سفرِ کوسوو (3)


رگووا کے سرسبز پہاڑ جن کی پرلی طرف سنہری چمکیلی ریت سے بھرے ساحلوں پہ ڈھیروں سیاح گرمیوں میں یوں ڈیرے ڈالتے ہیں جیسے سائبیریا کے پرندے گرم موسم میں منچھر جھیل کے کناروں کو آباد کر دیتے ہیں۔ اس کے دامن میں تیرہویں صدی میں بنائی گئی وسیع و عریض آرتھوڈکس خانقاہ اپنے اصل گنبدوں، محرابوں اور میناروں کے ساتھ ایک شان سے کھڑی ہے اور واماندگیِ شوق کی آج بھی بڑی پناہ گاہ ہے۔ ہمسائے سے گزرتا دریا جب ہموار سطح میں داخل ہوتا ہے تو اس کے دونوں کناروں پہ آباد پے آ شہر پھیلا ملتا ہے۔

2000 میں جب یہاں ہماری آمد ہوئی تو اہم شاہراہوں اور گلی کوچوں میں کوئی عمارت، گھر اور پارک ایسا نہ تھا جو اجڑا ہوا نہ ہو۔ اب وہی پے آ ایسا بھلا ہو گیا تھا کہ اسے نیا روپ دینے والے اس دعویٰ کے حقدار تھے

رنگ اس کو دیے ہم نے اسے ہم نے نکھارا ہے

پے آ میں پہلی شام کو میں اپنی رہائش کو دیکھنے اور مالک مکان سے ملنے چل دیا۔ اس کا نام سناد تھا۔ میں اسے دل لگی میں گازدا ( مالک مکان) کہہ کے پکارا کرتا تھا۔ میں بس سٹیشن کے سامنے پہاڑی پر واقع کئی گلیوں میں سے ایک میں، میں اس کے کرایہ دار کے طور پر رہا تھا۔ وہ وہلا بندہ تھا۔ سال بھر میں بس چار ماہ جون تا ستمبر وہ باروزگار ہوتا تھا جب مانٹینگرو کے ساحلوں پر یورپ بھر سے سیاح فرصت کے رات دن گزارنے آتے تھے۔ وہاں وہ دن کو ایک ریستوران میں بیرہ گیری کرتا اور رات ایک میوزیکل گروپ کے ساتھ گٹار بجاتا۔

آج سب سے پہلے اس کی والدہ سے سامنا ہوا جسے ہم سب مائیکہ (ماں ) پکارتے تھے۔ اسی سال سے کچھ اوپر ہونے کے باوجود وہ اب بھی ویسی ہی تھی۔ وہ مجھے پہچان نہ پائی۔ باتیں ہو رہی تھیں کہ اندر سے سناد نکلا۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا ایلون آ گیا۔ اب وہ ماشا اللہ جوان تھا لیکن اس نے تب سکول جانا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ یہ ایک بوسنین فیملی تھی۔ تقریباً چھ سات مرلے جگہ میں ایک گھر اور دو فلیٹ تھے۔ یہ فلیٹ سناد کے بھائیوں کے تھے جو جنگ کے دوران مغربی یورپ چلے گئے تھے۔ انہی میں صلاح الدین صاحب ( آپ کئی سال بعد آئی جی آزاد کشمیر، کے پی کے اور کمانڈنٹ ایف سی رہے ) اور میں رہائش پذیر رہے تھے۔ یہ فلیٹ اب بھی خالی تھے اور اسی پرانے سامان سے آراستہ تھے۔

سناد کے ہمسائے میں تین اور بوسنین خاندان بھی رہتے تھے۔ ان میں سے ایک عمر رسیدہ بے اولاد جوڑا تھا جو اب جہانِ دگر کے مسافر ہو گئے تھے۔ مرد کا نام آدمیر تھا۔ میں نے ایک دفعہ اس سے پوچھا۔ اولاد کی خاطر کیا کبھی دوسری شادی کا خیال آیا۔ اس نے کہا نہیں کیونکہ اولاد دینے والے کو ایسی کوئی مشکل نہ تھی۔ اگر وہ چاہتا تو اسی بیوی کے بطن سے دے دیتا۔ صابر و شاکر لوگ بھی نہ معلوم کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں کہ کچھ اور طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ تب سے تقریباِ دس سال بعد مشرقی تیمور مشن میں ایک آسٹریلوی بڈھا دوست بنا۔ وہ بھی بے اولاد تھا۔ اس نے تو عجیب بات بتائی۔ بولا عمر بیت گئی لیکن ہم نے ڈاکٹری معائنہ تک نہ کرایا۔ وجہ بس اتنی تھی کہ اگر کسی ایک میں نقص نکل آیا تو ایسا نہ ہو کہ کبھی گھریلو جھگڑے کے دوران دوسرا غصے میں اس کا طعنہ دیدے اور یوں ہماری محبت ہمیشہ کے لیے گہنا جائے۔ کتاب نے شاید ایسے ہی بندوں کے بارے میں کہہ رکھا ہے کہ

” اور اللہ اپنے بندوں کے لیے کا فی ہے“

سناد کی بیوی کا نام مدینہ تھا۔ اچھے قد بت اور شکل والی خاتون تھی۔ وہ مجھے اور صلاح الدین صاحب کو اکثر کہتی تھی کہ آپ لوگ میرے بھائی سے بال کیوں نہیں کٹواتے جس کی وٹو مریسہ میں حجام کی مشہور دکان ہے۔ میں اور صلاح الدین صاحب آپس میں یہ تبصرہ کرتے کہ عجیب لوگ ہیں ایسے تعارف پہ بھی شرمساری محسوس نہیں کرتے جسے ہمارے ہاں چھپانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ آپ مذہبی بندے تھے اس موقع پر استنبول کے گرینڈ بازار کی تقریباً ہر دکان میں تختی پہ لکھی ایک حدیث کو یاد کرتے ”الکاسبُ حبیبُ اللہ“ (کاریگر اللہ کا دوست ہوتا ہے ) ۔

سناد سے جڑے گھر کا سربراہ ایک بوڑھا شخص تھا جس کا نام ادمان تھا۔ وہ مارشل ٹیٹو کے یوگوسلاویہ میں ٹرک ڈرائیور رہا تھا۔ وہ اس دور کے امن و شانتی کے قصے سناتے ہوئے افسردہ ہو جاتا تھا۔ بتاتا تھا کہ اگر کسی ویران سڑک پر ٹرک خراب ہو جاتا تو میں وہاں رات بسر کرتے ہوئے کسی طرح کا خوف محسوس نہیں کرتا تھا۔

مدینہ جس وٹو مریسہ کا ذکر کیا کرتی تھی یہ پے آ سے ذرا دور نقشے پہ بنایا گیا ایک بڑا گاؤں تھا جو مارشل ٹیٹو کے دور میں بسایا گیا تھا۔ اس کا مقصد البانوی اکثریتی علاقے میں مناسب نسلی تناسب سے ہم آہنگی کو فروغ دینا تھا۔ افسوس یہ خواب نہ مارشل ٹیٹو کی زندگی میں پورا ہوا اور نہ بعد میں۔ غالب کیا پتے کی بات کر گئے

ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں

کوسووار اور بوسنین مذہبی ہم آہنگی کے باوجود لسانی اختلاف کی وجہ سے کبھی ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے۔ بلکہ بوسنین کو سربوں کا مخبر سمجھا جاتا تھا کیونکہ دونوں کی زبان ایک تھی۔ یہی زبان بوسنیا میں بھی ایک تھی لیکن وہاں مذہب وجہِ نزاع تھا، زبان نہیں۔

تعجب سے وہ بولے، یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں

مائیکہ، سناد اور ایلون کے ساتھ تھوڑا وقت صحن میں بچھی کرسیوں پر بیٹھ کر گزارا جہاں شیشم کے دو بڑے درختوں میں سے اب ایک ہی سلامت تھا۔ اس کے بعد سناد نے فوکسی کار نکالی اور وٹو مریسہ میں اپنے سالے کے ریستوران میں لے گیا جو چند سال قبل تعمیر ہوا تھا۔ سناد کے بقول اس ریستوران کی ناکامی کی وجہ اس کے سالے کا وہ حج ہے جو اس نے پچھلے سال کیا۔ حج کے بعد اس نے ریستوران میں شراب رکھنا بند کر دیا ہے۔ ادھر ہم لوگ آپ جیسے اچھے مسلمان نہیں کہ کھانے خاص طور پر عشائیے کو خشک حلق سے شکم میں دھکیل دیں۔ چنانچہ یہ ریستوران جوس اور کافی سے دل بہلانے والے مسکینوں کا گڑھ ہے اور آمدنی کا یہ عالم ہے کہ اس کا بجلی کا بل جیب سے دینا پڑتا ہے۔
(جاری ہے )

عبدالوحید خان
Latest posts by عبدالوحید خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments