مولانا طارق جمیل، انجینئر مرزا فیکٹر اور ارشاد بھٹی


ارشاد بھٹی ان دنوں خاصے متحرک ہیں، پہلے انجینئر محمد علی مرزا سے دوبدو باتیں کیں اور پھر مولانا طارق جمیل کے آستانے پر جا پہنچے، اپنے تئیں خاصے چبھتے ہوئے سوال پوچھے، اب مولانا جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں تو صبر و تحمل کی باقاعدہ مشق کروائی جاتی ہے، کوئی کچھ بھی کہتا رہے آگے سے کسی بھی ردعمل کا اظہار بالکل بھی نہیں کرنا۔

تبلیغی بزرگ بیچارے روایات کے قیدی بن کے رہ گئے اور میڈیا سے کوسوں دور رہتے ہیں اس لیے وہ جو کچھ بھی ہیں اپنے گرد قائم کردہ روایتی چار دیواری کی حد تک ہیں، رہے مولانا طارق جمیل وہ تو پورے کے پورے ہی میڈیائی ہو گئے، اسی لیے تو انہیں میڈیا کے سامنے اپنا موقف دینا پڑتا ہے اور اسی میڈیا نے نہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ہے۔

مکمل پوڈ کاسٹ یوٹیوب پر پڑی ہے سننے والے خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مولانا کس حد تک اپنے سامعین کو مطمئن کر پائے، لیکن ایک بات طے ہے کہ فضائل اعمال نامی کتاب جو تبلیغی نصاب اور تعلیم کا لازمی حصہ ہے کا پردہ چاک کرنے کا کریڈٹ بہرحال انجینیئر محمد علی مرزا کو جاتا ہے، جنہوں نے اس کتاب کے متعلق عوام کو بتایا کہ اس کے اندر کس قدر سقم پائے جاتے ہیں۔

بالآخر مولانا طارق جمیل کو بھی اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑا کہ اس کتاب کے اندر اعمال کے نام پر خاصی مبالغہ آرائی موجود ہے جو مضحکہ خیزی اور خفت کا سبب بنتی ہے۔

یاد رہے کہ فضائلِ اعمال نامی کتاب ایک طرح سے تبلیغی نصاب کا اہم حصہ ہے، نجانے کب سے تبلیغی بھائی اس کی تعلیم و ترغیب دیتے آرہے ہیں، لیکن انجینئر مرزا نے اس کتاب کو ببانگ دہل چیلنج کیا اور مولانا طارق جمیل ایسا تبلیغی ستون بھی یہ ماننے پر مجبور ہو گیا کہ اس کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو قابل اعتراض ہے، ایک طرح سے سارا تبلیغی نصاب ہی چیلنج ہو گیا، اسے کہتے ہیں سمے کی کروٹ اور شعوری بالیدگی کا تسلسل جو سائنس و ٹیکنالوجی کے سائے میں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔

ارشاد بھٹی کے تیکھے سوال تھے لیکن مولانا کی سنجیدگی و متانت بھی کمال تھی، بذلہ سنجی، خود پذیرائی اور تقویٰ میں ملبوس گفتگو کہیں بھی کمزوری یا جھول کا تاثر نہیں دے رہی تھی لیکن کیمرے کی ڈیجیٹل آنکھ کا کیا کریں جو مولانا کے جوابات پر نظریں گاڑے ہوئی تھی، وہ ان کے لہجے کی ٹھہراؤ کی سی کیفیت کو بغیر کسی امدادی فلٹر کے عیاں کر رہی تھی، جواب دینے میں توقف یا وقفہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ مولانا کو جواب دینے میں تھوڑی دقت محسوس ہو رہی ہے جسے وہ خود نمائی یا خاندانی جاہ و جلال کے قصے سنا کر کور کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

مولانا صاحبان تو تاویلات پیش کرنے کے بادشاہ ہوتے ہیں، ان کی عربی زبان میں ملبوس منطقی عرق ریزیوں کے سامنے بھلا کون ٹھہر سکتا ہے؟

وقت کا جبر کہیں یا معجزہ اب لوگ سوال اٹھانے لگے ہیں، کیمرے کی آنکھ کے سامنے بیٹھا بندہ جتنا مرضی فنکار ہو اگر قول و فعل میں تضاد ہو تو زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ گفتگو سننے کے بعد نقطے لوگ خود ملا لیتے ہیں، چہرے پر پڑی شکنیں، آواز کا اتار چڑھاؤ اور زبان کی لرزش و ملائمت بہت کچھ آشکار کر دیتی ہے۔

کتاب سے ناآشنا اس قوم کو کہاں پتا چلنا تھا کہ کتابوں میں عقیدت کی آڑ میں کیا کچھ لکھا ہوا ہے، سوشل میڈیا کی بدولت آگہی کا سامان ہوا، لوگوں نے اپنے اپنے مسلک سے باہر نکل کر جھانکنا شروع کیا اور اسی تاک جھانک کے نتیجے میں ایسے افراد کے ہتھے چڑھ گئے جو مذہب کو عصرحاضر سے جوڑنے کے لیے اس میں عقل کی شمولیت کر رہے تھے، ان میں جاوید احمد غامدی، احمد جاوید، محمد دین جوہر اور انجینئر محمد علی مرزا شامل ہیں۔

اب مذہب میں عقلی رویے کیا رنگ دکھاتے ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا، عقل و شعور بہتے پانی کی مانند ہوتا ہے اس کی تو بقا ہی چلتے رہنے میں ہے جبکہ عقیدہ جامد و ساکت اور بندھا بندھایا سا پیکج ہوتا ہے جس میں تبدیلی و ترمیم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ان سب صاحبان میں سے سب سے چیلنجنگ شخصیت انجینئر کی ہے، جنہوں نے مختلف مسالک کے علماء کرام کو ایک طرح سے زچ کیا ہوا ہے، انہی کی کتابوں میں سے حوالے نکال کر انہی سے جواب طلبی کر رہے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سے براہ راست بات کرنے کی بجائے مختلف مسالک کے علماء کرام بشمول مولانا طارق جمیل کے صرف ایک ہی بات کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ انجینئر جی بدتمیز بہت ہیں اور بات کرتے ہوئے یا دلیل پیش کرتے وقت ادب و آداب کو زیادہ ملحوظ خاطر نہیں رکھتے۔

اب یہ بات کس حد تک درست ہے علماء جانیں یا انجینئر جی کے پیروکار، ہم تو ٹھہرے دنیا دار سے گناہ گار بھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments