شیراز دستی کے ناول ”ساسا“ میں مشرقی و مغربی تہذیب کی کشمکش
ناول ’ساسا‘ کے ہیرو سلیم کو محبت کی تلاش ہے۔ وہ اپنی تلاش کا آغاز اپنے گاؤں سے کرتا ہے اور گاؤں میں اسے ختم کرتا ہے۔ وہ انسانی حقوق، شہری آزادی اور عمومی انسانی صورتحال سے متعلق دو دنیاؤں کے تہذیبی فرق اور عالمی دنیا کے تضادات سے آگاہ کرتا ہے۔ اس ناول کے ذریعے قاری مشرقی اور مغربی تہذیب کی خوبیوں اور خامیوں سے آگاہ ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے کہیں بھی اپنی ثقافت کے قصیدے پڑھے ہیں نہ اسے مغربی دنیا کے مقابلے میں کم تر کہاں ہے، صرف فرق واضح کیا ہے اور کرداروں کو ایک ایسی صورت حال میں مبتلا دکھایا ہے جس میں وہ اپنی ثقافت کی بازیافت کو اپنی نجات کے مماثل تصور کرتے ہیں۔
مغربی تہذیب سے مراد وہ تہذیب ہے جو گزشتہ چا ر صدیوں کے دوران یورپ میں نمودار ہوئی۔ یونانی علوم کی لائی ہوئی آزاد خیالی اور عقلی تفکر سے سائنسی ایجادات کی گود میں آنکھ کھولی۔ سائنسی ایجادات اور مشینوں کی ترقی نے اس تہذیب کو اتنی طاقت بخش دی تھی کہ محکوم ممالک کا اس نے حتیٰ المقدور گلا گھونٹنے کی کوشش کی۔ مسلمان ممالک خاص طور پر اس کا ہدف بنے۔
مشرقی تہذیب دراصل متعدد مذاہب اور فلسفوں کا مجموعہ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء میں نمایاں مذہب اسلام ہے جس کا اثر ثقافتی، معاشرتی اور سیاسی شعبوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ عام طور پر مشرقی تہذیب سے مراد اسلامی نظریات و تصورات ہی لیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد شیراز کا تعلق تحصیل تونسہ کے دور دراز علاقے بستی حمل کاٹھ گڑھ سے ہے۔ آپ انگریزی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی اور پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں۔ آپ اس وقت بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ انگریزی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر تدریسی اور انتظامی امور سر انجام دے رہے ہیں۔ آپ امریکہ کی یونیورسٹی آف کولوراڈو، بولڈر سے بھی بطور لیکچرار وابستہ رہے ہیں۔ نیز قائد اعظم یونیورسٹی، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، ائر یونیورسٹی اور نمل میں بھی تدریسی خدمات سر انجام دے چکے ہیں۔ آپ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے دو تحقیقی مجلات ”معیار اور جرنل آف کنٹمپوریری پوئیٹکس“ کے معاون مدیر ہیں۔ آپ کی تین کتابیں ”Hour of Decline ( 2014 )“ ، مغل سرائے ( 2015 ) اور نسلوں نے سزا پائی ( 2016 ) کے عنوانات سے شائع ہو چکی ہیں۔ ناول کا عنوان ”ساسا“ انفرادیت کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے۔ ناول کی کہانی تونسہ کے علاقے کاٹھ گڑھ سے شروع ہوتی ہے اور پھر امریکہ سے ہوتی ہوئی کاٹھ گڑھ ہی پر آ کر ختم ہوجاتی ہے۔ بادی النظر میں ناول کا موضوع تلاش محبت کے پردے میں محبت، محب اور محبوب کی مثلث معلوم ہوتا ہے۔ کاٹھ گڑھ، خیبر پختونخوا، کوہِ سلیمان، دریائے سندھ اور سانگھڑ کے سنگم پر واقع ہے۔ اس ناول میں مذکورہ جغرافیائی حدود کو سامنے رکھتے ہوئے علاقائی ثقافت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ مٹی سے محبت کا جذبہ خوب نکھر کر سامنے آیا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار سلیم مٹی کی خوشبو امریکہ میں بھی شدت سے محسوس کرتا ہے۔ ایک خوبصورت ناول جس میں تحصیل تونسہ کی علاقائی ثقافت پہلی بار کتابی شکل میں سامنے آئی ہے۔
ناول ”ساسا“ میں دو تہذیبیں پہلو بہ پہلو اور روبرو رکھی گئی ہیں۔ ناول نگاری میں یہ کوئی نئی بات نہیں، نہ ہی کوئی نیا رجحان ہے۔ اس طرح کے کئی اور ناول بھی لکھے گئے ہیں جن میں تہذیبوں کا تصادم و تقابل دکھایا گیا ہے۔ لیکن محمد شیراز دستی نے ناول میں تخلیقیت کی ایک شان پیدا کر دی ہے، جس کی وجہ سے موضوع روکھا اور واقعات بے اثر نہیں رہے۔ خالدہ حسین کے بقول :
”اسے واقعہ نگاری میں ایک واضح مگر اپنے اندر سچائی کی ایک ایسی کشش قرار دیا جا سکتا ہے جو حقیقی معاشرے کا صحیح رنگ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تخلیقی سحر رکھتی ہے۔ مشرق اور مغرب کی تہذیب کا تقابلی مطالعہ بہت سے لکھنے والوں کا موضوع رہا ہے مگر ساسا، ہمیں دونوں تہذیبوں کے روز مرہ زمینی واقعات میں نئی معنویت پیدا کرتا نظر آتا ہے“ ۔
سامراجیت کی بالا دستی نے ہمیشہ ثقافتی بالا دستی کے لیے راہیں ہموار کیں خاص طور پر نو آبادیاتی عہد تو ایسی مثالوں سے بھرا ہوا ہے۔ ثقافتی یلغار کے ذریعے ایک بنے بنائے نظام خیال کو تہس نہس کرنے کی کوشش کی گئی۔ یوں ان اثرات سے ہم آج تک آزاد نہیں ہو پائے۔ نو آبادیاتی عہد میں متعدد کلامیوں اور بیانیوں کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے رائج کیا گیا۔
حقیقی تخلیق کار سامراجی ثقافتی بالا دستی کے مقابل اپنی ثقافتی شناخت قائم کرتا ہے۔ محمد شیراز دستی نے ناول میں تہذیبی شناخت اور ثقافتی پہچان کو اہمیت دی ہے۔ پنجابی لفظیات سے مزین اسلوب کے ساتھ ساتھ اپنے وسیب کی فطری جمالیات کے رنگارنگ نقوش ناول کی فضا میں قاری کے ساتھ محو کلام ہیں۔ کرداروں کی نفسیات ایسی تخلیق کی گئی ہے کہ وہ ثقافت کی بازیافت میں فطری طور پر اور غیر محسوس انداز میں سرگرم ہیں۔
ثقافت کی بازیافت کے لیے جو طریقہ شیراز دستی نے برتا ہے، اس بابت ڈاکٹر ناصر عباس نیر لکھتے ہیں : اہم بات یہ ہے کہ مصنف نے کہیں بھی اپنی ثقافت کے قصیدے پڑھتے ہیں نہ اسے مغربی دنیا کے مقابلے میں کم تر کہا ہے صرف فرق واضح کیا ہے اور کردار ایسے تخلیق کیے ہیں جو اپنی ثقافت کی بازیافت میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں۔
مشرقی تہذیب:
’ساسا‘ ناول مغربی تہذیب کی حد سے بڑھی ہوئی خود پسندی اور خود ستائشی کے رویے کا ایک غیر متعصب بیانیہ ہے۔ ناول ”ساسا“ (جو کہانی میں پرندے کا نام ہے ) حقیقت میں تلاشِ محبت کی کہانی ہے۔ جو مغرب کی سیاسی، معاشی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کے ساتھ ساتھ مشرق و مغرب کی تہذیبی و ثقافتی آویزش کو بھی بیان کرتا ہے۔
مصنف کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ ناول میں مشرقی و مغربی تہذیبی اقدار کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ وہ مشرقی اقدار و روایات، خاندانی نظام اور روحانی وابستگی کا مقابلہ مغربی تہذیب و ثقافت سے کرتا ہے۔
سب سے پہلے ناول کا ہیرو سلیم اپنے استاد کے کہنے پر محبت کی تلاش میں نکلتا ہے اور امریکہ پہنچ جاتا ہے۔ پہلے وہ اپنے گاؤں کے لوگوں سے پوچھتا ہے کہ محبت کہاں ملے گئی۔ ایک عورت جو اپنے گھر سے باہر جھانک رہی تھی، سلیم کا یہ سوال کہ ”چچی آپ نے محبت تو نہیں دیکھی“ سن کر ہڑبڑا جاتی ہے اور پھر دونوں ہاتھوں سے سلیم پر لعنت دے کر وہاں سے پلٹ جاتی ہے۔ کیونکہ جس ماحول میں مصنف رہ رہا ہے وہاں محبت کی بات کرنا تو دور کی بات سوچنا بھی گناہ ہے۔ سلیم نے جب اپنے دادا سے پوچھا ”دادا مجھے محبت کہاں سے ملے گی“ تو دادا اپنا کھسہ اس کو دکھاتے ہیں۔ اس کے برعکس مغرب میں احساس، خلوص اور محبت کا جذبہ نہیں پایا جاتا بلکہ لوگ اپنے مفاد کے لیے کام کرتے ہیں۔ مغرب کی لڑکیوں میں ایک خاص قسم کی آزادی، خود مختاری اور بے باکی پائی جاتی ہے۔ وہ اپنی شادی اور محبت کے معاملات میں کسی سے اجازت لینے کی محتاج نہیں ہوتیں۔ محبت وہاں پر وقتی احساس اور انفرادی پسند پر مبنی ہوتی ہے۔
مغربی تہذیب ”دنیا کیا کہے گی“ کے عذاب سے آزاد ہے۔ کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ ہر فرد دوسرے فرد کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔
ہاسٹل کا ماحول
مصنف امریکہ کے جس ہاسٹل میں رہتا ہے وہاں لڑکے اور لڑکیاں اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی ماحول ایسا ہے کہ وہاں یہ بات معیوب بھی نہیں سمجھی جاتی۔ مصنف اس ماحول کی منظر کشی کرتے ہوئے مشرقی اور مغربی کلچر کے فرق کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ۔ جینی میرے اس قدر قریب بیٹھی تھی کہ میرے گاؤں میں ماسٹر جی اگر دیکھ لیتے تو فوراً بشکو نائی کو بلاتے اور مجھے گنجا کروا دیتے لیکن ایسا ہی کچھ بشکو نائی دیکھ لیتا تو یقیناً پاگل ہو جاتا۔
ایک اور مثال
جینی مارکیٹ سے طوطا نما پرندہ لائی اور اس کا نام اس نے ساسا رکھا۔ ایک دن اس پرندے یعنی ساسا کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جس پر جینی نے رونا دھونا شروع کیا۔ اس کے لیے ایمبولینس بلوائی گئی اور مصنف یعنی سلیم کو کہا گیا کہ وہ یونیورسٹی نہ جائے بلکہ اس کے ساتھ ہسپتال جائے۔ اس موقع پر مصنف مشرقی و مغربی تہذیب کے فرق کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ
مجھے تو ہنسی آ رہی تھی کہ جینی نے پتہ نہیں خواہ مخواہ بات کو بڑھا دیا تھا۔ ساسا کی وجہ سے ہم سے بھی امید رکھ رہی تھی کہ ہم بھی دھاڑیں ما ر مار کر روئیں۔ اگر مشرق میں یہ ہوتا تو ساسا کو کب سے حلال کیا جا چکا ہوتا۔
پھر مصنف اسی صورت حال کا تقابل مشرق کی غربت اور قحط سالی سے اس طرح کرتے ہیں :
چند ہی روز پہلے میں نے ایک خبر پڑھی، تھر میں قحط سالی سے قریب دو سو بچے مر گئے، کچھ ماؤں کے رحموں میں جبکہ بہت سارے گودوں اور پنگھوڑوں میں اور میں تھا کہ ایک پرندے کی Overeating یا Over Feeding کا علاج کروانے ایک بہت ہی صاف ستھرے اور جدید قسم کے ہسپتال میں آ کر مصنوعی سنجیدگی کا ڈھونگ رچانے بیٹھا تھا۔
جب ساسا مر جاتا ہے تو جینی کہتی ہے :
ساسا کو دفنانے جانا ہے، ہم آج کیسے یونیورسٹی جا سکتے ہیں۔ ہمیں ساسا کی قبر کھودنی ہے۔ اس کی میموریل سروس کا اہتمام کرنا ہے۔ سوگ منانا ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ اس وقت مجھے میرے ملک کے بچے یاد آئے۔ وہاں سے آنے والی خبریں یاد آئیں۔ وہ ننھی ننھی قبریں یاد آئیں۔ جن میں لاشوں کی جگہ ماؤں کے خواب مدفون تھے۔ میں دیر تک روتا رہا اور روتے روتے ساسا کی قبر کے پاس ہی نڈھال ہو کر گر پڑا۔
حلال و حرام کا تصور
مصنف نے حلال اور حرام کے تصور کو مشرقی و مغربی تہذیب کے حوالے سے یوں بیان کیا ہے کہ
جب ایک دن میں نے ڈائننگ ہال میں ڈنر کے لیے Fish یعنی مچھلی لانے کا کہا تو ”اسلام کے تصور حلال و حرام کو حقیر سمجھتے ہوئے ایک لڑکے نے کہا کہ:
I thought Muslims don’t eat Fish.
اسی طرح جب سلیم نے ان کو شربت تخم بلندہ پینے کو دیا تو تمام ہاسٹل کے اسٹوڈنٹس نے پینے سے انکار کر دیا۔ اور پاکستان کے تخم بلندو کو ایک ایٹم بم سمجھ کر اپنے معدوں کو اسWeapon of mass destruction سے ہر لحاظ سے بچانا چاہتے تھے۔ اس کے اوپر لکھا تھا۔
Saleem makes syrup Tukham .e.Bilandu:folk drink From Pakistan
اس پر ناول نگار کہتا ہے کہ:
” آج تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ میرے آگے دانت نکالے کھڑا تھا۔
اس کے برعکس سلیم کو وہ مرغی کھانے کو دی جاتی ہے جو ذبح کے بغیر صرف سر پر ہتھوڑا ماڑ کر چھیل لی جاتی ہے۔
سلیم نے چکن کا آدھا پیس منہ میں ڈالا تو دماغ چکرانے لگا۔ آنکھیں سرخ ہو گئیں اور وہ پسینے سے شرابور ہو گیا۔ کچھ دیر بعد سلیم سنبھلا، اس کے دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو اس نے سب سے پہلے یہ سوال کیا،
کیا میں ان جیسا نہیں ہوں، کیا وہ میرے جیسے نہیں ہیں۔
پھر سلیم اس موقع پر یہ کوٹیشن کہتا ہے :
The same boiling water that softness the potato,hardens the egg.Its not about the circumstances, but rather what you are made of.
ٹیکنالوجی:
شیراز دستی نے پاکستان اور امریکہ کے لوگوں کے ذہنی معیار اور سوچ کے اختلاف کو اس طرح بیان کیا ہے، کہ مشرق والے بغیر سوچے سمجھے کوئی معمولی سی بات بھی ہو تو اس کو پھیلا دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں ایک دوست نے ایک بکرے کی تصویر شیئر کی، اس کے اوپر ”اللہ“ لکھا ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہوا تھا اگر اس تصویر کو شیئر نہ کیا تو اس پر اللہ کی لعنت ہو گی۔ اس کے برعکس مغرب والے اس خبر کو اچھالتے ہیں جس کا کوئی مقصد اور معیار ہو۔ مثلاً
”کولوراڈو یونیورسٹی کے خلائی ٹیکنالوجی کے پیج پر یہ خبر تھی کہ ڈیپارٹمنٹ نے مریخ پر مصنوعی سیارہ بھیجنے اور وہاں کی مٹی کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک ملٹی بلین ڈالر کا میگا پراجیکٹ حاصل کر لیا۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے چھوٹے بڑے ایسے واقعات ہیں جو مصنف نے ناول ساسا میں بیان کیے ہیں۔ جس سے دونوں تہذیبوں کے روز مرہ زمینی واقعات میں نئی معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس ناول میں وہ چاشنی ہے جو سچائی کو جادو بھری کیفیت عطا کرتی ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).