گٹیالیاں پتن اور کرشن چندر کا رومانس
کرشن چندر اردو افسانہ اور ناول نگاری میں ایک بہت بڑا نام ہے۔ اُن کے والد پونچھ کے راجہ کے ذاتی معالج تھے۔ کرشن چندر کا بچپن پونچھ میں گزرا۔ بچپن میں اپنے والد کے ساتھ اور بعد میں اکیلے متعدد بار اُنھوں نے پونچھ سے لاہور اور دہلی تک کا سفر کیا۔ یہ سفر پونچھ سے میرپور اور پھر گٹیالیاں پتن سے کشتی کے ذریعے دریا پار کر کے جہلم سے بذریعہ ریل گاڑی لاہور اور دہلی تک کیا جاتا تھا۔ اس سفر کا احوال انھوں نے اپنے سوانحی ناول ”میری یادوں کے چنار“ میں لکھا ہے۔ اُن کے متعدد افسانوں میں بھی ایسے سفر کا ذکر موجود ہے۔ گٹیالیاں پتن کے پسِ منظر میں لکھے گئے اپنے ایک افسانے ”جہلم میں ناؤ پر“ میں کرشن چندر لکھتے ہیں۔
”گٹیالیاں اور جہلم کے درمیان دریائے جہلم بہتا ہے۔ اس لیے جہلم شہر کو جانے کے لیے گٹیالیاں کی چونگی پر عموماً ہر وقت بھیڑ رہتی ہے۔ ریاست جموں کو جاتے ہوئے مسافروں کا تانتا، ریاست جموں سے جہلم آئے ہوئے لوگ، اسباب سے لدے ہوئے بیل یا گدھے، چونگی پر ٹھہری ہوئی بے شمار لاریاں اور دریا کے کنارے بندھے ہوئے لمبے لمبے مچھوے، ایک چھوٹی سی بندرگاہ کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ دریا کے کنارے پر اُگی ہوئی لمبی لمبی دریائی گھاس جس کو مقامی زبان میں دِب کہتے ہیں ایک لطیف خوشبو لیے ہوتی ہے۔ دریا کے کنارے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے خوشگوار جھونکے آتے ہیں۔ جہاں تک نظر کام کرتی تھی پانی ہی پانی نظر آتا تھا۔ جس پر چلتے ہوئے مچھوے اور چھوٹی کشتیاں ملاحوں کی پُرشور اگنیاں اور لمبی لمبی چانڈوں کے پانی کو چیرنے کی مدھم آوازیں، ایک پرکیف منظر پیش کر رہی تھی۔ چھوٹی کشتی کا کرایہ ساڑھے تین روپیہ بنتا تھا۔ بڑے مچھوے آٹھ دس روپیہ بھی مانگ لیتے تھے۔ ملاح چپو چلاتے ہوئے ماہیے گاتے تھے۔“
میری ڈاچی دے گل وچ ٹلیاں
میں تاں ماہی نوں مناون چلیاں
ڈاچی والیا موڑ مہار وے
ڈاچی والیا لے چل نال وے
ساڈھی ڈاچی دے گل وچ ڈھولنا
جھوٹے سجناں دے نال کی بولنا
یہ تو کرشن چندر کی گٹیالیاں پتن سے جڑی ایک رومانس کی کہانی تھی۔ آئیے آپ کو گٹیالیاں پتن کے بارے میں چند سنی سنائی اور کچھ لکھی پڑھی باتوں سے آگاہ کرتے ہیں۔
سفر وسیلہ ظفر ایک پرانی کہاوت ہے۔ زمانہ قدیم سے سفر کے لیے گھوڑے، خچر اور اونٹ استعمال ہوتے تھے۔ دریاؤں کو کشتیوں کے ذریعے پار کیا جاتا تھا۔ ہندوستان پر حملہ کرنے والے سبھی بیرون ملکی حملہ آور افغانستان کے راستے پنجاب سے ہوتے ہوئے دہلی پر حملہ آور ہوئے۔ اُنھوں نے یہ سفر گھوڑوں، بیل گاڑیوں اور رتھوں کے ذریعے طے کیا۔ دریائے سندھ، دریائے جہلم اور دریائے چناب کو کشتیوں سے پار کر کے سونے کی چڑیا کہلانے والے ہندوستان پر حملہ کر کے مال اسباب لوٹا۔ کچھ واپس چلے گئے اور کچھ نے یہاں کی عنان حکومت سنبھال لی۔ یونانی بادشاہ الیگزینڈر کا شمار اولین حملہ آوروں میں ہوتا ہے۔
ہندوستانی مورخ بدھا پرکاش اپنی کتاب ”پورس دی گریٹ“ میں لکھتے ہیں۔ ”الیگزینڈر دریائے جہلم پار کر کے پورس کے علاقہ میں اُترا، اُسے کھڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے شمال اور مشرق میں چھوٹی پہاڑیاں ہیں اور میدان پانچ میل چوڑا ہے جو جنگ کے لیے کافی جگہ ہے اگرچہ ضرورت سے زیادہ نہیں ہے۔ سروال، پکڑال اور سکھ چین پور کے دیہات قدیم جنگی میدان کے مقام کی نشان دہی کرتے ہیں۔ “ موجود کھڑی میں یہ گاؤں چیچیاں پتن کے بہت نزدیک ہیں۔ ریاست کشمیر میں شامل یہ گاؤں دریا جہلم کے کنارے پر واقع ہیں اور گٹیالیاں پتن سے نزدیک ترین ہیں۔
جہلم پنجاب کا ایک قدیم ترین شہر ہے۔ میرپور ریاست جموں و کشمیر کا ایک بڑا شہر اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹر ہے۔ ریاست کشمیر پر ڈوگرہ راج کے دور میں میرپور ضلعی صدر مقام تھا۔ جہلم میں ایک تجارتی منڈی تھی جو میرپور کے نزدیک ہونے کی وجہ سے ریاست کے بیوپاریوں، ساہوکاروں اور مہاجنوں کے لیے خریداری کا مرکز تھی۔ میرپور سے جہلم تک کا سفر گھوڑوں، خچروں پر اور پیدل طے کیا جاتا تھا۔ اس سفر کے درمیان دریائے جہلم میرپور کی طرف سے چیچیاں، گوبندپور، گنڈے سروانی کے مقام سے عبور کر کے گٹیالیاں پتن پر اترتے تھے۔ دریا کے دو پاٹوں کے درمیان فاصلہ تانگوں کے ذریعہ طے کیا جاتا تھا۔ دریا کے دو پاٹوں کے درمیان جزیرے کو مقامی زبان میں ”وچلہ بیلہ“ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
پتن گٹیالیاں پنجاب کے ضلع جہلم اور ریاست جموں و کشمیر کے ضلع میرپور میں دریائے جہلم پر صدیوں پرانا تاریخی گھاٹ تھا جو کشمیر سے متصل چھوٹی چھوٹی پہاڑی ریاستوں اور پنجاب کے درمیان آمد رفت اور نقل و حمل کا ذریعہ تھا۔ یہاں پر دریا خاموش اور پرسکون و رواں دواں تھا جو کشتی رانی کے لیے دوسرے مقامات کی نسبت زیادہ محفوظ اور موزوں تھا۔ کشمیر اور ہندوستان کے بیشتر قبائل اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی وسائل کی کمی کی وجہ سے اپنے ذرائع معاش کی تلاش میں آنے جانے کے لیے یہ راستہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ صدیوں سے جہلم و پنجاب سے میرپور اور گرد و نواح کے علاقہ جات میں اشیاء کی نقل و حمل اسی راستے سے ہوتی تھی۔ ہندوستان کی تقسیم سے قبل راجوری، پونچھ اور میرپور کے اضلاع کے لوگ کی آمدو رفت اسی راستہ سے ہوتی رہی۔
ہندوستان پر برطانوی راج میں 1904 ء میں چھپے ضلع جہلم کے گزٹ کے مطابق جہلم شہر پہنچنے کے لیے خشکی کے علاوہ دریا جہلم کو عبور کرنا پڑتا تھا۔ دریا عموماً کشتیوں کے ذریعے عبور کیا جاتا تھا۔ ضلع جہلم میں جلالپور اور جہلم شہر میں کشتیاں تیار کی جاتی تھی۔ بڑی کشتی کو مقامی زبان میں بیڑی کہتے تھے جس میں ایک ہزار من تک وزن لے جانے کی گنجائش ہوتی تھی۔ یہ بیڑیاں یونانی بادشاہ الیگزینڈر کے زیر استعمال کشتیوں کے ڈیزائن کے مطابق تیار کی جاتی تھیں۔ چھوٹی کشتیوں کو مچھوے کہا جاتا تھا۔ ان دنوں ریاست جموں و کشمیر ایک آزاد ریاست تھی جہاں پر ڈوگرا حکومت قائم تھی۔ جہلم سے ریاست کے نزدیکی شہر میرپور تک پہنچنے کے لیے ڈھنگروٹ، منگلا، گٹیالیاں اور پنڈی رتوال کے پتن سے بیڑی اور مچھوے کے ذریعے دریا پار کر کے گھوڑوں، تانگوں پر یا پیدل سفر کرنا پڑتا تھا۔
ہندوستان پر برطانوی راج کی عمل داری میں ضلع جہلم پنجاب کا واحد ضلع تھا جہاں سے بیرون ملک یعنی ریاست جموں وکشمیر سے تجارت ہوتی تھی۔ جہلم لکڑی کی بہت بڑی منڈی تھی۔ زیادہ تر لکڑی کشمیر کے جنگلوں سے کاٹ کر دریا کشن گنگا اور دریا جہلم کے ذریعے جہلم لائی جاتی تھی۔ جہلم میں کشمیر فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے لکڑی کے بڑے ڈپو کے علاوہ کشمیر کے ہی راجہ امر سنگھ کا ایک بڑا پرائیویٹ ڈپو تھا۔
ریاست کشمیر عمارتی لکڑی کے علاوہ دیسی گھی، غلہ اور جلانے والی لکڑی برآمد کرتی تھی جب کہ وہ جہلم کی منڈی سے اَن سلا کپڑا، کپاس، نمک اور شکر و چینی کے علاوہ روزمرہ استعمال کی دیگر اشیا درآمد کرتی تھی۔ تجارتی سامان کی نقل و حمل کے لیے ڈھنگروٹ، منگلا اور گٹیالیاں حکومت کی رجسٹرڈ بندرگاہیں (پتن) تھیں لیکن تجارتی سامان کے زیادہ حصہ کی ترسیل گٹیالیاں کے پتن کے ذریعے ہی ہوتی تھی جب کہ پنڈی رتوال کے پتن سے چھوٹے مچھوے استعمال ہوتے تھے۔
ریاست جموں و کشمیر کی حکومت کو اُن دنوں دربار کہا جاتا تھا۔ دربار نے ریاست سے برآمد اور بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی اشیاء پر بڑا بھاری ٹیکس عائد کر رکھا تھا جس کی تفصیل گزٹ میں دی گئی ہے۔
کپاس اور ان سلے کپڑے پر ٹیکس کی حد قیمت کے فی روپیہ پر ایک آنہ
نمک پر ٹیکس 1 / 2 روپیہ فی من
شکر و چینی پر ٹیکس کی حد قیمت کا فی روپیہ ایک آنہ
جب کہ برٹش راج کی عمل داری میں ان ٹیکسوں کا نفاذ نہیں تھا۔
ریاست کی حدود میں میرپور سے نہر اپر جہلم بننے سے پہلے میرپور اور چیچیاں کے درمیان کچی سڑک تھی جہاں سے گزر کر دریا جہلم کے کنارے پہنچتے۔ میرپور سے چیچیاں پتن تک سفر کے دوران ایک ساہوکار لکھا سنگھ کا ٹانگہ پہاڑی کا خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے پہاڑی سے نیچے گر گیا جس کے نتیجے میں لکھا سنگھ مر گیا تھا۔ یہ خطرناک موڑ ابھی تک قائم ہے اور اسے اب لکھا سنگھ موڑ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جہاں اب بھی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ گٹیالیاں پتن سے روانہ ہونے والی بیڑیاں اور مچھوے ریاست کی حدود میں گوبندپور اور گنڈے سروانی کے درمیان پتن پر لگتیں۔ اس جگہ پر دربار کی کسٹم چوکی قائم تھی۔ بیڑی یا مچھوے میں سوار ہر مسافر کی تلاشی لی جاتی اور اس کے پاس سامان پر مروجہ کسٹم ڈیوٹی لے کر انھیں جانے دیا جاتا۔ اس ریاستی کسٹم چوکی پر ٹیکسوں کی وصولی کا نظام بہت ظالمانہ اور توہین آمیز تھا۔ کھڑی میں چیچیاں کے مقام پر قائم یہ ریاستی کسٹم چوکی مردم بیزاری اور گھٹیا اخلاقی حربوں کے باعث ریاست بھر میں بدنام تھی۔ پنجاب و جہلم سے آنے والی مسلمان خواتین سے اس چوکی پر حیا سوز سلوک روا رکھا جاتا۔ محصول چونگی کا ہندو عملہ برقع پوش خواتین کی نامناسب طریقہ سے تلاشی لیتا۔ تجارت کا سامان بیڑی سے اتار کو کنارے پر رکھا جاتا۔ ساہوکار، مہاجن اور مقامی دکان دار سامان پر چوکی پر موجود دربار کے اہلکاروں کو کسٹم ڈیوٹی ادا کرتے۔ سامان گدھوں اور خچروں پر رکھ کر میرپور شہر تک پہنچایا جاتا۔ 1915 ء میں نہر اپر جہلم کی تعمیر کے بعد بھی سامان کی ترسیل کا یہ کام اسی طریقہ سے جاری رہا۔
نہر اپر جہلم پر چیچیاں اور جاتلاں کے مقام پر مہاراجہ کی ہدایت پر بڑے پلوں کی تعمیر بھی تجارت کی وجہ سے ہوئی تھی۔ کرشن چندر اکثر پونچھ سے سیری کھوئی رٹہ سے میرپور پہنچتے اور میرپور شہر سے لاری میں بیٹھ کر چیچیاں پتن پہنچتے جہاں سے وہ بیڑی کے ذریعے دریا جہلم پار کر کے ٹرین سے دہلی کا سفر کیا کرتے تھے۔ ریاست کشمیر کے سرحدی گاؤں سکھ چین پور میں بھی لکڑی کی بڑی منڈی تھی جہاں سے لکڑی بھمبر کے راستے جموں تک پہنچائی جاتی تھی۔
ایک بابا جی بتا رہے تھے کہ میرپور سے چیچیاں پتن تک چھوٹی لاریاں چلتی تھیں جس میں بارہ سے پندرہ سواریوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی تھی۔ نہر والی سڑک پر مہاراجہ کی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو چلنے کی اجازت نہیں تھی۔ گٹیالیاں پتن پر ملاح تاجروں اور دوسرے مسافروں کو بہت تنگ کرتے تھے۔ مسافروں سے زیادہ کرایہ کی وصولی کے علاوہ سامان کا کرایہ زیادہ لینے کی شکایات عام تھیں۔ ریاست کی حدود میں کسٹم چوکی پر مہاراجہ کے اہل کار بھی مسافروں کو بہت تنگ کرتے تھے۔
آزادی کے بعد بھی کافی عرصہ تک جہلم تک کشتیوں کے ذریعے یہ سفر جاری رہا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیت ہے کہ میرپور فتح ہونے کے بعد شہر کی حالت مخدوش ہونے کی وجہ سے میرپور کے پہلے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید خان نے اپنا دفتر علاقہ کھڑی میں گوبندپور موجودہ افضل پور کے مقام پر قائم کیا تھا۔ سات آٹھ ماہ تک افضل پور میں میرپور ضلع کا یہ انتظامی اس مقام پر کام کرتا رہا اور حالات ساز گار ہونے پر دفتر شہر میں منتقل کر دیا گیا۔ اس دفتر کی عمارت گورنمنٹ ایجوکیشن کالج کے نزدیک اب بھی موجود ہے لیکن مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی حالت دگرگوں ہے۔ 1931 ء میں ریاست کشمیر میں چلنے والی عدم ادائیگی مالیہ اور آزادی کی تحریک کی حمایت کے لیے تحریک مجلس احرار کے شیخ الہی بخش اپنے ساتھیوں سمیت گٹیالیاں پتن پر پہنچے تو پتن کے دونوں جانب سے کشتیاں ہٹا کر ضبط کر لی گئیں۔ یہ نڈر قافلہ پیرا غائب کے مقام سے دریا تیر کر عبور کر کے چیچیاں کے مقام پر پہنچا تو جھاڑیوں میں چھپے ہوئے ریاستی کورٹ کے سب انسپکٹر پنڈت وشوا متر نے شیخ الہی بخش پر سنگین سے وار کر کے اسے شہید کر دیا۔ ہماری بدقسمتی کہ اِن تاریخی گزرگاہوں پر انتہائی کم لکھا گیا اس لیے نئی نسل کو ان کے بارے میں علم نہیں ہے کسی نے ان پر تحقیق بھی نہیں کی۔ ریاست کا سردیوں کے لئے صدر مقام جموں تھا۔ حکومتی ریکارڈ بھی زیادہ تر وہیں پر تھا۔ فتح میرپور کے وقت بہت سا ریکارڈ جل گیا تھا۔ حکومت آزاد کشمیر کو اپنی تاریخ اور تاریخی مقامات مرتب کرنے کی کبھی فرصت نہیں ملی۔
- ہمارا فرسودہ خاندانی نظام بدلنے کی ضرورت - 14/04/2025
- گٹیالیاں پتن اور کرشن چندر کا رومانس - 10/03/2025
- ادب احترام اور وفا کا دوسرا نام: چودھری علی محمد - 23/02/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).