ہم کہ ٹھہرے اجنبی


ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختم درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

فیض صاحب کی یہ غزل بچپن میں، میں نے نیرہ نور کی خوبصورت آواز میں سنی تھی اپنے بڑے بھائی طاہر سعید کے کمرے میں، ان دنوں وہ بہت انقلابی بنے ہوئے تھے بھٹو صاحب کے عشق میں مبتلا سرخے۔ ویسے تو یار لوگوں کو دسمبر میں اداسی، سرد راتیں، گم گشتہ محبتیں اور شاعری بہت شدت سے یاد آتے ہیں۔ مگر دسمبر میں سانحہ مشرقی پاکستان کی یاد بھی تازہ ہو جاتی ہے۔ بی بی سی کی ویڈیو جب بھی دیکھتا ہوں دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ کس طرح ہمارے بڑوں نے اپنے جسم کا ایک حصہ علیحدہ کر لیا۔ مسلم لیگ کی بنیاد 1906 میں ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی اور پھر 16 دسمبر 1971 کو اسی ڈھاکہ میں پاکستانی پرچم سرنگوں ہو گیا۔ پاکستانی ہونا جرم قرار دیا گیا پاکستان کے نام لیواؤں کو چن چن کے قتل کر دیا گیا۔ یہ سانحہ سیاسی تھا یا غلط حکمت عملی کا نتیجہ مگر اب یہ بحث فضول ہے جبکہ ہم اپنا آدھے سے زیادہ حصہ کھو چکے۔ 1971 کے اوائل تک ہم یہ حقیقت قبول کرنے سے انکاری تھے کہ مشرقی پاکستان اب ہمارے ساتھ نہیں ہو گا کوئی معجزہ ہی پاکستان کو متحد رکھ سکتا تھا۔ اور صد افسوس کہ وہ معجزہ نہ ہو سکا۔

انہی دنوں شاعروں اور ادیبوں کا ایک وفد ڈھاکہ، مشرقی پاکستان بھیجا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے بیچ محبت کا زمزم بہہ رہا ہے جبکہ جسم کے دو حصوں کو نفرت کی تلوار کاٹ چکی تھی۔ جب یہ حساس لوگ ڈھاکہ سے واپس آئے تو چپ چپ تھے خاموش تھے اور آنے والے وقت کے ڈر سے سہمے ہوئے۔ ڈھاکہ سے واپس آنے والے ان دانشوروں اور شاعروں کے انٹرویوز بھی کیے گئے چند سال قبل پاکستان ٹیلی ویژن کے جانے مانے اور مشہور ہدایت کار جناب تاجدار عالم صاحب سے ملاقات ہوئی اور اس موضوع پر بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انہیں بھی انٹرویو کے لیے کہا گیا تھا اور ان کے حصے میں مشہور شاعر جناب منیر نیازی آئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ جب میں منیر نیازی صاحب کے پاس پہنچا اور ان سے گزارش کی کہ آپ کا انٹرویو کرنا ہے، آپ ڈھاکہ میں جو دیکھ کر آئے ہیں، آپ کے تاثرات جاننے ہیں، تو منیر نیازی نے دور خلاؤں میں دیکھتے ہوئے پنجابی میں کہا ”کی کریں گا؟ تو میرا انٹرویو رہن دے“ جب تاجدار صاحب نے اصرار کیا تو انہوں نے پنجابی کا ایک قطعہ سنایا اور کہا بس یہی میرا انٹرویو ہے وہ قطعہ کچھ یوں تھا:

سندر بن دے کنڈے کنڈے پانی اے دریاواں دا
چپ اے ایتھے ایس قسم دی خوف جویں درگاہواں دا
اک گل ایتھے ہور اے جیھڑی تسی کتھے نہ ویکھو گے
شاماں تک وی کھڑے رہوو تے پنچھی کتھے نہ و یکھو گے

سندر بن میں دریاؤں کا پانی بھرا ہوا ہے/ یہاں ایسی چپ ہے جیسے درگاہوں کا خوف ہو/یہاں ایک بات ایسی ہے جو آپ کہیں اور نہ دیکھو گے/شام تک بھی کھڑے رہیں تو پنچھی کہیں نہ دیکھو گے

منیر صاحب نے بتایا کہ وہ ڈھاکہ میں جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے اس ہوٹل کی کھڑکی سے باہر جب وہ دیکھتے تھے تو انہیں دور تک چپ سنائی دیتی تھی، موت دکھائی دیتی تھی اور بارود کی بو سے فضا زہر آلود تھی، پرندے ہجرت کر چکے تھے اور وہ پاکستان ٹوٹنے کا دکھ ساتھ لے کر واپس آئے تھے۔ سب نے اپنے اپنے ڈھنگ اور اپنے اپنے رنگ میں پاکستان کے دو لخت ہونے کا نوحہ لکھا پھر فیض صاحب نے اپنی مشہور زمانہ غزل ہم کہ ٹھہرے اجنبی لکھی۔

احمد فراز نے کہا

اب کس کا جشن مناتے ہو
اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کا گیت سناتے ہو
اس تن من کا جو دو نیم ہوا

سانحہ مشرقی پاکستان پر شعراء اور ادیبوں نے بہت کچھ کہا اور لکھا۔ اس واقعے پر بین الاقوامی مصنفین اور تاریخ دانوں نے بھی لکھا۔ سقوط ڈھاکہ پر چند منتخب کتابیں درج ذیل ہیں

1- Witness to Surrender by Siddique Salik
2- Tragedy of errors: East Pakistan crisis, 1968-1971by Kamal Matinuddin
3- The Wastes of Time: Reflections on the Decline and Fall of East Pakistan By Syed Sajjad Husain
4- Bangladesh, Untold Facts by Shariful Haq Dalim
5- War and Secession: Pakistan, India, and the Creation of Bangladesh by Richard Sisson and Leo E. Rose
6- Dead Reckoning: Memories of the 1971 Bangladesh War by Sarmila Bose

ان میں سے کچھ کتابوں کے اردو تراجم بھی دستیاب ہیں۔ صدیق سالک کی کتاب کا اردو ترجمہ میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا، سید سجاد حسین کی کتاب کا ترجمہ شکست آرزو اور شریف الحق دالیم کی کتاب کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے۔ ان تمام کتب میں شرمیلا بوس کی کتاب مجھے سب سے مستند لگی، اس کتاب میں جذبات اور تعصبات کو ایک طرف رکھ کر صرف حقائق کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان اور دنیا کے اس پروپیگنڈے کی نفی ہوتی ہے کہ پاکستانی افواج نے بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تھا۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس معلوم ہوتی ہے، پاکستانیوں اور پاکستان نوازوں کو چن چن کے قتل کیا گیا تھا۔ شرمیلا بوس کی کتاب کی تقریب رونمائی کی ویڈیو یوٹیوب پر موجود ہے جو کہ دیکھنے کی چیز ہے۔ تمام نوجوانوں سے گزارش ہے کہ یہ ضرور دیکھیں۔ پروفیسر سید سجاد حسین ڈھاکہ یونیورسٹی کے آخری پاکستانی وائس چانسلر تھے۔ ویسے تو وہ بنگالی تھے مگر وہ خود کو فخریہ طور پر پاکستانی کہتے تھے اور آخری دم تک پاکستانی ہی رہے ان کی کتاب بھی ایک شاندار تحریر ہے جس کا اردو ترجمہ شکست آرزو کے نام سے دستیاب۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے حامیوں اور پاکستانیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا زیادہ تر لوگ مکتی باہنی کے غیظ و غضب کا شکار ہوئے اور جان سے گئے۔ اور جو لوگ زندہ بچ گئے انہیں غداری کے جرم میں جیلوں میں ڈال دیا گیا اور مقدمے چلائے گئے۔ ایک طویل فہرست ہے ان لوگوں کی جنہیں پاکستانی ہونے کا جرم بھگتنا پڑا، مگر آفرین ہے ان لوگوں پر جنہوں نے تختہ دار پر بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ پھر برسوں بعد حسینہ واجد نے گڑے مردے اکھیڑے اور باقی بچ جانے والوں پر بھی زمین تنگ کر دی۔ پاکستان سے محبت کے جرم میں کئی لوگوں کو تختہ دار پر لٹکایا گیا جن میں محمد قمر الزماں، میر قاسم علی اور ملا عبدالقادر سر فہرست ہیں۔ ان سب میں ایک بات مشترک تھی کہ یہ لوگ ہنستے مسکراتے ہوئے تختہ دار پر جھول گئے اور بقول فیض:

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

امسال سقوط ڈھاکہ کو 53 برس بیت گئے کیا ہم نے کوئی سبق سیکھا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments