وائٹ مین یا گورے مرد کا تصور: ایک تنقیدی جائزہ


مغربی معاشروں میں ”وائٹ مین“ یا ”گورے مرد“ کا تصور ایک ایسی اصطلاح کے طور پر ابھرا ہے جو علمی حلقوں سے لے کر عام گفتگو اور میڈیا تک مسلسل زیر بحث رہتی ہے۔ یہ ایک متنازعہ مگر انتہائی اہم تصور ہے جو طاقت کے ساختی استعمال، نسلی تفاوت اور صنفی امتیاز کے پیچیدہ نظام کو واضح کرتا ہے۔ تاریخی طور پر یہ تصور ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کس طرح مخصوص نسلی گروہوں کے مردوں نے معاشرتی طاقت پر اجارہ داری قائم کی اور دیگر نسلوں کے افراد، خواتین اور دوسرے جنسی شناخت رکھنے والوں کو کمتر قرار دینے کا ایک نظام وضع کیا۔

یہ تصور کسی خاص نسل کے تمام افراد کے بارے میں نہیں، بلکہ ایک مخصوص ذہنیت اور رویے کی نشاندہی کرتا ہے جو کہیں بھی وجود رکھ سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا فکری ڈھانچہ ہے جو مذہب، فلسفہ اور سائنس جیسے اداروں کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے مردوں کے ایک مخصوص طبقے کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس فکری سانچے میں خاص طور پر سفید فام اشرافیہ مردوں کو دیگر نسلی گروہوں اور خواتین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ اس نظام فکر میں گورے مرد کو فطری طور پر برتر تصور کیا جاتا ہے، جبکہ دیگر نسلوں کے افراد اور خواتین کو کم تر اور صلاحیتوں میں ناقص سمجھا جاتا ہے۔

یہ نظریہ خاص طور پر نو آبادیاتی دور میں پروان چڑھا۔ ہندوستان میں انگریزوں کے راج، جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ نظام اور نازی جرمنی میں ہٹلر کے نسلی تفوق کے نظریے اسی تصور کی مختلف شکلیں تھیں۔ اپنی بالادستی کو جواز فراہم کرنے کے لیے مذہب کو بے جا طور پر استعمال کیا گیا، جبکہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو محکوم بنانے کے لیے اپنے مذہبی عقائد کو برتر ثابت کیا گیا۔ جب ارتقاء کا نظریہ سامنے آیا تو یوجینکس جیسے سائنسی نظریات کو بنیاد بنا کر سفید فام نسل کو برتر اور دیگر نسلوں کو کمتر ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ امریکہ میں ریڈ انڈینز اور آسٹریلیا میں آبائی باشندوں کو اسی نظریے کے تحت نشانہ بنایا گیا، حتیٰ کہ انہیں انسان تسلیم کرنے سے بھی انکار کر دیا گیا۔

یورپی اقوام نے جب مختلف ممالک پر نو آبادیاتی تسلط قائم کیا تو اس عمل کو نسلی برتری کے نظریے سے جواز بخشا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جمہوریت کے قیام کے بعد بھی یورپ میں خواتین کو ووٹ کے حق سے محروم رکھا گیا۔ اس امتیازی رویے کے خلاف مغرب ہی میں خواتین نے تحریک چلائی جسے ”سفر جٹ موومنٹ“ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد مغربی خواتین نے ووٹ ڈالنے اور سیاسی عمل میں حصہ لینے کا حق حاصل کیا۔

مغرب میں اس نسلی اور صنفی امتیاز کے خلاف مزاحمت میں مابعد جدیدیت کے مفکرین جیسے فوکو، دریدہ، ڈیلیوز اور فیمنسٹ نظریہ دانوں جیسے ورجینیا وولف، سیمون ڈی بوا، سکسو اور دیگر نے اہم کردار ادا کیا۔ لیکن یہ جدوجہد ختم نہیں ہوئی، بلکہ یہ فکری اور معاشرتی محاذ آرائی آج بھی جاری ہے۔ مغرب کے قدامت پسند حلقوں میں نسلی اور صنفی امتیاز کا رویہ اب بھی موجود ہے، جس کے تحت غیر سفید فام افراد، خواتین اور ٹرانس جینڈر افراد کے خلاف امتیازی سلوک مذہب و ثقافت کے پردے میں جاری ہے۔

یہ رویہ محض مغرب تک محدود نہیں، بلکہ دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مغرب میں اسے ”وائٹ مین“ کے تصور کے تحت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جبکہ دیگر معاشروں میں اس رویے کو پہچاننے اور نام دینے کی بھی کوشش نہیں کی جاتی۔ نتیجتاً ان معاشروں میں اس کے خلاف موثر آواز اٹھانے کا رجحان بھی کم نظر آتا ہے۔

پاکستان میں عورت مارچ جیسے اقدامات نے اس مزاحمت کی ایک جھلک ضرور پیش کی، لیکن یہ تحریک وقت گزرنے کے ساتھ اپنا اثر کھو رہی ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف ان کوششوں کا ساتھ دیا جائے، بلکہ ہمارے معاشرے میں نسلی اور صنفی امتیاز کے وہ تمام مظاہر جو ثقافت اور مذہب کے نام پر جاری ہیں، ان کا تنقیدی جائزہ لیا جائے اور ان کے خلاف موثر مزاحمت کی جائے۔

وائٹ مین کا تصور اگرچہ متنازعہ لگتا ہے، لیکن یہ ہمیں نسلی اور صنفی امتیاز کے ڈائنامکس کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس وقت امریکہ اور یورپ کی سیاست میں قدامت پرستوں کی جانب سے اس قسم کے نظریات کی بحالی نظر آتی ہے۔ یہ تصور ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ ایسے سیاسی نظریات اقلیتی گروہوں، خواتین اور ایل جی بی ٹی کمیونٹی پر کیا اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یہ ہمیں اپنے معاشرے کی نسلی اور صنفی حقیقتوں کو سمجھنے میں بھی مدد دے سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments