مشینی ذہانت سے مایوسی اور قحط سالی کا عذاب


علم کے سمندر سے جوبھی نئی لہر ابھرے نہایت لگن سے میں اس کا پیچھا کرتا ہوں۔ گزشتہ چند برسوں سے اے آئی کا بہت ذکر ہے۔ یہ Artificial Intelligence کا مخفف ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب اس کا چرچا شروع ہوا تو میرے نہایت مہربان شعیب بن عزیز صاحب نے اس کی بدولت میرا کچا چٹھا نکالنا چاہا۔ سردیوں کی شاموں میں اداس بیٹھ کر ’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘ جیسا مصرعہ نکالنے والے کو مگر اے آئی نے مایوس کیا۔

مزید پڑھنے سے قبل یہ عرض کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اسے ’مصنوعی ذہانت‘ کہا جاتا ہے۔ مجھے اس ترجمے پر اعتراض ہے۔ جو ’ذہانت‘ اس کی بدولت ملتی ہے وہ ’مصنوعی‘ تو نہیں ہوتی۔ انسانی ذہن میں نمودار ہونے کے بجائے کمپیوٹر سے برآمد ہوتی ہے۔ کمپیوٹر ایک مشین ہے تو اس کی ذہانت کو ہم مشینی ذہانت پکار سکتے ہیں۔ صنعتی ذہانت ایک اور ترجمہ ہوسکتا ہے۔ لسانیات مگر میرا موضوع نہیں۔ پنجابی گھرانے میں پیدا ہوکر اردو اور انگریزی میں لکھ کر ساری عمر رزق کمایا ہے۔ ان دوزبانوں کو استعمال کرتے ہوئے جو لاعلمی برتی ہوگی اس کا درد تو وہ لوگ ہی محسوس کرسکتے ہیں جن کی مادری زبان اردو ہے یا انگریزی۔

شعیب بن عزیز صاحب کو ان کے کمپیوٹر یا موبائل فون میں نصب اے آئی ایپ نے یہ بتایا کہ نصرت جاوید ملتان میں پیدا ہوا تھا۔ میرا سن پیدائش بھی غلط بتایا گیا۔ شعیب بھائی نے اپنی ’دریافت‘ مجھے بھیجی تو میں نے ’اے آئی تو بس کریں او یار‘ کا فیصلہ کرلیا۔ بلھے شاہ سے غالباً علم سے فرار کا جواز ہی تلاش کرتا رہا ہوں۔

اے آئی کے بارے میں کئی مہینوں سے برتی قطعی لاتعلقی کے باوجود گزرے ہفتے کے دوران عالمی میڈیا پر توجہ دی تو روایتی ہو یا سوشل میڈیا ہر جگہ ہاہاکار مچی ہوئی تھی۔ خود کو دنیا کی واحد سپرطاقت کہلواتا امریکا کمپیوٹر کا موجد بھی ہے۔ وہ اس امر کے بارے میں بہت پریشان تھا کہ ہمارے یار چین نے انتہائی کم لاگت سے اے آئی کا ایک ورژن ایجاد کر لیا ہے۔ اسے دنیا میں روشناس کروانے کے لیے موبائل فون کے مالکان کو پیش کش ہوئی کہ وہ بالکل مفت اسے اپنے ٹیلی فون پر نصب کرتے ہوئے جائزہ لیں کہ امریکا سے بھاری بھر کم معاوضہ پر دستیاب مختلف النوع اے آئی ایپس کے مقابلے میں ان کی اے آئی کتنی زیادہ تیز رفتار اور ذہین تر ہے۔

لوگوں نے چین کی متعارف کروائی ایپ کو ڈاﺅن لوڈ کرکے آزمایا تو ہکا بکا رہ گئے۔ اے آئی کے فروغ کے لیے نو منتخب صدر ٹرمپ نے 500 بلین ڈالر خرچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ درحقیقت کمپیوٹر اور اس سے متعلق بین الاقوامی سطح پر اجارہ داری کی حامل ان ملٹی نیشنلز کمپنیوں کو نوازنا چاہ رہا ہے جن کے مالک اس تقریب حلف برداری میں امریکا کے منتخب نمائندوں کے مقابلے میں بھی زیادہ نمایاں جگہ پر بٹھائے گئے تھے۔ ایسی ہی کمپنیوں کے ایک مالک -ایلون مسک- نے تو انتہائی ڈھٹائی سے اس کے لیے ووٹ خریدنے کے لیے 250 ملین ڈالر سے زیادہ رقم بھی خرچ کردی تھی۔

صدر منتخب ہونے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ ٹیک کمپنیوں کے لیے 500 ارب ڈالر کی رقم مختص کرتے ہوئے اپنے سیٹھ دوستوں کو تھینک یو کہتا سنائی دیا۔ اس کے مذکورہ اعلان کے بعد مگر جب چین کی متعارف کردہ اے آئی ایپ مارکیٹ میں آئی تو امریکی سٹاک ایکسچینج میں مصنوعی ذہانت کی چند بڑی کمپنیوں کا تقریباً دیوالیہ نکل گیا۔ چینی ایپ کی شہرت کے ڈنکے بجے تو میں نے بھی اپنے فون پر اسے سرچ کیا اور دو منٹ سے بھی کم وقت میں وہ ایپ جو Deep Seek کہلاتی ہے میرے فون میں نصب ہو گئی۔ وہ نصب ہو گئی تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں اس کا ’امتحان‘ کیسے لوں۔ امریکہ کی متعارف کردہ اے آئی والی کوئی ایپ میں نے اپنے موبائل فون میں ڈال نہیں رکھی۔ موازنہ کرنے کے لہٰذا قابل نہیں تھا۔ تقابلی جائزے کی خواہش سے جند چھڑا کر روزمرہ زندگی میں مصروف ہو گیا۔

گزرے ہفتے کے روز مگر واجب وجوہات کی بنا پر مجھے اے آئی کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کالم میں بارہا اسلام آباد کے ایک نواحی گاﺅں میں چھوٹے رقبے پر مشتمل ایک زرعی قطعے کا ذکر ہوتا ہے جو میری بیوی کوورثے میں ملا ہے۔ ہفتے کے آخری دو دن میں اور میری بیوی وہاں جاکر فطرت کے قریب ہوتے ہوئے روزمرہ زندگی کے دباﺅ سے وقفہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی برسوں تک مختلف فراڈیوں کے ہاتھوں دھوکا کھانے کے بعد بالآخر ہمیں ایک محنتی اور ایماندار شخص مل گیا ہے۔ وہ فنکاروں کی سی لگن کے ساتھ زمین سے کچھ نہ کچھ اگانے کی لگن میں جتا رہتا ہے۔ خطیر رقم کے خرچ سے میں نے زیر زمین پانی کا ذخیرہ دریافت کر لیا ہے جو امید ہے آئندہ کچھ برسوں تک ہمارے کام آئے گا۔ پانی کی موجودگی نے ہمارے ملازم کو حوصلہ دیا اور اس نے موسم رواں میں استعمال ہونے والی تمام سبزیاں بہت اچھے انداز میں اگا لیں۔

زرعی رقبے پر جاتے ہوئے مگر گاﺅں میں اردگرد نگاہ ڈالتا ہوں تو ہریالی کہیں نظر نہیں آتی۔ درخت مٹی کا لباس پہنے دکھائی دیتے ہیں۔ اب کی بار خاک کے غبار اڑتے دیکھ کر یاد آیا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے اسلام آباد کے گردونواح میں بارش نہیں ہوئی ہے۔ یہ سوچتے ہوئے گاﺅں کے مکینوں سے گفتگو ہوئی تو ان کی اکثریت بہت پریشان سنائی دی۔ سوکھے موسم کے سبب وہ اپنی ضرورت کی سبزیاں اگا نہیں پائے اور انھیں مزید غم یہ سوچتے ہوئے بھی محسوس ہو رہا تھا کہ اب کی بار وہ اپنے گھرانے کی ضرورت کے مطابق گندم بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ بارش نہ ہونے کے سبب سبزیوں اور گندم کی پیدائش نہ ہونا میرے لیے خبر نہیں تھی۔ حیران کن اطلاع یہ بھی ملی کہ گاﺅں کے مکینوں کے مطابق ان کی مرغیوں نے سردی کے رواں موسم میں انڈے بھی نہیں دیے۔ بارش کا نہ ہونا مرغیوں کو انڈہ دینے کے ناقابل بنادیتا ہے۔ یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔

گاﺅں کے مکینوں کی پریشانی سے گھبرا کر میں گھرلوٹا تو اپنے فون میں نصب ’ڈیپ سیک‘ سے ایک سادہ سوال پوچھا اور وہ یہ کہ اسلام آباد میں 2024-25ء سے قبل کون سے برس میں سردی کا موسم خشک سالی کا شکار رہا۔ میں نے سوال لکھا تو کم از کم دس منٹ تک جواب یہ ملتا رہا کہ چینی ایپ کا سرور بہت مصروف ہے۔ غالباً دنیا کے ہزاروں لوگ اس سے سوالات پوچھ رہے ہوں گے۔ دس سے زیادہ منٹ تک انتظار کے بعد جواب آیا تو فقط اتنا کہ ’ڈیپ سیک‘ کے پاس اسلام آباد میں بارشوں کا ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ بہتر یہی ہوگا کہ پاکستان کے محکمہ موسمیات سے رابطہ کروں۔ چینی ایپ سے جواب نہ پاکر اچانک مجھے یاد آیا کہ ٹویٹر جسے اب ایکس کہا جاتا ہے آپ کو Grok نام کی ایک اے آئی ایپ فی الحال مفت فراہم کر رہا ہے۔ کیوں نہ اس سے رجوع کیا جائے۔ موبائل پر لہٰذا وی پی این لگایا اور اپنا ایکس اکاﺅنٹ کھول لیا۔ ایلون مسک کی مشینی ذہانت بھی لیکن میرے سوال کا جواب نہ دے پائی۔ اکتا کر میں نے فون بند کیا اور لیپ ٹاپ کھول کر انکل  گوگل کے سرچ انجن پر اپنا سوال دہرایا۔ چند ہی سکینڈ میں مجھے بے تحاشا لنک فراہم کر دیے گئے۔ ان پر سرسری نگاہ ڈالتے ہی میں نے دریافت کرلیا کہ 2025ء سے قبل اسلام آباد میں بے بارش کی سردی 2017ء میں آئی تھی۔ اپنے سوال کا جواب کسی اے آئی ایپ کے بجائے پرانی وضع کے گوگل سے حاصل کرنے کے باوجود میری پریشانی دور نہیں ہوئی۔ سوچے چلے جارہا ہوں کہ میرے منہ میں خاک اگر فروری کا مہینہ بھی بغیر بارش کے گزر گیا تو چھوٹے رقبوں کے مالک کاشت کاروں کا کیا ہو گا۔ قحط سالی کا اصل عذاب تو وہ بھگتیں گے اور بہت دھوم دھام سے ایجاد ہوئی ’مصنوعی ذہانت‘ ان کے کسی کام نہیں آئے گی۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments