بلھے شاہ کے کلام میں خود شناسی۔ ایک جائزہ
پنجابی زبان کے اس عظیم شاعر بلھے شاہ کا اصلی نام سید عبداللہ شاہ تھا۔ حضرت بلھے شاہ کی پیدائش کا مقام اچ گیلانیاں اور زمانہ۔ 1758۔ 1680 بیان کیا جاتا ہے۔ جب اورنگ زیب کی وفات ہوئی بلھے شاہ کی عمر 27 برس تھی، اپنی زندگی کے باقی 51 برس بلھے شاہ نے اورنگ زیب کے جانشینوں کے عہد حکومت میں گزارے۔
بلھے شاہ ایک مقبول عام صوفی شاعر تھے۔ ان کے سارے کلام میں صوفیانہ شاعری کی آزاد خیالی اور توکل کا رنگ جھلکتا ہے، توحیدِ باری تعالیٰ اور عشقِ حقیقی اور اپنی ذات کی پہچان ان کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے اور اس موضوع کو انہوں نے متنوع انداز سے پیش کیا۔
جس دور میں بلھے شاہ سانس لے رہے تھے وہ بڑا مخدوش اور خراب و ابتر دور تھا، سیاسی عدم استحکام اور معاشرتی ناہمواریاں اپنے عروج پر تھیں اور ہر طرف ریا و مکر و فریب اور ظلم و ستم کو حکمرانی حاصل تھی، اس طرح کے ناگفتہ بہ حالات نے بلھے شاہ کو متاثر ضرور کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں آفاقی انداز سے سوچنے کا ذہن عطا کر رکھا تھا، انہوں نے نہ صرف اپنے دور کی ان خرابیوں کو اپنی مادری زبان کے ذریعے بیان کیا بلکہ لوگوں کو ایک مثالی اور پرسکون اور پرامن زندگی گزارنے کے لئے آفاقی قدروں کو اپنانے اور ان پر عمل پیرا ہونے کے سلسلے میں بھرپور رہنمائی بھی کی۔ وہ اپنے کلام میں ایک صاحبِ بصیرت صوفی بھی نظر آتے ہیں اور ایک بالغ نظر فنکار بھی دکھائی دیتے ہیں، جو انسان کے بطن میں جھانک کر اس کے مسائل کا حل بیان کرتے ہیں۔ پنجابی زبان کے مایۂ ناز صوفی شاعر میاں محمد نے ان کے کلام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
”بلھے شاہ کافی سن کے ٹٹ دا، کفر اندر دا“
بلھے شاہ سچائی اور خود آگہی کا پیکر تھے۔ بلھے شاہ کی شاعری انسان کے اندر کو صاف شفاف کر دیتی ہے، بلھے شاہ نے ایک ایسے مرشد کا ہاتھ تھاما جو بذاتِ خود ایک مختلف قسم کا انسان تھا، وہ ایسے بڑے آدمی تھے کہ جو سمجھ لیتے تھے کہ یہ مخلوق کس کی ہے اور میں بھی کسی کی مخلوق ہوں اور مخلوق کی ایک سطح ہوتی ہے، اس کی ایک شناخت ہوتی ہے، اس میں ایک اجتماعیت ہوتی ہے، اکٹھے جینے مرنے کا معاملہ ہوتا ہے، بلھے شاہ مخلوق کی تقسیم، روحانیت اور مادیت کی تقسیم کے خلاف تھے۔
بلھے شاہ نے اپنے کلام میں جا بجا انسان کو اپنی شناخت کا درس دیا ہے۔ ان کی فکر کا ہر رنگ توحید کے رنگ سے پھوٹتا ہے۔ وہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا عکس قرار دیتے ہیں۔ اور وہ انسان کو اس خدا کے کمالات کا نمونہ گردانتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ اس کی ذات ہی میں ذاتِ باری تعالیٰ نمایاں ہے لیکن یہ انسان اس دنیا کے دھندوں میں پڑ کر اپنے رب کو فراموش کر بیٹھتا ہے اور اسفل سافلین کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے شمار خرابیوں میں گھر جاتا ہے، بالآخر اس کی نجات اپنی اصل یعنی اللہ سے اتصال ہی میں پوشیدہ ہے، اس لیے وہ منافقانہ روش کے خلاف اظہارِ خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
کیسی توبہ ہے ایہہ توبہ ایسی توبہ نہ کر یار
کس غلفت نے پایو پردا، تینوں بخشے کیوں غفار
جت نہ جانا اوتھے جاویں حق بیگانہ مکر کھاویں
کوڑ کتاباں سر تے چاویں، ہووے کیہہ تیرا اعتبار
ظالم ظلموں ناہیں ڈردے اپنی کیتیوں آپے مردے
ناہیں خوف خدا دا کردے، ایتھے اوتھے ہون خوار
کیسی توبہ ہے ایہہ توبہ ایسی توبہ نہ کر یار
بلھے شاہ کے کلام میں لوگوں کو بیداری کا سبق ملتا ہے۔ بلھے شاہ نے اس دور کے واعظوں، علمائے کرام اور مصلحین قوم کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا اور انہیں خانقاہوں سے باہر نکل کر اسلام کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کو کہا، بلھے شاہ کی جرات مندانہ اور بے باکانہ تنقید نے وقت کے سلاطین اور خود کو مذہبی سمجھنے والوں کو خواب بیدار کا پیغام دیا فرماتے ہیں کہ
اٹھ جاگ گھر اڑے مار نہیں
ایہہ سون تیرے درکار نہیں
اک روز جہانوں جاناں ایں
جا قبریں وچ سمانا ایں
تیرا گوشت کیڑیاں کھاناں ایں
کر چیتا مرگ وسار نہیں
سیاست کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
در کھلا حشر عذاب دا
برا حال ہویا پنجاب دا
آپ مسلمانوں میں چودہ سو سال قبل کی محبت و الفت دیکھنے کے متمنی تھے اور مسلمانوں میں موجودہ فرقہ واریت، مصیبت اور نفسا نفسی کی مذمت میں کہتے ہیں۔
الٹے ہور زمانے آئے
اساں بھید سجن دے پائے
اپنیاہ وچ الفت ناہیں
کیہہ چاچے کیہہ تائے
پیوں پتراں اتفاق نہ کوئی
دھیاں نال نہ مائے
وہ آواز جو کبھی بھی کہیں بھی ظلم کے خلاف بلند ہوتی ہے ہماری تحسین اور عقیدت کی حقدار ہے۔ بلھے شاہ کی آواز بھی انہی آوازوں میں سے ایک ہے اور یہی جذبہ اور عقیدت اس عظیم ہستی پر قلم اٹھانے کے لئے میرا محرک بنا، ممتاز مفتی نے ٹھیک ہی کہا کہ:
”جن کی شخصیت میں شدت ہو ان سے سوڈے کی بوتل کی طرح بلبلے اٹھتے ہیں، وہ بات اندر نہیں رکھتے اگل دیتے ہیں۔“
چپ کر کے کریں گزارے نوں
سچ سن کر لوک نہ سہندے نیں
سچ آکھیے تے گل پیندے نیں
پھر سچ پاس نہ بہندے نیں
سچ مٹھا عاشق پیارے نوں
چپ کر کے کریں گزارے نوں
بلھے شاہ خود آگہی کا درس دیتے ہوئے ایسے علم کو نامسعود سمجھتا ہے جو عوام کی بھلائی سے بے پروا ہو۔
حق گوئی کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کے باوجود اس پر جمے رہنے کی تلقین پر کم ہی کسی شاعر نے اس زور سے لکھا ہو گا۔ یعنی ان کی اس کافی کا موضوع سچ پر اصرار کر کے سراغِ زندگی اور سراغ ِ ذات کا حصول ہے۔
بلھا کیہہ جاناں میں کون
نہ میں مومن وچ مستیاں
نہ میں وچ کفر دیاں ریتاں
نہ میں پاکاں وچ پلیتاں
نہ میں موسے ٰ، نہ فرعون
بلھا کیہہ جاناں میں کون
نہ میں بھیت مذہب دا پایا
نہ میں آدم حوا جایا
بلھا کیہہ جاناں میں کون
متذکرہ بالا کافی بلھے شاہ کی مشہور ترین کافیوں میں سے ایک ہے اور نفسِ انسانی کی تشخیص اور اس کے متعلق بعض خیالات کے ظہور میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
راجا رسالو نے کہا کہ بلھے شاہ کے دور میں پنجاب افراتفری کا شکار تھا لیکن انہوں نے اس زمانہ میں محبت کی شاعری کی، ہمیشہ عوام کو ان کے مسائل سے آگاہ کیا، مسعود کھدر پوش کہا کرتے تھے کہ مجھے جب بھی جابر حکمران کے سامنے پیش ہونے کا اتفاق ہوا تو میں نے ہمیشہ بلھے شاہ کی شاعری کا ورد کیا جس سے مجھے تقویت ملتی تھی۔
بلھے شاہ نے اپنے دور کے لوگوں کے سوئے ہوئے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ملکی نامساعد حالات میں مردِ میدان کی طرح منافقت، ریاکاری، تعصب، خود غرضی اور ظلم کے خلاف اپنی شاعری سے شمشیر کا کام لیا۔ بلھے شاہ اپنے دور کے بے باک ترجمان تھے۔
اٹھ جاگ کھرارے مار نہیں
ایہہ سون تیرے درکار نہیں
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).