حرکت کا سائنسی تصور۔ حصہ دہم


کلاسیکی میکانیات کا اصول ہے کہ خارجی قوت کی عدم موجودگی میں چیزیں حرکت کے لئے ایسا راستہ اپناتی ہیں جو حرکت کے نقطہ آغاز سے نقطہ انجام تک سب سے مختصر فاصلہ ہوتا ہے۔ اقلیدیسی مکاں میں دو نقاط کے درمیان مختصر ترین فاصلہ سیدھی لکیر ہوتا ہے۔ لہذا، اقلیدیسی مکاں میں خارجی قوتوں کی عدم موجودگی میں چیزیں سیدھی لکیرپر چلتی ہیں۔ کسی خارجی قوت کی موجودگی میں حرکت کرتی چیز میں اسراع (ایکسلریشن) پیدا ہوتا ہے جو شے کو سیدھی لکیر سے ہٹا دیتا ہے۔ گویا اقلیدیسی مکاں میں قوتوں کے زیراثر چیزیں ٹیڑھی لکیر پر چلتی ہیں۔ چونکہ آئن سٹائن کے نظریہ خصوصی نسبیت کا مکاں اقلیدیسی ہے، اس لئے خصوصی نسبیت میں بھی دو نقاط کے درمیان مختصر ترین راستہ سیدھی لکیر ہوتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ یہ چار جہتی زمان و مکاں میں سیدھی لکیر ہے۔ چیزیں خارجی قوت کے بغیر چپٹی سطح میں چار جہتی سیدھی لکیر پر چلتی ہیں جسے موڑنے کے لئے خارجی قوت درکار ہوتی ہے۔

ایک خمیدہ سطح پر، سیدھی لکیروں کے تصور کو جیوڈیکسک یا منحنی خطوط کے زیادہ عمومی تصور سے بدل دیا جاتا ہے جو سطح کے حوالے سے مقامی طور پر سیدھے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک کرے کی سطح پر دو نقطوں کے درمیان سب سے مختصر راستہ ایک عظیم دائرے کا ایک قوس (آرک) بناتا ہے۔ ایک عظیم دائرہ، کسی کرہ پر ایک ایسا دائرہ ہے جس کا مرکز کرہ دائرہ کے مرکز کے ساتھ ملتا ہے۔ اس قوس کو عظیم دائرے کا فاصلہ یا آرتھوڈرومک فاصلہ بھی کہا جاتا ہے۔ کرہ پر جیوڈیکسک عظیم دائرہ بناتی ہے۔ عمومی نسبیت کا مکاں چونکہ اقلیدیسی نہیں ہے بلکہ وہ کرے کی سطح جیسا خمیدہ مکاں ہے اس لئے عمومی نسبیت میں چیزیں منحنی خطوط یا جیوڈیسک پر چلتی ہیں۔ چونکہ جیوڈیسک خود ہی مڑے ہوئے خطوط ہوتے ہیں، اس لئے چیزوں کو ٹیڑھی لکیر پر چلنے کے لئے کسی خارجی قوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ نتیجہ نیوٹن کے قانون جاذبیت سے مختلف ہے جس میں دو بھاری اجسام کے درمیان قوت تجاذب عمل کرتی ہے

1912 تک اپنے دوست مارسل گراسمین کی مدد سے آئن سٹائن یہ جان چکا تھا کہ کسی جسم کی گریویٹیشنل فیلڈ میں حرکت جیوڈیسک کی مساوات سے معلوم ہوتی ہے۔ جیوڈیسک کی مساوات نیوٹن کے دوسرے قانون حرکت کی مساوات کی تعمیم کرتی ہے۔ نیوٹن کے قانون میں مساوات کے ایک طرف تجاذبی قوت اور دوسری طرف شے کی جمودی کمیت اور قوت کے زیراثر پیدا ہونے والے تجاذبی اسراع کا حاصل ضرب ہوتا ہے۔ نیوٹن کا قانون کارتیسی محددات کی شکل میں تحلیل ہوتا ہے جبکہ جیوڈیسک کی مساوات میں گاؤس کے محددات استعمال ہوتے ہیں۔ نیوٹن کی تجاذبی قوت کے بجائے ایک نئی چیز یعنی کرسٹوفل علامات استعمال ہوتی ہیں جو گریویٹیشنل فیلڈ کی شدت کو ظاہر کرتی ہیں۔ گریویٹیشنل فیلڈ کی عدم موجودگی میں کرسٹوفل علامات کی مقدار صفر ہوتی ہے اور جیوڈیسک کی مساوات اقلیدسی مکاں کی سیدھی لکیر والی مساوات بن جاتی ہے۔ اب تک ہم گریویٹیشنل فیلڈ یا تجاذبی قوت کے زیراثر کسی شے کی حرکت پر بات کر رہے تھے، آئندہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ کسی بھاری شے کی موجودگی میں اس کے گرد گریویٹیشنل فیلڈ کی حرکت کی مساوات کیا ہوگی؟

1912 سے 1915 تک مزید تین سال آئن سٹائن نے گریویٹیشنل فیلڈ کی مساواتیں تلاش کرنے میں صرف کیے۔ ان مساواتوں کو لکھنے کے لئے جو اہم مطالبات پورے ہونے چاہئیں وہ درج ذیل ہیں۔ اول، یہ نسبیت کے عمومی اصول یعنی اصول تعادل سے ہم آہنگ ہوں۔ دوم، گریویٹیشنل فیلڈ کے ماخذ جسم کو صرف اس کی توانائی سے ظاہر کیا جائے گا (مادے و توانائی کی مساوات خصوصی نسبیت کا نتیجہ ہے ) ۔ سوم، گریویٹیشنل فیلڈ اور جسم دونوں مل کر قانون بقائے توانائی و مومینٹم سے مطابقت رکھیں (یاد رہے کہ گریویٹیشنل فیلڈ بھی توانائی رکھتا ہے ) ۔ اور ان تینوں لوازمات کے ساتھ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ گریویٹیشنل فیلڈ کی مساواتیں، روزمرہ حالات میں نیوٹن کی مساوات میں بدل جائیں۔ یعنی نیا قانون، پرانے کی تصدیق کے قابل ہو۔

Henry Cavendish

اٹھارہویں صدی تک نیوٹن کے قانون تجاذب کو پوئساں (متوفٰی 1840 ) کی فیلڈ مساوات کے مطابق لکھا جا چکا تھا۔ اس مساوات کے ایک طرف نیوٹن کی تجاذبی قوت اور دوسری طرف گریویٹیشنل فیلڈ کی پوٹینشل انرجی کا منفی گریڈینٹ ہوتا ہے۔ نیوٹن کے قانون تجاذب میں کسی جسم کی کمیتی کثافت (ماس ڈینسٹی) اس کے گریویٹیشنل فیلڈ پیدا کرتی ہے۔ کمیتی ثقافت ایک سکیلر مقدار ہے۔ انیسویں صدی میں میکسویل (متوفٰی 1879 ) نے برقناطیسی فیلڈ کے لئے پوئساں کی مساوات استعمال کی۔ میکسویل کی مساوات میں برقناطیسی توانائی و مومینٹم کا ٹینسر (انرجی مومینٹم ٹینسر) پیش کیا جو برقناطیسی فیلڈ پیدا کرتا ہے۔ پوٹینشل انرجی کا گریڈینٹ اگر صفر ہو جائے تو پوئساں کی فیلڈ مساوات لیپلاس کی مساوات بنے گی۔ کسی جگہ ایک خاص حدود کے اندر توانائی کے صفر گریڈینٹ کا مطلب ہوتا ہے کہ اس جگہ متعلقہ فیلڈ کا ماخذ موجود نہیں ہے۔ جیسے روشنی کی کرن جب سورج سے نکل کر خلا سے گزرتی ہے تو خلا میں کسی خاص جگہ اگر انرجی مومینٹم ٹینسر صفر گریڈینٹ رکھتا ہو تو یہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ سورج اس جگہ موجود نہیں ہے مگر برقناطیسی فیلڈ یعنی روشنی موجود ہے۔ اسی طرز پر آئن سٹائن نے بھی گریویٹیشنل فیلڈ کا ماخذ ایک انرجی مومینٹم ٹینسر فرض کیا اور اس کے لئے ویسی ہی پوئساں کی مساوات لکھی۔ یہ مساوات اگرچہ میکسویل کی مساوات جیسی تھی اور اس میں گریوٹی کا انرجی مومینٹم ٹینسر بھی اسی نوعیت کا تھا جیسا میکسویل ٹینسر تھا مگر اس میں ایک سقم باقی تھا۔

عمومی نسبیت کے مطابق قوانین فطرت کو ایسے ضابطوں میں بیان کرنا ہو گا جس سے ان کی شکل تمام مشاہدین کے لئے ایک جیسی رہے جو کہ ہم آہنگی کا قانون (کوویرینس) بھی کہلاتا ہے۔ آئن سٹائن کی ابتدائی مجوزہ فیلڈ مساوات ہم آہنگی کے قانون سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ لہذا، اس نے ایسے ٹینسرز کی تلاش شروع کی جو اس شرط کو پورا کریں۔ خوش قسمتی سے چند بڑے اطالوی ریاضی دان جیسے ریچی اور لیوی چیویتا وغیرہ نے ایسے ٹینسرز بنا رکھے تھے جن کو استعمال کیا جاسکتا تھا۔ آئن سٹائن نے ان ٹینسرز کی مدد سے بالآخر ایک ایسا ٹینسر تیار کر لیا جس کی شکل میں اگر فیلڈ مساواتوں کو بیان کیا جائے تو وہ ہم آہنگی کے اصول پر پورا اترتی ہیں۔ ان فیلڈ مساواتوں میں ایک جانب گریویٹیشنل فیلڈ کا انرجی مومینٹم ٹینسر تو دوسری جانب آئن سٹائن ٹینسر ہوتا ہے۔ یہ غیرخطی (نان لینیر) مساواتیں ہیں۔

چونکہ زمان و مکاں کی یکجائیت سے چار جہتی مکاں تشکیل پاتا ہے اس لئے چار جہتوں میں گریویٹیشنل فیلڈ کے لئے ایسی دس غیرخطی مساواتیں ہوتی ہیں (جو فیلڈ کی سمٹریز کے بنا ٹوٹل سولہ مساواتیں بنتی ہیں ) ۔ ان مساواتوں کو آئن سٹائن کا ”عمومی قانون تجاذب“ بھی کہتے ہیں۔ یاد رہے جاذبیت (گریویٹیشن) کی اصطلاح نیوٹن کے ہاں تجاذبی قوت کے لئے مستعمل تھی لیکن عمومی نسبیت میں قانون تجاذب صرف اس حقیقت کا بیان ہے کہ اشیاء کے گردوپیش کا زمان و مکاں غیر اقلیدیسی ہوتا ہے۔

Einsein and Newton

اگر کہیں گریویٹیشنل فیلڈ کی مقدار کمزور ہو یعنی شے کے گرد زمان و مکاں قدرے چپٹا ہو تو آئن سٹائن کا قانون تجاذب نیوٹن کے قانون تجاذب میں ڈھل جاتا ہے۔ ہماری زمین پر گرنے والی اشیاء یا نظام شمسی کے سیاروں کی حرکت کو نیوٹن کی تجاذبی قوت کی مدد سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے۔ عمومی قانون تجاذب کی خوبصورتی یہ ہے کہ نیوٹن کے برعکس، اس میں کسی قسم کی گریویٹیشنل فورس کو پہلے سے فرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے (جو نیوٹن کی میکانیات کا ایک سقم تھا) بلکہ نیوٹن کا قانون تجاذب، آئن سٹائن کے نظریہ عمومی نسبیت کے منطقی نتیجے کے طور پر فطرتاً ظاہر ہو جاتا ہے۔

جن حقائق کو نیوٹن کی میکانیات سے معلوم کیا جاتا ہے وہ آئن سٹائن کے قانون تجاذب میں بھی برقرار رہتے ہیں۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ آئن سٹائن کی مساواتیں غیر خطی اور کافی پیچیدہ ہیں اور اس لیے مخصوص حالات میں زیادہ کارگر ہیں۔ جبکہ نیوٹن کا قانون تجاذب نہایت سادہ اور وسیع مظاہر کے لئے درست رہتا ہے۔ آج بھی انجینئرنگ میں نیوٹن کے قوانین ہی کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ تاہم، بڑے اجسام جیسے سورج یا اس سے بڑے ستارے یا بلیک ہول یا بڑی کہکشاؤں کے گریویٹیشنل فیلڈ کی شدت بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان کے گرد زمان و مکاں کافی حد تک غیر اقلیدیسی ہوتا ہے۔ اس لئے ایسے بڑے اجسام کے لئے عمومی تجاذب کی مساواتیں حل کرنا پڑتی ہیں۔

آئن سٹائن نے 1915 میں عمومی نسبیت پر اپنے معرکۃ الآرا پرچے میں اس نئے قانون تجاذب کے تین نتائج کی پیش گوئی کی تھی جن میں سیارہ عطارد (مرکری) کے مدار میں تبدیلی کی شرح، روشنی کا گریویٹیشنل فیلڈ میں مڑنا اور گریویٹیشنل ریڈشفٹ شامل ہیں۔ ان تین پیش گوئیوں کو عمومی نسبیت کے کلاسیکی امتحان بھی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے پہلا یعنی سیارہ عطارد کے مدار میں تبدیلی کو ماہرین فلکیات نے پہلے سے مشاہدہ کر رکھا تھا۔ نیوٹن کے قانون تجاذب کے استعمال سے عطارد کے مدار میں تبدیلی کی شرح اس معلوم شرح سے کم نکلتی تھی۔ آئن سٹائن نے عمومی قانون تجاذب سے سیارہ عطارد کے مدار میں تبدیلی کی شرح بالکل وہی نکالی جو مشاہدات کے عین مطابق تھی۔ یہ ایک طرح سے پہلا کامیاب نتیجہ تھا جس نے عمومی تجاذب پر اعتماد پیدا کرنے میں مدد کی۔

اسی طرح کیوینڈش (متوفی 1810 ) نے 1784 میں بتایا تھا کہ نیوٹن کے قانون تجاذب کے مطابق، بہت بھاری اجسام کے قریب سے گزرنے والی روشنی اپنا رستہ بدلے گی۔ اس کی مقدار بھی نیوٹن کے قانون سے معلوم کی گئی تھی۔ آئن سٹائن نے عمومی جاذبیت کے مطابق حساب لگایا کہ روشنی کے مڑنے کی مقدار، نیوٹن والی قیمت سے دوگنی ہے۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر 29 مئی 1919 میں سر آرتھر ایڈنگٹن اور ان کی ٹیم نے سورج گرہن کے دوران چند ستاروں کی طرف سے آنے والی روشنی سے ان کے مقام کا حساب لگایا اور اس تجربے کو بیک وقت زمین کے دیگر علاقوں جیسے مغربی افریقہ کے ساحلی ممالک اور جنوبی امریکہ وغیرہ میں دہرایا گیا۔ اس تجربے سے پتا چلا کہ ان ستاروں کا مقام آئن سٹائن کے قانون کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت کی سب سے بڑی اور اہم خبر تھی جس نے دنیا بھر کے اخباروں کے پہلے صفحے میں جگہ بنائی اور آئن سٹائن دنیا بھر میں اہم سائنسدان کے طور پر مشہور ہو گیا۔ ایسے ہی تجربات 1922 میں آسٹریلیا میں، 1953 میں وسکانس کی یرکس رصد گاہ اور 1973 میں ٹیکساس یونیورسٹی آسٹن وغیرہ میں دہرائے جاتے رہے ہیں اور ہمیشہ ان کے نتائج ایڈنگٹن کے 1919 کے نتائج کے قریب رہے ہیں۔ 2017 میں ایک سفید بونے ستارے (وائٹ ڈوارف) کے قریب سے گزرنے والی ستاروں کی روشنی کے سیدھی لکیر سے انحراف کو ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے بھی ناپا گیا ہے اور اس سے ایک بار پھر عمومی تجاذب کے قانون کی تصدیق ہوئی ہے۔

گریویٹیشنل ریڈ شفٹ کا مطلب ہے کہ روشنی کی لہر جب نسبتاً زیادہ مضبوط گریوٹی کے علاقے سے نکل کر کسی ایسے خطے میں جاتی ہے جہاں گریوٹی کمزور ہوتی ہے تو یہ کم فریکوئنسی کی طرف منتقل ہونے لگتی ہے۔ زمین کی سطح پر اس کا اثر بہت کمزور ہے۔ یہاں تک کہ سورج کی سطح پر بھی، جہاں تجاذب زمین کی سطح سے 10 گنا زیادہ ہے، اس کا اثر بہت کم ہے۔ جب سورج جیسا ستارہ مر جاتا ہے، تو وہ اپنے پیچھے ایک ایسی چیز چھوڑ جاتا ہے جو اس راکھ سے بنی ہوتی ہے جو اس کے نیوکلیئر فیوژن سے باقی بچی ہوتی ہے۔ ایسی چیز کو سفید بونا کہا جاتا ہے۔ عام سفید بونے کا سائز زمین جتنا ہوتا ہے، لیکن اس کی کمیت سورج کے قریب ہوتی ہے۔ 1954 میں امریکہ کی ایریزونا یونیورسٹی میں ایک سفید بونے ستارے میں سے نکلنے والی روشنی میں ریڈ شفٹ کی پہلی درست پیمائش کی گئی۔ گرین سٹائن وغیرہ نے 1971 میں سیریس بی (آسمان پر سب سے روشن ستارہ سیریس جڑواں ستاروں کا نظام ہے ) نامی سفید بونے ستارے میں تجاذبی ریڈ شفٹ کو ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کی مدد سے ناپا گیا جو آئن سٹائن کی تیسری کلاسیکی پیش گوئی کو ثابت کرتا ہے۔ ان کلاسیکی مشاہدات کے علاوہ دیگر فلکی مظاہر جیسے بلیک ہول اور تجاذبی لہروں کی دریافت، کاسمولوجی میں ہونے والے مشاہدات اور لیبارٹریوں میں ہونے والے جدید تجربات میں بھی عمومی قانون تجاذب کے نتائج ہمیشہ درست رہے ہیں۔

ایک عام مغالطہ ہے کہ آئن سٹائن کے نظریے میں چونکہ تجاذبی قوت کی ضرورت نہیں اس لئے نیوٹن کی میکانیات غلط ہے۔ یہ لوگ شاید نہیں سمجھتے کہ سائنس کیسے کام کرتی ہے اور سائنسی علم کیسے بتدریج آگے بڑھتا ہے۔ نیوٹن کی میکانیات میں بنیادی تصور خارجی قوت کے ذریعے حرکت کا ہے۔ یہ تصور اٹھارہویں صدی میں پوٹینشل انرجی کے منفی گریڈینٹ اور انیسویں صدی میں فورس فیلڈ کے تصور سے ہوتا ہوا بیسویں صدی کے آئن سٹائن کے قانون تجاذب میں ڈھل گیا۔ حرکت کی بنیادی تعریف اب بھی وہی ہے جو نیوٹن نے پیش کی تھی کہ شے کی حرکت کا محرک اس کے خارج میں ہوتا ہے۔ نیوٹن کے قانون میں یہ سقم تھا کہ دو مختلف شاہدین کے لئے قانون تجاذب کی شکل مختلف ہوجاتی تھی جو تعادل (ایکویلنس) کے اصول کے خلاف ہے۔ آئن سٹائن کے نظریہ نسبیت نے اس سقم کو دور کیا ہے۔ مگر اس نے یونانی طبیعات یا قرون وسطیٰ کے مابعد الطبیعی تصورات کو ثابت نہیں کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments