آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر Autism Spectrum Disorder
قریب قریب دو دہائی ہونے کو آئی جب میں نے پہلی مرتبہ ایک ایسا بچہ دیکھا جو آٹزم کے ساتھ تھا۔ وہ بہت خوبصورت اور صاف ستھرا بچہ تھا جس کی عمر لگ بھگ آٹھ برس تھی۔ مجھے پہلے پہل تو بہت عجیب لگا جب اس کی والدہ نے بتایا کہ اس کو کسی کا چھونا اور پیار کرنا ناگوار گزرتا تھا، لیکن پھر دھیرے دھیرے اندازہ ہو گیا کہ اس کے ساتھ کیسے کام کرنا ہے۔ وہ کرسیوں کے اوپر اور میز کے کناروں پر اس مہارت سے چلتا تھا کہ ایک بار بھی اس کے پاؤں نہیں ڈگمگاتے تھے۔ پڑھائی میں حیران کن طور پر کافی اچھا تھا لیکن کام صرف اپنی مرضی سے کرتا تھا۔ وہ باتیں کرتا تھا لیکن اپنے بارے میں بات واحد متکلم کے بجائے واحد حاضر کے صیغہ میں کرتا تھا۔ مثلاً وہ یہ کہنے کے بجائے کہ مجھے بسکٹ کھانا ہے کہتا تھا کہ علی (فرضی نام) بسکٹ کھائے گا۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ کلاس میں بیٹھے بیٹھے کوئی ایسی بات کر دیتا تھا جو شاید اس نے کسی اور جگہ سنی ہو مثلاً ”کھانا نہیں گراتے“ ، ”شور نہ کرو“ یا ”علی اچھا بچہ ہے“ ۔
وقت کے ساتھ ساتھ آٹزم جس تعداد میں چھوٹے بچوں میں سامنے آ رہا ہے اس سے تو ایسے لگتا ہے کہ اس نے ایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہے۔ امریکہ میں ہر 36 میں سے ایک بچہ آٹزم کے ساتھ ہے۔ سن دو ہزار میں یہ تعداد 150 میں سے ایک تھی لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں اس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی طرح اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
آٹزم ایک بچے کے سماجی تعلقات اور رابطے کی صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔ ایسے بچے بار بار ایک یہ حرکت، آواز یا بات دہراتے رہتے ہیں۔ ان کو کچھ چیزوں کے ساتھ شدید وابستگی ہوتی ہے۔ انہیں اپنی روٹین میں تبدیلی پسند نہیں آتی اور وہ ایک ہی طریقے سے اپنا کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف حسوں سے موصول پیغامات کو وہ عام انسانوں سے مختلف طریقے سے پراسس کرتے ہیں اسی لیے کچھ مخصوص آوازیں، روشنیاں، رنگ یا خوشبوئیں انہیں یا تو پرسکون کرتی ہیں یا وہ ان سے بے چینی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ان بچوں کی ایک اپنی ہی دنیا ہوتی ہے جس کا حصہ بننے کے لیے سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ ہم ان کو ان کی تمام تر شخصیت کے ساتھ مکمل طور پر قبول کریں۔ آٹسٹک بچوں کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تصاویر کی مدد سے زیادہ آسانی سے سمجھ اور سیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تعلیم و تربیت میں تصاویر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کو بول چال کی تربیت دینے کے لیے، دن کی روٹین سکھانے اور مختلف کام سکھانے کے لیے بھی تصاویری شیڈول کے استعمال سے بہت حوصلہ افزاء نتائج سامنے آتے ہیں۔
یہاں میں ایک بات بتاتی جاؤں، ہر بچہ جو آٹزم کے ساتھ ہے وہ دوسرے ایسے بچے سے بہت زیادہ مختلف ہو سکتا ہے۔ اسی لیے ضروری نہیں کہ ایک طریقہ جو ایک بچے کے لیے مفید ثابت ہوا ہو اس کے اتنے ہی اچھے نتائج دوسرے پر بھی آئیں۔ اسی لیے بنیادی اصول سامنے رکھتے ہوئے، ہر بچے کے لیے تعلیم و تربیت کا پلان اس کی انفرادی ضروریات کے مطابق تشکیل دیا جاتا ہے۔ ان بچوں کے لیے سپیج تھیراپی اور سینسوری تھیراپی بھی بہت اہم ہوتی ہیں کیونکہ اس طرح ان کی بول چال کی صلاحیتیں اور حواس سے موصول معلومات کو پراسس کرنے کی قابلیت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
بعض اوقات کمپیوٹر اور موبائل فون کی مدد سے آلٹرنیٹ کمیونیکیشن کے مختلف ایپ استعمال کرتے ہوئے بھی ان کی کمیونیکیشن کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ آٹسٹک بچے بسا اوقات کمپیوٹر پر زیادہ اچھا کام کر پاتے ہیں کیونکہ اس میں سکرین ایک متعین کردہ ڈیزائن میں ہوتی ہے، اس میں ایک خاص ترتیب ہوتی ہے اور یہ یکسانیت ان بچوں کو با سہولت کام کرنے میں مدد کرتی ہے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آٹزم ایک پورا سپیکٹرم ہے۔ اس لیے ایک آٹسٹک بچہ شدید علامات کے ساتھ ہو سکتا ہے جس میں اس کی ذہنی صلاحیتیں بھی متاثر ہوں۔ جبکہ دوسرا بہت ذہین ہو سکتا ہے جس میں آٹزم کی بہت مائلڈ علامات نظر آ رہی ہوں۔
یہاں میں آپ کو ایک اور بچی کے بارے میں بتاتی ہوں۔ میں نے جب اس کو دیکھا تھا تو وہ کوئی پانچ سال کی تھی۔ وہ صرف اشتہارات کے جنگلز گاتی تھی وہ بھی جب اس کو وہ اشتہار والی چیز چاہیے ہوتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ کسی طریقے سے کوئی گفتگو نہیں کرتی تھے۔ ہاں البتہ وہ ہر وقت وہ کچھ نہ کچھ بولتی رہتی تھی جس میں کوئی بھی قابل سمجھ لفظ نہیں ہوتا تھا۔ ہمیں ایک پورا ہفتہ لگا تھا اس کو سکول کے گیٹ سے کلاس تک لانے میں کیونکہ وہ مسلسل روتی رہتی تھی۔ لیکن جب اس کے ساتھ باقاعدہ کام کا آغاز ہوا تو معلوم ہوا کہ وہ تو بہت ذہین تھی۔ آنے والے دو سالوں میں نہ صرف اس نے بولنا سیکھ لیا بلکہ پڑھائی میں بھی اتنی اچھی ہو گئی کہ ہم نے اس کو ایک انکلوسو سکول میں داخل کروا دیا۔ والدین، ماہرین اور اساتذہ کے تعاون اور اپنی محنت کی بدولت ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ کالج میں پہنچ گئی۔ اس کو ابھی بھی نئے لوگوں اور نئے جگہوں سے پریشانی ہوتی ہے لیکن اس نے اپنے تمام تر خصوصیات سمیت خود کو قبول کر لیا ہے اور یہ ہی بات اس کو کامیاب بناتی ہے۔
ایک مختصر سی تحریر میں آٹزم کے تمام پہلووں کا احاطہ کرنا ممکن نہیں تھا لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ تمام بنیادی معلومات کو اس میں شامل کر سکوں۔ آگاہی کے لیے اس طرح کے تمام چھوٹے چھوٹے اقدامات بھی منزل تک پہنچنے کے لیے راہ استوار کرتے ہیں۔
آخر میں میں یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ صرف علامات دیکھ کر آپ کسی بچے کو لیبل نہیں کر سکتے۔ تشخیص صرف ماہرین ہی کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ کو اس طرح کی علامات اگر کسی بچے میں نظر آئیں تو کسی ماہر کی مدد لینے میں دیر نہ کریں۔ جتنی جلد بچے کو ماہرین کی مدد مل جائے گی، اس کی کامیاب زندگی کے مواقع اتنے ہی روشن ہوں گے۔
- آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر Autism Spectrum Disorder - 11/03/2025
- ہمدردی یا ہم گدازی - 13/02/2025
- آن لائن سکولنگ اور خصوصی بچے - 19/11/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).