افسانہ: زہریلا تریاق
آج کالج کا پہلا دن تھا اور وہ بس اسٹاپ پر ایک لفنگے کو کھری کھری سنا کر خاموش ہوئی تھی۔ پھر بس میں سوار ہوتے ہی کنڈکٹر سے کرایے کے پیسوں پر بحث کر رہی تھی۔ اس کی آواز بس میں گونج رہی تھی، تیز، بے خوف۔ چند لمحوں بعد ، وہ ہنسی، سر جھٹک کر میرے برابر آ کر بیٹھ گئی۔
اس کی خود اعتمادی مرعوب کر دینے والی تھی۔
”کچھ لوگ قاعدے قانون کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں،“ اس نے اپنا پرس بیگ میں رکھتے ہوئے کہا۔
اس میں نہ جانے کیا تھا کہ مجھے وہ فوراً پسند آ گئی۔
اس کا نام عائشہ تھا۔ وہ میرے محلے میں ہی رہتی تھی۔ ہمارے کالج کی بس ہمیں ایک ہی اسٹاپ سے اٹھاتی، اور یوں یہ معمول بن گیا۔ ہم ساتھ بیٹھتے، ہر چیز پر بات کرتے۔ وہ پروفیسرز جنہیں ہم ناپسند کرتے تھے، وہ اسائنمنٹس جنہیں ہم آخری لمحے تک ٹالتے رہتے۔ ہم مشترکہ دوستوں کی شرارتوں کا تذکرہ کرتے، زندگی کا مطلب، اور 19 سال کی عمر میں دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔ وہ بے انتہا انرجی کی مالک تھی، بالکل بے خوف، جو ہر بات پر سوال اٹھانے والی، ہر چیز پر اپنی رائے رکھنے والی تھی۔
میں خاموش طبع تھا، زیادہ سننے والا، مگر اسے اس کی پرواہ نہیں تھی۔
پھر ایک دن، وہ غیر متوقع خاموش تھی۔
وہ میرے برابر بیٹھی، کھڑکی سے باہر دیکھتی رہی، اس کے ہاتھ گود میں سختی سے جکڑے ہوئے تھے۔
”عائشہ؟“ میں نے نرمی اور حیرانی سے پوچھا۔
اس کی پلکیں تیزی سے جھپکیں، مگر آنسو پہلے ہی گر چکے تھے۔ ”میرے ابو کو کینسر ہے،“ اس نے سرگوشی میں کہا۔ ”ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ چند ہفتے باقی ہیں۔“
مجھے سمجھ نہیں آیا کہ مجھے کیا کہنا چاہیے، بس خاموش اس کے ساتھ بیٹھا رہا۔
اگلے چند ہفتے میں نے اسے بکھرتے دیکھا۔ اسپتال اور گھر کے بیچ بھاگتے ہوئے، کلاسز چھوڑتے ہوئے، اکثر کالج سے غائب رہتے ہوئے۔ پھر، ایک دن اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔
میں نے ہر طرح اس کی مدد کرنے کی کوشش کی۔ میں اس کے ساتھ کلاس کے بعد وقت گزارتا، اسے اپنے نوٹس دیتا، کئی مرتبہ پروفیسروں سے جا کر اس کے لیے منتیں کرتا کبھی اسائنمنٹ کے لیے مزید وقت اور کبھی اٹنڈینس پوری نہ ہونے پر درگزر کرنے کے لیے۔ کبھی کبھی اس کی دلجوئی کے لیے بے کار لطیفے سناتا جو ہنسنے کے قابل بھی نہ تھے۔ مگر کوئی چیز اس کے زخم کو بھر نہیں سکتی تھی۔
وہ مجھے شکرگزار آنکھوں سے دیکھا کرتی مگر مسکراہٹ کا دور دور نشان نہیں ہوتا۔
اور پھر اس کے مالی حالات بگڑنے لگے۔ اس کے والد قرض چھوڑ گئے تھے۔ اس کی ماں، جو پہلے ہی بکھری ہوئی تھیں، اب گھر کے اخراجات پورے کرنے سے قاصر تھیں۔
میں نے کئی مرتبہ گھر والوں کو اس کی مشکلات سے آگاہ کیا اور مدد کرنے کی درخواست کی
اور تب میری امی نے اپنا حل نکالا۔
”عائشہ اور اس کی ماں بہت مشکل میں ہیں،“ انہوں نے ایک رات کھانے کے دوران کہا۔ ”تمہارے ماموں چالیس سال کے ہونے والے ہیں“ ۔
تو؟ میرے جواب میں سوال تھا، مجھے خدشہ لگا کہ یہ گفتگو خطرناک ہونے والی ہے۔
”بھئی اچھا کمانے والا آدمی ہے۔ اگر وہ عائشہ سے شادی کر لے تو یہ سب مسائل ختم ہو جائیں گے۔“
میرے پیٹ میں جیسے کوئی مروڑ اٹھا۔ ”وہ انیس سال کی ہے۔“ میری آواز میں سخت احتجاج تھا
”تو کیا ہوا؟ وہ اسے اور اس کی ماں کو سنبھال لے گا۔ انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔“
مجھے سوچنے کی مہلت بھی نہ ملی۔ میں غصے میں کھانے کی میز چھوڑ کر باہر نکل آیا۔ اگلی صبح میں نے سنا کہ ماموں نے اس تجویز میں دلچسپی لے لی ہے۔ خاندان والے بات چیت کر رہے تھے۔ یہ سب طے ہونے لگا تھا۔
میں ایک ایک کر کے امی، ابو اور ماموں کے پاس گیا۔ لڑا، چلایا۔
”وہ کوئی سودا نہیں ہے جس پر لین دین کیا جائے، وہ ایک انسان ہے!“
کیا آپ لوگ محض انسانیت کے رشتے سے اس کی مدد نہیں کر سکتے؟
یہ سلسلہ کئی دن چلا۔ مگر میں اسے روکنے میں کامیاب ہو گیا۔
آخر کار میں نے عائشہ کو بتایا تو مجھے لگا کہ وہ سکون کا سانس لے گی۔ شاید شکریہ ادا کرے گی۔ مگر وہ بس تھکی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھتی رہی۔
”تم نے انہیں روک دیا؟“
”ہاں، بالکل،“ میں نے فخریہ انداز میں کہا۔
وہ آہستہ سے سر ہلانے لگی۔
پھر وہ کئی دن مجھ سے کتراتی رہی۔ اور پھر، ایک دن وہ بس اسٹاپ پر میرا انتظار کرتی ہوئی ملی،
میں آج سے کالج نہیں جا سکوں گی، اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، اس نے نحیف آواز میں کہا، تم بہت اچھے دوست ہو، میرا ایک کام کر دو۔ اپنے ماموں کو رشتے پر دوبارہ آمادہ کر لو، پلیز! ”
مجھے لگا جیسے میرے اندر کچھ ٹوٹ گیا، بہت بڑا، ایسا جو کبھی جوڑا نہیں جا سکتا۔
”عائشہ، نہیں“ میں نے مدھم آواز میں کہا۔
اس نے سختی سے تھوک نگلا۔ ”میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے۔“
”ہے،“ میں نے بے بسی سے کہا۔ ”ہم کوئی حل نکالیں گے۔ تمہیں یہ شادی کرنے کی ضرورت نہیں۔“
اس نے مجھے غور سے دیکھا۔ اور میں نے اس کی آنکھوں میں کچھ دیکھا۔ بھاری وزن، تھکن، ہار ماننے کی وہ حد جہاں آگے کچھ نظر نہیں آتا۔
”تم بھی انیس سال کے ہو،“ اس نے دھیرے سے کہا۔ ”تمہیں لگتا ہے کہ ہر مسئلے کا حل ہوتا ہے، کہ ہمیشہ کوئی دوسرا راستہ نکل سکتا ہے۔ لیکن میں تھک چکی ہوں، میری ماں میں اب سکت نہیں ہے، اور یہ دنیا ہم جیسے لوگوں کے انتظار میں نہیں رکتی۔“
میں نے سر ہلایا۔ ”یہ کوئی حل نہیں ہے۔“
وہ مسکرائی، مگر وہ مسکراہٹ زخموں سے بھری ہوئی تھی۔ ”یہ بقا کی جنگ ہے۔“
اور وہ چلی گئی۔
میں اسٹاپ پر کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہا، جانتے ہوئے کہ وہ اپنا فیصلہ کر چکی ہے۔ جانتے ہوئے کہ میں ہار چکا ہوں۔ اور ایسا محسوس ہوا جیسے میرے اندر ایک بم پھٹ گیا ہو، جس نے مجھے اندر سے جلا کر راکھ کر دیا ہو۔
- افسانہ: زہریلا تریاق - 15/04/2025
- ٹھنڈی چائے - 02/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).