جدید معاشرہ اور صنفی امتیازات


دینِ اسلام میں کوئی عورت حکمران یا کسی ملک کی سربراہ نہیں بن سکتی۔ علمائے اسلام کا خیال ہے کہ امورِ سلطنت کی نظامت مرد کے علاوہ کوئی اور نہیں کر سکتا اس لیے کہ عورت میں کچھ طبعی کمزوریاں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ شرعی حدود ہیں جس کے باعث وہ مردوں کے شانہ بہ شانہ مجالس و تقریبات میں شامل نہیں ہو سکتی۔ کچھ علما نے تو پیغمبرِ اسلام کی حدیث بھی پیش کی ہے کہ وہ اگر حکمران بن جائے تو تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اس حوالے سے حافظ صلاح الدین یوسف، مولانا گوہر رحمان اور مولانا محمود الرشید حدوٹی جیسے علما کی کتب موجود ہیں جن میں یہ ثابت کیا گیا ہے کہ عورت حکمران یا سربراہِ سلطنت نہیں بن سکتی۔ (اس موضوع پر اکثر کتابیں اس دور میں تحریر کی گئیں جب بے نظیر بھٹو اسلامی دنیا میں ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں جو مذہب پسندوں کو گوارا نہیں تھا) ایسا صرف اسلام میں نہیں ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی عورت کے بارے میں ایسا ہی خیال ظاہر کیا گیا ہے۔

کئی معتبر فلسفیوں نے بھی معاشرے میں مرد اور عورت کے امتیازات کو برقرار رکھنے کی تلقین کی ہے جیسے سقراط نے عورت کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ عورت شیطان کی بیٹی ہے۔ ارسطو نے اسے زوال کا سبب قرار دیا ہے، افلاطون اسے برے لوگوں کی روح سے منسوب کرتا ہے جبکہ شوپنہار کے خیالات بھی مذکورہ فلسفیوں سے چنداں مختلف نہیں۔ جب کہ عام لوگ اسے انسانی ضرورت قرار دیتے ہیں۔ آج ہم جب مابعد جدید دور میں سانس لے رہے ہیں تو کیا اس وقت بھی عورت کی حیثیت معاشرے میں وہی ہے جو آج سے صدیوں پہلے تھی یا اب تبدیل ہو گئی ہے۔ اگر غور کیا جائے تو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا۔

دنیا جدید سے مابعد جدید دور میں داخل ہو گئی لیکن اس وقت بھی عورتوں کے حقوق اور انھیں مرد کے مساوی مقام و مرتبہ دلانے کی غرض سے، کئی تانیثی تحریکیں سر گرمِ عمل ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے ابھی تک زرعی سماج کی اخلاقیات کو خیر باد نہیں کہا اور دوسری جانب سرمایہ دارانہ نظام کے اثرات کو ”جیسا ہے ویسے ہی“ کی بنیاد پر قبول کر لیا ہے۔ کیوں کہ کارپوریٹ کلچر میں بھی عورت کو مرد کے مساوی خیال نہیں کیا جاتا کیوں وہ پدر سری نظام کی ساخت کو توڑنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مساوی حقوق اور برابری کا مطلب ہوتا ہے استحصال اور جبر کا خاتمہ۔ اگر یہی ختم ہو گیا تو کارپوریٹ کلچر غیر معمولی منافع کیسے کمائے گا؟ اس لیے وہ عورت کی آزادی کی آواز تو بلند کرتا ہے لیکن ایک خاص حد تک، کارپوریٹ کلچر اور صارفیت عورت کو پردے اور گھر کی چار دیواری سے باہر اس لئے نکالنا چاہتے ہیں کہ وہ اس کی نفاست اور نزاکت کو بطور پیداوار استعمال کر نے کے خواہاں ہیں۔ اس حوالے سے عورت کو چوکنا ہونے کی ضرورت ہے کیوں کہ ایک چنگل سے آزادی دوسرے کی اگر قید ثابت ہو تو اس سے کیا فائدہ۔ اس موقع پر فریڈرک اینگلز کی کتاب ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست“ کا حوالہ دینا ضروری ہے کہ عورت تاریخ میں مرد کے تابع اس وقت آئی جب معاشرے میں پیداوار کی قدرِ زائد اور مرد پر اس کی اجارہ داری نے، مرد اور عورت کے تعلقات کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ نجی جائیداد نے عورت کو برابر کی ساتھی کی حیثیت سے بدل کر زیر دست بیوی بنا ڈالا۔ طبقاتی استحصال اور جنسی خواہشات نے صاحبِ جائیداد لوگوں کی طاقت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ نجی جائیداد کے وجود میں آنے کے ساتھ خاندان کی تشکیل ہوئی جس میں مرد کا پورا پورا تسلط تھا۔ اسے خاندان کے تحفظ اور جائیداد کی حفاظت کے لیے وارث کی ضرورت تھی۔ یہی وجہ تھی کہ عورت اس کے لیے عزت کی علامت بن گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ شادی کے ادارے کو خاندان نے اپنے مفادات کے لئے خوب خوب استعمال کیا۔ زرعی ادوار میں دو متحارب قبائل لڑکیوں کی شادی کر کے، ان کے ذریعے تعلقات کو بحال رکھتے تھے۔ عورت چوں کہ دیگر اشیا کی طرح مرد کی ذاتی ملکیت تھی اس لیے اس کی رضا مندی کو مدِ نظر نہیں رکھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے تو شاہی خاندان کی شہزادیاں تک محفوظ نہیں ہیں۔ مثلاً بابر نے اپنی بہن کی شادی شیبانی خان سے اس لیے کی تھی کہ وہ قندھار کے محاصرے سے بابر کو فرار کا رستہ دے گا۔ آسٹریا کی شہزادی میری لوئی نے نپولین سے اس لیے شادی کی تھی تاکہ اس کے باپ کی سلطنت محفوظ رہ سکے۔

زرعی دور میں مرد کا تسلط معاشرے کے تمام اداروں میں دکھائی دیتا ہے چاہے وہ خاندان، عبادت گاہ، سکول، کالج، یونیورسٹی، دفاتر، فیکٹری یا کھیت کھلیان ہو۔ چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے نتیجے میں صارفی کلچر نے پدر سری نظام کو برقرار رکھا ہوا ہے، اس لیے اس وقت بھی عورتوں اور مردوں کے مابین صنفی امتیاز موجود ہے۔ جب تک معاشرے میں اقتصادی اور معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی نہیں آتی، اس وقت تک عورت کی صورتِ حال یوں ہی رہے گی چاہے ملک کی وزیرِ اعظم عورت ہی کیوں نہ بن جائے۔ مذہبی، ثقافتی اور سماجی طبقوں کا رویہ بدستور ایسے ہی رہے گا کیوں کہ وہ جس نظام کے زائیدہ ہیں اس کی بنیادوں میں جبر اور استحصال موجود ہے۔ سیمینار کانفرنسز، لیکچرز ہوتے رہیں گے لیکن رویے نہیں بدلیں گے۔ اس کی حالیہ مثال ہونہار سکالر شپ ہے جس میں طالبِ علم کے کوائف کی تصدیق کر نے کی اہل عورت نہیں ہے۔ مخلوط تعلیم کی یونیورسٹیوں میں تو اس کا احساس نہیں ہوتا لیکن وویمن یونیورسٹیوں میں بچیوں کو تصدیق کے لیے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ عورت ان کے فارم کی تصدیق نہیں کر سکتی تو پھر وزیرِ اعلیٰ مریم نواز کی پالیسیوں کو آپ کس نظر سے دیکھیں گے۔ سپریم کورٹ کی جج عائشہ ملک کے فیصلے کس کھاتے میں جائیں گے اور وہ خواتین جو اس وقت یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز ہیں ان کی پالیسیاں اور فیصلوں کا کیا معیار ہو گا کیوں کہ وہی فی میل پروفیسرز جو ہونہار سکالر شپ کے کوائف تصدیق نہیں کر سکتیں انھوں نے ہی کل انتطامی عہدے سنبھالنے ہیں۔ دنیا مابعد جدید دور سے سائبر دور میں داخل ہو رہی ہے اور ہمارا معاشرہ ابھی تک ہزار سال پہلے کی زرعی اقدار میں پھنسا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments