عہد حاضر کا جدید شاعر افتخار عارف
آسمانوں پہ نظر کر، انجم و مہتاب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
اس شعر کے خالق نے ہندوستان سے ہجرت کر کے ارض وطن پہ تن تنہا قدم رکھا اور بغیر کسی بیساکھی اور سہارے کے اک نئی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنایا۔ جی میری مراد میر و غالب کی وراثت کے امین جناب افتخار عارف ہیں۔ افتخار عارف کو جو آج مقام حاصل ہے وہ انھیں چند برسوں میں حاصل نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے 75 برس کی ریاضت کارفرما ہے۔ افتخار عارف کی شاعری نے معاشرے پر دور رس اور مثبت اثرات ثبت کیے ہیں۔ آج میں وہ گستاخی کرنے جا رہا ہوں جس کے لیے میں افتخار عارف صاحب سے معافی کا طلبگار رہوں گا کیونکہ آج میں سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور عجیب تذبذب کا شکار ہوں اور عین اسی وقت خوف زدہ بھی ہوں کہاں افتخار عارف کی شخصیت اور کہاں مجھ جیسا کم علم اور شعر و سخن سے نابلد انسان۔
جناب افتخار عارف ملک کے ادبی حلقوں میں بالعموم اور وفاقی دارالحکومت کے ادبی حلقوں میں بالخصوص اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتے ہیں جو بہت ہی کم لوگوں کو میسر آتی ہے۔ جناب افتخار عارف سے میری پہلی ملاقات آج سے تقریباً 7، 8 برس قبل اسلام آباد کے ایک کتاب میلے میں ہوئی اور پھر اس کے بعد اکثر و بیشتر مختلف اوقات میں ملاقات رہتی ہے اور اس افراتفری اور زمانہ ہلچل میں عہد حاضر کے اس عظیم شاعر کی زبان سے نکلنے والے موتی سمیٹنے کا موقع میسر آتا ہے اور لا ابالی پن کے اس دور میں کچھ پل کے لیے ٹھہراؤ کا سامان پیدا ہوتا ہے۔
اے خاصا خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری عجب وقت آن پڑا ہے
اس عجب وقت میں افتخار عارف کی شاعری مجھ بندہ ناچیز کے لیے روح کی تسکین کا باعث بنتی ہے۔ ان کے انداز بیان میں لکھنو کے اہل زباں اور ادیبوں کی جھلک نظر آتی ہے جو کسی بھی اہل سخن کے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ وطن کی مٹی سے محبت ہو، عشق مجازی ہو یا عشق حقیقی، یا ظالم کے ظلم کے خلاف مجبور کے حق کی بات ہو افتخار عارف کی شاعری ہمیں ہمہ تن ان تمام زندگی کے میدانوں میں تن تنہا ان کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آئے گی۔
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض بھی اتارے ہیں کہ جو واجب بھی نہ تھے
افتخار عارف 21 مارچ 1943 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ یونیورسٹی آف لکھنؤ اور نیویارک یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہجرت کر کے کراچی آ گئے جہاں افتخار صاحب نے ریڈیو پاکستان کراچی سے بحیثیت نیوز کاسٹر اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا۔ افتخار عارف شہرت کی معراج تک اس وقت پہنچے جب وہ عبید اللہ بیگ کے ہمراہ پاکستان ٹیلی ویژن کراچی سے کسوٹی پروگرام کیا کرتے تھے جو پی ٹی وی کی انتہائی مقبول ٹی وی سیریز تھی۔ 1977 میں افتخار صاحب ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے استعفیٰ دے کر بی سی سی آئی بینک لندن سے وابستہ ہو گئے۔ افتخار عارف صاحب نے پاکستان اکادمی ادبیات اور قومی مقتدرہ زبان جیسے اداروں کی سربراہی بھی فرمائی۔ یہ تو تھا افتخار صاحب کا مختصر اور جامع تعارف۔ جہاں تک ان کی شاعری کا تعلق ہے ان کی شاعری میں رومانویت اور جدیدیت کی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جہاں سوشل میڈیا کی ایسی نسل جو کم علم اور افراتفری کے دور میں رہ رہی ہے ایسے دور میں افتخار عارف کی شاعری کا زندہ رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ افتخار صاحب اس عہد کے ایک جدید شاعر ہیں۔ افتخار عارف کی شاعری سماج کے مسائل پہ بہترین عکاسی کرتی نظر آتی ہے اور اگر یہ کہا جائے تو اس میں کسی قسم کا شائبہ نہیں ہو گا کہ افتخار صاحب کی شاعری ہم کو ایک عام انسان کا درد اور تکلیف کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔
اے خدا مجھے اتنا معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اسے گھر کر دے
افتخار عارف آج کے ہر نوجوان کی پسندیدہ آواز ہیں۔ بارہواں کھلاڑی ہو، شہر گل کے خس و خاشاک ہو، یا تماشا کب ختم ہو گا ہو، ہر نوجوان کی زبان زد عام نظر آنے والی شاعری ہے۔ کسی بھی نثر نگار یا شاعر کے بہترین ہونے کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اس کی تحریر یا شعر میں قاری کو محسوس ہو کہ یہ اسی کی کہانی ہے۔
آج 21 مارچ ہے اور ایک عجیب حسن اتفاق ہے کہ شاعری کا عالمی دن بھی ہے اور جناب افتخار عارف کا جنم دن بھی۔ افتخار صاحب کی 82 ویں سالگرہ پر ان کے لیے چند دعائیہ کلمات کہ خدا کرے آپ کو اسی طرح مزید زندگی کی بہاریں دیکھنے کا موقع ملتا رہے اور آپ کے آنگن میں امن، سلامتی، خوشحالی اور کامیابی کا دور دورہ رہے۔
میری زمیں میرا آخری حوالہ ہے
سو میں رہوں نہ رہوں اس کو بار آور کر دے
- ابھرتا ہوا ستارہ - 21/05/2025
- آج کا دن مزدوروں کے نام - 01/05/2025
- اخلاقیات اور روایات کی سیاست کا امین تاج حیدر - 14/04/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).