کیا مختلف سطح کی شناختوں میں توازن ممکن ہے؟
یہ سوال بہت دنوں سے دل و دماغ پر دستک دے رہا ہے کہ کیا فرد کے لیے مختلف سطح کی شناختوں میں توازن ممکن ہے؟ ہم جب دنیا میں آتے ہیں تو ہماری سب سے پہلی شناخت نسلی و لسانی ہوتی ہے، عام طور پر انسانوں کی نسلوں اور زبانوں کا تعلق کسی علاقے سے ہوتا ہے اس لیے اس سطح کی شناخت علاقائی بھی کہلاتی ہے۔ اس سطح کی شناخت ایک طرح سے مستقل ہوتی ہے اور آخری دم تک قائم رہتی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ یہ شناخت اخلاقی حقوق و ذمہ داریاں تو پیدا کرتی ہے مگر قانونی نہیں۔ اس سے اگلے درجے پر ایک اور شناخت ہوتی ہے جسے آپ صوبائی سطح کی شناخت کہتے ہیں یا کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہمارے ہاں پنجابی، سندھی، بلوچی، پختون، کشمیری وغیرہ۔ اس سطح کی شناخت اخلاقی کے ساتھ ساتھ قانونی حقوق و ذمہ داریاں بھی پیدا کرتی ہے۔ اس سے آگے بڑھیں تو قومی سطح پر ایک شناخت آپ کی منتظر ہوتی ہے، جو خالصتاً قانونی حقوق و ذمہ داریاں پیدا کرتی ہے۔ شناخت کا سفر یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس سے آگے بڑھیں تو یہ براعظم اور پھر دنیا کی سطح پر بھی موجود ہوتا ہے۔ دیکھیں ہم جنوبی ایشیائی کس طرح جنوب مشرقی ایشیائی لوگوں سے مختلف دکھتے ہیں، یہی نہیں ہمارا تو پورا تمدن ہی ان سے مختلف ہے۔ اور جب یورپ یا امریکہ کی بات آئے تو ہم تمام ایشیائی ایک جیسے مگر ان سے مختلف ہوتے ہیں۔
شناختوں کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے۔ مذہب بھی ایک شناخت فراہم کرتا ہے اور بعض اوقات اس کی فراہم کردہ شناخت دوسری تمام شناختوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک شناخت پیشہ ورانہ بھی ہوتی ہے اور کبھی کبھار یہ شناخت دوسری شناختوں کو کھا جاتی ہے۔ پیشہ ورانہ شناخت منفی بھی ہو سکتی ہے اور مثبت بھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون سی شناخت سب سے اہم ہے اور ایک فرد ان شناختوں میں توازن کیسے پیدا کر سکتا ہے؟ یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ لوگ ان شناختوں کے معاملے میں عدم توازن اور تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ ان تمام شناختوں میں لسانی اور نسلی شناخت پیدائشی اور مستقل ہوتی ہے اور باقی تمام شناختیں اختیاری بھی ہوتی ہیں اور بدلتی بھی رہتی ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر ان تمام لوگوں کو پیش کیا جاسکتا ہے جو ہندوستان کی تقسیم کے بعد اپنے علاقوں سے ہجرت کر کے دوسروں علاقوں میں جا بسے۔ آج ان کی چوتھی نسل پیدا ہو چکی ہے مگر آپ آج بھی ان میں ہجرت کرنے والی نسل کی لسانی اور نسلی چھاپ دیکھ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لسانی شناخت بعض اوقات نسلی شناخت سے جدا بھی ہوتی ہے اور گہری بھی۔ مثال کے طور پر پاکستان میں اردو کے بعد جو زبان چاروں صوبوں میں بولی جاتی ہے وہ سرائیکی ہے۔ سرائیکی بولنے والوں کی غالب اکثریت تو جنوبی پنجاب میں رہتی ہے لیکن جنوبی پنجاب سے متصل دوسرے صوبوں یعنی سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے علاقوں میں بھی سرائیکی بولی جاتی ہے۔ یہ تمام سرائیکی بولنے والے نسلی طور پر ایک نہیں ہیں۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ سرائیکی زبان ایک الگ زبان ہے یا پنجابی زبان کی ہی ایک قسم ہے۔ اس مسلے پر علماء لسانیات کے ہاں مختلف آراء پائی جاتی ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ یہ سندھی اور پنجابی کے درمیان ایک ارتقاء پذیر زبان ہے اور دوسرے اسے پنجابی یا سندھی کی ایک قسم ہی سمجھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنجابی اور سندھی دونوں ہی اپنے آپ کو سرائیکی سے قریب سمجھتے ہیں البتہ سرائیکی غالب اکثریت میں پنجاب میں رہنے کے باوجود اپنے آپ کو سندھیوں کے قریب سمجھتے ہیں۔
میرے نزدیک کسی تہذیب و تمدن کو سمجھنے کے لیے فیض احمد فیض صاحب کی دی ہوئی تعریف سب سے زیادہ مددگار ہے۔ فیض صاحب کی انگریزی نثری تحریریں جو آکسفورڈ والوں نے ”Culture & Identity“ کے نام سے شائع کی ہیں کے پہلے ہی مضمون میں لکھا ہے کہ کسی تمدن کی لمبائی تاریخ سے، چوڑائی جغرافیہ سے اور گہرائی زبان اور رسم و رواج سے ماپی جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمدنی شناخت ایک پیچیدہ مسئلہ ہے کیونکہ اس میں تاریخ، جغرافیہ اور زبان کو دخل حاصل ہے۔ اب جغرافیہ تو بدل جاتا ہے جیسے ہندوستان کی تقسیم کے ساتھ ہوا یا کسی شخص یا، گروہ کی نقل مکانی سے ہو سکتا ہے مگر تاریخ اور زبان جلدی نہیں بدلتے۔ ان میں بھی سب سے آخر مین تبدیلی زبان میں آتی ہے۔
یہ بات تو سمجھ اتی ہے کہ لسانی شناخت سب سے گہری ہوتی ہے مگر عملی لحاظ سے دوسری شناختیں بھی کم اہم نہیں ہوتی ہیں۔ اگر یار عزیز زبیر حبیب کی خواہش پر دنیا کے جغرافیہ کو خالص لسانی بنیادوں پر اکائیوں میں تقسیم کر دیا جائے تو شاید شناخت کا مسئلہ بہت حد تک حل ہو جائے مگر اس کا امکان بہت کم نظر آتا ہے۔ ہمارے ایشیا میں تو شاید بہت سے ممالک کی سرحدیں بدلنی پڑیں۔ اب جبکہ دنیا کو لسانی بنیادوں پر جغرافیہ میں نہیں بدلہ جاسکتا تو ایک فرد ان شناختوں میں توازن کیسے پیدا کرے۔ ایک بات کہہ لینے دیجیے، مرکزی پنجاب کے لوگوں کو ایک الزام یہ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو اور پاکستانیت کی شناخت کو قائم کرنے کے لیے اپنی لسانی شناخت کی قربانی دی ہے۔ شناختوں کے معاملے میں یہ ایک مشکل صورتحال کی مثال ہے۔
اس معاملے میں میرا مطالعہ ابھی جاری ہے کہ فرد مختلف شناختوں میں توازن کیسے پیدا کرے، اس مسئلے پر بہت سے علماء کرام سے بات ہوئی مگر انہیں شرح صدر حاصل تھی اور نہ مجھے حاصل ہوئی ہے۔ میں پنجابی زبان مرکزی پنجاب کے لہجے میں بولتا ہوں، لاہور میں رہتا ہوں، پاکستان میرا وطن ہے جو جنوبی ایشیا میں پایا جاتا ہے، اردو کی محبت میں گرفتار ہوں، اسلام میرا دین ہے اور انسان پیدا کیا گیا ہوں۔ پنجابی کو دیکھوں تو اس پار کے لوگ پیارے لگتے ہیں، اردو کو دیکھوں تو یہ سب اپنے لگتے ہیں، اسلام کو دیکھوں تو عرب و فارس کی طرف کھچاؤ محسوس کرتا ہوں اور اپنے وجود کو دیکھوں تو کل جہان کے لوگ کیا سب مخلوق اچھی لگتی ہے،
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے
(غالب)
نہیں جانتا کہ اتنی شناختوں میں توازن کیسے پیدا کروں، مگر یہ جان رہا ہوں کہ ہر شناخت میری شناخت کی خوبصورتی کے لیے ضروری ہے۔
ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے
- نہ لکھے گئے مضمون کی آفت - 19/03/2025
- جی ایم بٹ : کچھ یادیں کچھ باتیں - 26/02/2025
- آسماں در آسماں از شاہد صدیقی: کتابِ دیگر است - 08/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).