شام: علاقائی و عالمی سامراجیت کا شکار


شام میں بشار الاسد کے زوال اور حکومت کے خاتمہ کو انتہاپسند پراکسی گروپ ہیئت تحریر الشام جسے مغربی میڈیا میں ”شامی باغی“ کا خوش کن ٹائٹل دیا گیا ہے کی کامیابی کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔ ایک ایسی تصویر کشی کی جا رہی ہے جس میں امریکی و علاقائی سامراجی ممالک کے بدلتے ہوئے مفادات اور تقاضوں کے تحت داعش اور القاعدہ سے نکلے ہوئے جنگجوؤں کو ”معتدل“ دکھایا جا رہا ہے۔

وہی مغربی میڈیا جو اپنی حکومتوں کی پالیسیوں کے تحت حماس اور حزب اللہ جیسے مزاحمتی گروپس کو انسانیت کے دشمن، جارح اور امن کی تباہی کے طور پر پیش کرتے نہیں تھکتے جو صبح و شام فلسطینیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں لیکن ہیئت تحریر الشام کا نام احترام سے لیتے ہوئے انہیں ”مزاحمت کار“ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ اسد کے زوال کے بعد عالمی میڈیا میں ”اسد کے مظالم“ اور جیلوں میں قیدیوں کی صورتحال کو ایک مخصوص زاویہ نگاہ سے ابھارا جا رہا ہے تاکہ پوسٹ اسد رجیم میں ”امن و انصاف“ ، ”انسانی حقوق“ اور ”تہذیب و ترقی و بحالی“ کے خوشنما نعروں کے ساتھ امریکی سامراجی ایجنڈا اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر مکمل کیا جا سکے۔

اسد حکومت کے زوال پر یقیناً یہ سوچا جا رہا ہو گا کہ اسد حکومت جنگجوؤں کے سامنے ریت کی دیوار کیسے ثابت ہوئی؟ سب سے پہلے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسد حکومت نا تو سوشلسٹ تھی اور نا ہی کمیونسٹ۔ 1963 ء سے ہی شام میں شخصی آمریت قائم تھی۔ 90 ء کی دہائی میں فری مارکیٹ اکانومی اور نیو لبرل پالیسیوں کی وجہ سے شام میں غربت اور بے روزگاری کی شرح بہت بڑھ چکی تھی۔ اسد کے زیرِ حکومت شام ایک انتہائی غربت زدہ ملک اور تقسیم شدہ معاشرہ تھا۔ ان تمام عوامل نے ہی عرب بہار کے تناظر میں 2011 ء میں شامی انقلابی ابھار کو بنیادیں فراہم کیں۔

تاہم اسلامی انتہاپسندوں نے مغربی اور علاقائی سامراجی قوتوں امریکہ، اسرائیل، ترکی اور سعودی عرب کی مدد سے 2011 ء کے شامی انقلابی ابھار کو ابتداء میں ہی ہائی جیک کر لیا تھا۔ اسلامی بنیاد پرستی سے خوفزدہ اور دہشت زدہ شامی عوام نے داعش، القاعدہ اور النصرہ کے مقابلہ میں اس وقت اسد حکومت کا ساتھ دیا جسے ایرانی ملیشیاؤں اور روسی فضائیہ کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس طرح وقتی طور پر عوامی انقلابی ابھار کو پسپا کر دیا گیا تاہم شامی عوام کی شدید غربت اور سیاسی و سماجی بے چینی روز بروز بڑھتی رہی۔ 2011 ء کے بعد اسد حکومت کے ظلم و جبر اور خانہ جنگی کی صورتحال کی وجہ سے تقریباً 5 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے اور 10 ملین کے قریب لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے۔ اسی طرح ایک پوری شامی نسل بے سروسامانی کی حالت میں تباہ و برباد ہوئی۔

خانہ جنگی کے دوران شامی صنعت مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ شام کا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر بکھر گیا۔ 2011 ء سے 2021 ء کے درمیان شام کی جی ڈی پی نصف سے بھی کم ہو گئی۔ معیشت کی بے ترتیبی انتہائی تباہ کن ثابت ہوئی اور اسی دوران شام کی زرعی زمینوں اور تیل کے ذخائر کو مختلف سامراجی قوتوں نے اپنے اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں تقسیم کر لیا اور اسد حکومت سے یہ تمام وسائل چھین لیے گئے۔ دمشق پر اپنی حکمرانی برقرار رکھنے کے عوض اسد کو ان تمام مسائل پر کوئی پریشانی نا تھی۔ اسد کو صرف اپنی مطلق العنان حکمرانی سے سروکار تھا۔ خانہ جنگی کے دوران مغربی سامراج بالخصوص امریکہ نے جمہوریت، انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں کے نام پر اپنے سامراجی مفادات کو آگے بڑھاتے ہوئے شام پر شدید ترین پابندیاں عائد کر دیں۔ ( مخالف اور ناپسندیدہ ممالک پر پابندیاں لگا کر ان کی مارکیٹ چھین کر اپنے ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اوپن بزنس اسپیس مہیا کی جاتی ہے ) واضح رہے کہ 2023 ء میں شام پابندی کا شکار دنیا کے تین بڑے ممالک میں شامل تھا۔ 2023 ء میں شامی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلہ میں 141 فیصد کم ہو گئی جبکہ مہنگائی 93 فیصد کی شرح کو چھو رہی تھی۔ یہ تھے وہ حالات جس میں بشار الاسد کی سسکتی، رینگتی اور دم توڑتی حکومت پر جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا۔

ہیئت تحریر الشام کی پیش قدمی یا اس کا شام پر قبضہ اس کی طاقت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسد حکومت کی شدید ترین کمزوری اور عام شامی عوام کی حکومت سے مکمل لاتعلقی تھی۔ ہیئت تحریر الشام کی کامیابی شامی سرمایہ دار طبقہ کی جانب سے اپنے عوام کے معاشی استحصال اور لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ اپنی جبر و استحصال پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے اسد حکومت اور شامی سرمایہ دار طبقہ ایک ہند گلی میں جا کھڑا ہوا۔ ایرانی و عراقی ملیشیا اور روسی فضائی برتری بھی اسد کو اس بند گلی سے باہر نکلنے کا راستہ فراہم نا کر سکی اور ان تمام حالات و واقعات میں شامی عوام اور فوج تماش بین کی حیثیت سے مایوس، بے عمل اور بے دلی سے کھڑے رہے۔ شام کی داخلی صورتحال کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کا فائدہ بھی ہیئت تحریر الشام کو پہنجا۔ حماس و حزب اللہ کی کمزوریوں اور ردعمل نا دینے کی صلاحیت کو مجموعی طور پر ایران کی کمزوری سمجھا گیا۔

شام نا صرف ایران کے مزاحمت کے محور کا ایک اہم ستون تھا بلکہ شام اور ایران کے مابین اہم معاشی تعلقات بھی تھے۔ ایران کی شام میں دلچسپیاں مشرق وسطیٰ کے تناظر میں سیاسی، فوجی اور اسٹریٹجک عوامل پر مبنی تھی۔ شام اس خطہ میں ایران کی ایک اہم سپلائی لائن تھی۔ شام کے ذریعہ ایران نواز ملیشیاؤں کو اسلحہ اور مالی وسائل مہیا کیے جاتے تھے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات کے تناظر میں ایران کی کمزوری کا تاثر اس قدر تھا کہ ہیئت تحریر الشام کی پیش قدمی کے دوران شام میں موجود عراقی ملیشیا نے بھی مزاحمت کے بجائے اپنے قائد مقتدیٰ الصدر کی ہدایت کی روشنی میں اسد حکومت کی حمایت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا نا ہی انہوں نے کوئی مداخلت کی۔ اسرائیل کے ساتھ لڑائی کی وجہ سے شام میں تعینات حزب اللہ کے اسپیشل ایلیٹ یونٹس بھی دوبارہ لبنان جا چکے تھے۔

اسد حکومت کے سقوط کے فوراً بعد روس نے شام میں فضائی اور بحری اڈوں کے تحفظ اور مستقبل کے مفادات کے حوالہ سے ہیئت تحریر الشام کو گفت و شنید میں انگیج کیا اور خیر سگالی کے طور پر ماسکو میں قائم شامی سفارت خانہ پر ہیئت تحریر الشام کا جھنڈا لگایا گیا اور یہ پیغام دیا گیا کہ روس نئے سیٹ اپ کے ساتھ کام کرنے اور تعاون پر تیار ہو گا بشرطیکہ شام میں اس کے اسٹریٹجک مفادات اور فوجی اڈوں کو کوئی نقصان نا پہنچے کیونکہ بحیرہ روم میں روس کے معاشی و تجارتی مفادات کے تحفظ، روس کی موجودگی اور اثر و رسوخ کی وجہ اس کا واحد بحری اڈہ ہے۔ اس کے علاوہ شام کی نئی صورتحال میں روسی تعمیراتی کمپنیاں شام میں انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کے منصوبوں میں خصوصی دلچسپی لے رہی ہیں۔ کیونکہ اسد کے دورِ حکومت میں بھی ہتھیاروں سمیت روسی تعمیراتی صنعت کے منافع کے حصول کے لیے شام ایک اہم ترین مرکز رہا ہے۔

اسد حکومت کے خاتمہ کے بعد اسرائیل کی جانب سے شام میں فوجی حملے محض کسی جغرافیائی تنازعہ کے تناظر یا اسرائیل کی حفاظت کے نقطہ نگاہ کے تحت نہیں ہیں جیسا کہ مغربی میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ شام میں اسرائیلی حملے اور توسیع پسندی سامراجیت اور عالمی سرمایہ داری نظام پر مشتمل ایک ایسے عالمی نظام کا حصہ ہے جہاں طاقتور ممالک کمزور ممالک کے وسائل کو لوٹنے سمیت اپنی اجارہ داری اور اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شام میں اسرائیلی حملوں کا مقصد مستقبل میں ایک ایسے شام کی صورت گری ہے جو مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور اس کی مخالف قوتوں کے لیے عضو معطل ہو۔ اسرائیلی حملوں کے بعد شام عسکری حوالے سے عملاً ایک ناکارہ ملک بن چکا ہے۔ غزہ، لبنان اور شام کی شکل میں اسرائیل کے گرد جو ایرانی شکنجہ یا گھیرا تھا اسرائیل نے اسے توڑ ڈالا۔

ترکی اس پورے تنازعے میں ہیئت تحریر الشام کی سیاسی حمایت و سرپرستی کرتا رہا ہے۔ ترکی مغربی شام میں خودمختار کرد علاقہ کی تحریک کو کمزور کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب ترکی سے کردوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے اور ان لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو دوبارہ شام بھیجنا چاہتا ہے۔

اسد حکومت کے بعد ”شام کی تعمیرِ نو“ ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس میں روس، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، اسرائیل، سعودی عرب اور ترکی سمیت زیادہ سے زیادہ حصہ دار اور شراکت دار بننا چاہتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق شام کی تعمیرِ نو کے لیے 400 ارب امریکی ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق یہ رقم ایک ٹریلین امریکی ڈالر تک بھی جا سکتی ہے۔ شام میں جنگجوؤں کی حمایت کرنے والے تمام ممالک خود کو اس پروجیکٹ کا اسٹیک ہولڈر سمجھتے ہیں اور ان ممالک کے اسٹاک ایکسچینجز، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز، اسٹیل، سیمنٹ، سریا، کنکریٹ و دیگر متعلقہ ساز و سامان سے وابستہ سرمایہ دار اور تعمیراتی کمپنیاں مستقبل کے شام میں اپنے منافع کے لیے سرگرمیاں شروع کرچکے ہیں۔ اسلامی جنگجووں سمیت ان کی مالی معاونت میں امریکہ پہلے نمبر پر ہے تو متوقع طور پر امریکہ تعمیرِ نو پروجیکٹ کا سب سے بڑا حصہ دار بن کر سامنے آئے گا۔

اس لیے اب دہشت گرد شدت پسند داعش، بنیاد پرست قاتل القاعدہ و انسانیت کے خلاف جرائم کرنے والی النصرہ فرنٹ اچانک ”معتدل“ ، ”باغی“ اور ”مزاحمت کار“ بن گئے۔ مغربی کارپوریٹ میڈیا کی یہ اصطلاحیں دراصل ان کے اپنے ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات کا عکس ہے۔

ترکی بھی اس کوشش میں مصروف ہے کہ نئے شام میں مالی فوائد سمیٹنے میں اس کا کردار کسی طور کم نا ہو۔ ترکی شام سے جغرافیائی قربت، ہیئت تحریر الشام اور سیرین نیشنل آرمی کے سرپرست کے طور پر شام میں تعمیرات کے حوالہ سے زیادہ سے زیادہ ٹھیکے ترک کمپنیوں کو دلانا چاہتا ہے۔ کیونکہ یہ کمپنیاں حکمراں پارٹی کا بلینک چیک ہیں اور ان کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے ترک صدر اردگان کے مالیاتی سپورٹر ہے جو مستقبل میں بھی بحیثیت سیاسی کلائنٹلسٹ نیٹ ورک کام آتے رہیں گے۔

اس تمام صورتحال میں شامی عوام سامراجی جنگ اور سرمایہ دارانہ مفادات کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔ منڈی کی عالمی معیشت نا جانے اور کتنی جنگیں برپا کرے گی۔ سرمایہ داری کا جوہر، سرمایہ داری کی فطرت اور منافع کی ہوس ان جنگوں اور تباہیوں سے وابستہ ہے۔ یہ نظام پوری دنیا کی انسانیت کے وسیع تر مفادات کے خلاف ایک غالب اور جابر نظام ہے جس کا خاتمہ ہی انسانیت کی بقاء ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments