سرنگ (افسانہ)


چاروں طرف اونچی دیواریں، ایسی بلند کہ سورج کی کرنیں ان سے ٹکرا کر بکھر جاتیں، روشنی کی ایک ہلکی سی شعاع بھی اندر داخل نہ ہو پاتی۔ دو طرف وہ کھڑکیاں جن کے پٹ شاید صدیوں سے مقفل تھے۔ اگر کبھی وہ ہمت کر کے انہیں کھولنے کی کوشش بھی کرتی، تو لکڑی کے چٹخنے کی ایسی دل خراش آواز گونجتی کہ خوف کے مارے اس کے ہاتھ کانپ جاتے۔

بقیہ دو طرف وہ دیوہیکل دروازے، جن کی ہیبت ہی کافی تھی لرزا دینے کے لیے۔
یہاں تاریکی کا ایسا راج تھا کہ چاندنی بھی اس جگہ سے کنارہ کش ہو چکی تھی۔
یہاں تنہائی اتنی تھی کہ خود اپنا وجود بھی اجنبی لگنے لگتا۔
یہاں خاموشی ایسی تھی کہ وہ اپنی دھڑکنیں تک سن سکتی تھی۔
نہ کوئی ہوا کی سرگوشی، نہ روشنی کی کرن، نہ پرندے کی بھٹکتی ہوئی کوئی کوک۔

مگر یہاں کبھی کبھار چند مارموٹ آ جاتے۔ دیوار کے ایک چھوٹے سے سوراخ سے ان کا آنا جانا لگا رہتا۔ وہ اپنی مخصوص سیٹیوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہتے، ایک پل کے لئے کمرے میں زندگی کا کوئی نشان محسوس ہوتا، اور پھر وہ چلے جاتے، اس کے گرد موت جیسی خاموشی دوبارہ اپنا سایہ پھیلا دیتی۔

اب تو اسے مکڑیوں کے جالے بھی دلچسپ لگنے لگے تھے۔ کم از کم وہ جالے توڑ کر باہر نکل سکتی تھیں، مگر وہ خود؟ وہ جس جال میں پھنسی تھی، وہاں اسے آزادی دلانے کے لیے کوئی مکڑی نہیں تھی۔

اسے دنیا نے رد کر دیا تھا۔ شوہر، ماں، باپ، بہن بھائی، سہیلیاں، اور سب سے بڑھ کر وہ شخص، جو اس جرم میں برابر کا شریک تھا۔

کبھی کبھی اس کے اندر ایک وحشت جاگ اٹھتی، ایک جنون کہ وہ ان دیواروں کو توڑ ڈالے، اس قید خانے کو جلا کر راکھ کر دے، مگر کیسے؟ اسے یاد بھی نہ تھا کہ وہ کب سے ان چار دیواریوں میں قید تھی۔

اس کی خواہش تھی کہ
ہوا کی خنکی کو محسوس کرے،
دھوپ کی تمازت میں اپنا بدن سینکے،
اپنی مرضی سے جہاں چاہے چلے پھرے،
جس سے چاہے بات کرے۔

مگر وہ جانتی تھی کہ یہ سب ممکن نہیں تھا۔ لوگ اس سے بات کرنا تو دور، اس پر نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔

آج پھر ویسا ہی دن تھا۔

وہ دھیرے دھیرے ایک دروازے کی طرف بڑھی۔ آہستہ آہستہ، بغیر کوئی آواز پیدا کیے ، اس کے قریب پہنچی۔ سانس روک کر سوراخ میں سے جھانکا۔

نگاہیں ملیں۔
اور پھر گھبرا کر وہ پیچھے ہٹ گئی، جیسے کسی نے انگارے اس کی آنکھوں میں بھر دیے ہوں۔
۔ وہ چہرہ
نفرت سے بھرا ہوا،
غصے سے سرخ،
عداوت اور حقارت کا مجسمہ۔
وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی، پسینے میں شرابور، سانسیں دھونکنی کی مانند چلنے لگیں۔

”وہ مجھے کبھی معاف نہیں کرے گا۔ لیکن اگر وہ دروازے کے اس طرف ہوتا اور میں دوسری طرف، تو؟ تو شاید مجھے اسے معاف کرنا پڑتا، چاہے میں نہ بھی کرنا چاہتی، تب بھی! مجھے اسے گلے لگانا پڑتا، یہ ظاہر کرنا پڑتا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔“

سانسیں ذرا سنبھلیں تو وہ دبے پاؤں دوسرے دروازے تک پہنچی۔ سوراخ میں آنکھیں ڈالیں، مگر۔
یہ بے رخی!

جیسے اس نے اس کا وجود تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا ہو۔ جیسے وہ وہاں ہو ہی نہ، کوئی بے جان، بوسیدہ چیز ہو، احساسات سے عاری، کوئی متروکہ شے، جس کا وجود محض ایک دھبہ ہو۔

اور یہی وہ شخص تھا، جس کی محبت کے سحر میں آ کر اس نے خود کو اس کے حوالے کر دیا تھا۔
وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی۔
”غلطی تو اس کی بھی تھی، مگر اسے قبول کر لیا گیا۔
معاشرے نے اسے ایک دو بار دھتکارا، پھر گلے لگا لیا۔
بہن بھائیوں نے اسے پھر اپنا لیا۔
دوستوں نے ایک بار بھی سوال نہ کیا۔
مگر میرا سب کچھ ختم ہو گیا۔
سب کچھ۔ ”
آج، آج وہ ضرور یہاں سے نکلے گی!
لیکن کیسے؟
کیسے ان دیواروں کو عبور کرے؟
کیسے ان دروازوں کو کھولے؟
کیسے ان بند کھڑکیوں کو توڑے؟
ایک سرد لہر اس کے جسم میں سرایت کر گئی۔
پھر اس کی نظریں دیوار کے اس سوراخ پر جا ٹکیں، جہاں سے مارموٹ اندر آتے تھے۔

کچھ دیر وہ یوں ہی بے حس، بے جان اس چھوٹے سے راستے کو تکتی رہی، پھر اچانک اس کی آنکھوں میں ایک روشنی سی چمکی۔

وہ تیزی سے اٹھی، کلہاڑی ہاتھ میں تھامی، اور مٹی کو کھودنا شروع کر دیا۔
وہ زمین چیر دے گی!
یہی اس کا راستہ ہے۔

ایک سرنگ کھودے گی، جہاں سے باہر نکل سکے، وہاں جہاں کوئی اسے نہ پہچانے، جہاں کوئی سوال نہ کرے، جہاں کوئی ترچھی نظروں سے نہ دیکھے، جہاں اسے عورت نہیں، ایک انسان سمجھا جائے۔

ہاں، ایک انسان!
دن پر دن، رات پر رات، وہ کھودتی رہی۔
مٹی کے ڈھیر ہٹاتی رہی،
بازو شل ہوتے گئے،
ہاتھ زخمی ہوتے گئے،
مگر وہ رکی نہیں۔
اور پھر۔
ایک دن وہ سرنگ میں جا گری۔
اور پھر کبھی نہ اٹھ سکی۔
باہر شور بلند ہوا۔
”یہ بھیڑ کیوں جمع ہے؟“ کسی نے پوچھا۔
”ایک عورت کی لاش ملی ہے۔ شاید اپنی بدچلنی کی وجہ سے خودکشی کر لی ہے! “
بس۔ ایک جملہ۔ اور کہانی ختم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments