمس کیا ہے اور مکتی باہنی کس بلا کا نام ہے۔
ایک دن کھیل کر گھر واپس آیا تو دیکھا کہ اماں پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں جیسے کوئی عزیز وفات پا گیا ہو۔ میں نے پوچھا اماں کون فوت ہو گیا ہے، رو کیوں رہی ہیں، تو بولیں، پتر! فوت کوئی نہیں ہوا ہے، میرا ملک آدھا ہو گیا ہے، ہمارا مشرقی بازو الگ ہو گیا ہے۔ جب ذہنی شعور کی آنکھیں وا ہوئیں تو سب پتا چل گیا۔ تب سے اب تک ہر سال 16 دسمبر کو دل خون کے اور آنکھیں پانی کے آنسوؤں سے تر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی سب سے بڑی شکست اور ہزیمت کو اس کے ذمہ داروں نے یہ کہہ کر کس خوب صورتی سے اہالیان پاکستان کو دھوکا دیا کہ ڈھاکہ میں ہندوستان اور پاکستان کے کمانڈرز نے آج مقامی طور پر جنگ بندی کا فیصلہ کیا ہے جب کہ در حقیقت پاکستان اسی دن دو لخت ہوا تھا۔
ڈھاکہ کے ریس کورس گراؤنڈ میں ہندوستانی جنرل سر اونچا کئیے بیٹھا تھا اور پاکستانی کمانڈر جنرل امیر عبداللہ خاں نیازی اپنا پستول پھینک کر سر جھکائے اس قومی ہزیمت اور ملک کو دو لخت کرنے کی دستاویز پر دستخط کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ ہی 93 ہزار پاکستانی فوجی اور سول افسران بھارت نے جنگی قیدی بنا لیے۔ اس شکست و ہزیمت کی یہ تصاویر بنگلہ دیش اور ہندوستان کے ہر سرکاری مہمان خانوں میں لگی ہمارا منہ چڑا رہی ہیں۔
کوئی ملک یا قوم اس وقت تک ترقی یافتہ اور کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک اس میں سچ کا بول بالا نہیں ہوتا ہے۔ ہمیں اس شکست فاش کے متعلق کبھی سچ نہیں بتایا گیا ہے کہ اس کے اسباب کیا تھے۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کو بھی سرکاری طور شائع نہیں کیا گیا اور نہ اس کی بنیاد پر کوئی لائحہ عمل بنایا گیا اور نہ کسی کو اس قومی سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ سابق فوجی صدر مشرف پرویز نے اپنے عہد صدارت میں کہا تھا کہ یہ سانحہ عسکری شکست کے ساتھ ایک سیاسی شکست بھی تھی اور قوم کو اسے بھول جانا چاہیے۔
بنگلادیش کے قیام کی کہانی بھی عجیب ہے۔ دنیا میں عام طور پر اقلیتی آبادی اکثریت سے جدا یا الگ ہوتی ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی اکثریتی آبادی مغربی پاکستان کی اقلیتی آبادی کے کار پردازوں کے جبر کے باعث صرف 24 سال بعد ہی متحدہ پاکستان سے الگ ہو کر اپنا الگ ملک بنگلادیش بنانے پر مجبور ہو گئی۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بنگلادیش غیروں کی سازشوں کے باعث الگ ہوا۔ غیروں کی سازشیں اس وقت کامیاب ہوتی ہیں جب آپ اندر سے کمزور ہوں اور نا انصافی کریں۔
مشرقی پاکستان کو اس کی آبادی کے تناسب سے مملکت کے کسی بھی شعبے، یعنی حکومت، فوج، فضائیہ، بحریہ، بیوروکریسی اور ملکی وسائل میں ہمیشہ ہی حصہ نہیں دیا گیا تھا۔ اکثریت کے اصول کی ہر موقعہ پر نفی کی گئی۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے حسین شہید سہروردی نے اکثریتی اصول کی بجائے برابری کے اصول کی مہم چلائی تو مغربی پاکستان کو ایک اکائی اور مشرقی پاکستان کو ایک اکائی تصور کر کے برابری کا اصول اپنایا گیا، لیکن اس برابری کے اصول کی بھی ہمیشہ نفی کی گئی۔ مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے مشرقی پاکستان کو ہمیشہ شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھا اور ان پر عدم اعتماد کیا اور ان پر غداری کے فتوے جڑے۔
1970 کے انتخابات نے عوامی لیگ کی مقبولیت کو بہت واضح کر دیا تھا۔ آبادی کے تناسب سے مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کی 300 میں سے 162 نشستیں تھیں، جن میں سے عوامی لیگ نے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان کی 138 نشستوں میں سے پاکستان پیپلز پارٹی نے 83 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ مغربی پاکستان کی پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں کسی بھی نشست پر اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن نے قومی اسمبلی کا اجلاس ڈھاکہ میں بلانے کے لیے صدر یحییٰ کو درخواست دی لیکن وہ قبول نہ کی گئی اور پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی جماعت کے جیتے ہوئے ارکان اسمبلی کو ڈھاکہ جانے سے منع کر دیا۔ اس سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مہر ثبت ہو گئی۔
یہ بڑی حیرانی کی بات ہے کہ تحریک پاکستان میں ہراول دستہ کا کردار ادا کرنے والے بنگالی 24 برس بعد ہی اپنا الگ ملک بنانے پر کیوں متفق ہو گئے۔ 1906 میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام نواب سلیم اللہ خان کی قیادت میں ڈھاکہ میں ہوا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے خود تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے کہ مغربی پاکستان کی اشرافیہ بنگالیوں کی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکاری تھی اور ان کو ملکی وسائل سے ان کا حصہ بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ مشرقی پاکستان کو کل ملکی وسائل میں آبادی کے تناسب سے بھی قرار واقعی حصہ نہیں ملتا تھا۔
اگر تقسیم ہندوستان کے وقت ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کے نام سے دو الگ الگ مملکتیں تشکیل پا جاتیں تو متحدہ پاکستان کی علیحدگی ہونی ہی نہیں تھی۔ مغربی پاکستان کے جنگی آپریشن نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا اور ہندوستان کو جنگ میں کودنے کا موقع مل گیا۔ مشرقی پاکستان کا مغربی پاکستان سے علیحدگی کا ایک اور سبب ایک ہزار میل کی دوری تھی اور طرز معاشرت میں بھی بہت فرق تھا۔ پولینڈ کی پیش کردہ قرارداد میں بھی جنگ بندی سمیت علیحدگی کا پر امن طریقہ طے کیا گیا تھا، لیکن اس کو ذوالفقار علی بھٹو نے پھاڑ دیا اور ہزار برس تک جنگ لڑنے والوں نے کچھ ہی دنوں بعد ڈھاکہ میں دشمن کے آگے سپر ڈال کر قومی ہزیمت کو قبول کر لیا۔
قیام بنگلادیش کو 53 برس گزر گئے ہیں۔ اس کے قیام کی وجوہات پر کبھی بھی غور و خوض نہیں کیا گیا ہے۔ صدر ضیاء الحق نے اس حادثہ کے اہم ذمہ دار صدر یحییٰ کو بعد از مرگ پورے فوجی اور قومی اعزاز کے ساتھ دفن کیا تھا۔ آج پھر بچے کھچے پاکستان کو عدم استحکام کا خطرہ لاحق ہے۔ ملک کے دو صوبوں بلوچستان اور کے پی کے میں وفاق مخالفت ہوائیں چل رہی ہیں، لیکن مقتدرہ قوتیں پھر طاقت کا بے دریغ استعمال کر رہی ہیں۔ 53 برس قبل بھی اسی بے دریغ طاقت کے استعمال سے ملک کا ایک بازو الگ ہو گیا تھا۔ جو قومیں اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھتیں اور ان کی اصلاح نہیں کرتی ہیں، وہ ہمیشہ مشکل صورتحال سے دو چار رہتیں ہیں۔
- جناب وجاہت مسعود کے کالم ”نعرے کی خلیج اور مکالمے کا احترام“ کے جواب میں - 22/01/2025
- مشہور مزاحمتی شاعر احمد فراز کا 94 واں یوم پیدائش - 13/01/2025
- سرویکل کینسر۔ بچہ دانی کے مونہہ کا سرطان - 09/01/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).