جنید حفیظ: لرزتا ہوا انصاف


Loading

میرے ذہن کی پٹاری میں میرے وطن کا ایک مقدمہ ایسا بھی ہے جو 2013 سے کسمسا، بلبلا اور کروٹیں بدل بدل کے تھک سا گیا ہے مگر مقدمے کی برسوں بعد لگنے والی پیشی Forward as Recieved کی طرح بغیر سنے اور کسی بھی حتمی نتیجے پر پہنچے بنا اور کسی تفتیشی عمل سے گزرے بغیر ہی ختم کر دی جاتی ہے، اب میں نہیں جانتا کہ ہماری عدلیہ بھی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پروپیگنڈے Forward as Recieved کی طرح اس مقدمے کے مدعیان سے خوفزدہ ہو کر جنید حفیظ کی سزائے موت کی معافی کی اپیل کے مقدمے کو مسلسل معطل کرنے پر کیوں تلی بیٹھی ہوتی ہے جبکہ کسی بھی طرح یہ بے بس و لاچار مقدمہ ایک طویل عرصے سے نہیں سنا جا رہا، اس مذکورہ مقدمے میں من گھڑت ”بلاسفیمی“ کے ملزم جنید حفیظ کے بنیادی وکیل اور انسانی حقوق کے رہنما راشد رحمان مئی 2014 میں اپنے ہی دفتر میں قتل کیے جا چکے ہیں جبکہ جنید حفیظ کا ساتھ دینے والے وکلا بھی مسلسل شدت پسندوں کی دھمکیوں کی زد میں رہتے ہیں، اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے جنید حفیظ کے والدین نے اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے درخواست کی تھی کہ ان کے بیٹے کو من گھڑت الزام کے مقدمے میں جلد انصاف فراہم کیا جائے، مگر اس مقدمے میں جنید حفیظ کو انصاف تو کجا بلکہ اس کیس میں مختلف ججز کے تبادلے اور کیس کو سست روی سے چلانے پر عدلیہ کی کارکردگی آج تک از خود ایک سوال بنی ہوئی ہے، جو انگریزی کے نوجوان لیکچرر جنید حفیظ کو عدالتی انصاف فراہم نہ کرنے کے سلسلے میں انتہائی تشویشناک امر ہے۔

جنید حفیظ کے مقدمے کی سست روی کا جائزہ لیا جائے تو مذکورہ کیس 2013 یعنی 12 برس پرانا کیس ہے جس کو خطرناک قرار دیتے ہوئے ملتان جیل میں ٹرائل کے دوران 25 دسمبر 2019 میں سیشن جج نے سزائے موت سنائی، جس کو جنید حفیظ کے لواحقین نے لاہور ہائی کورٹ میں اپیل کے ذریعے چیلنج کر دیا، اور یوں یہ مذکورہ کیس لاہور ہائی کورٹ میں ایسی پیشیوں کے چکر میں الجھا ہوا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ عدالتی جج مدعیان کی دھمکیوں یا کسی انجانے خوف میں مبتلا ہو کر مقدمہ سننے کی جرات ہی نہیں کرتے بلکہ جب 5 برس کی تاخیر کے بعد 19 مارچ 2025 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شہرام سرور اور جسٹس سردار اکبر علی پر مشتمل دو رکنی بنچ نے جنید حفیظ کے مقدمے کو سننے کی تاریخ دی تو ایک امید کی لہر جاگی مگر دو روز بعد ہی عدالتی فہرست سے بغیر کوئی وجہ بتائے اس مقدمے کو خارج کر کے غیر معینہ مدت کے لئے آئندہ کی سماعت کی نوید سنا دی گئی جو انسانی حقوق پر یقین رکھنے والوں کے لئے ایک افسوسناک خبر تھی۔

دوسری جانب پچھلے پندرہ برسوں سے جنید حفیظ کے والدین اور لواحقین ”امید پیہم“ کے گرد ہی گھوم گھوم کر عدالتی نظام کی بے اعتنائیوں کے سبب دوبارہ سے تسلی کی گولیاں کھانے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، اور یہ سب بے بس لواحقین اپنے پیارے جنید حفیظ کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے صرف عدالت کو ٹکٹکی باندھے دیکھنے پر مجبور ہیں، یہ کیوں ہو رہا ہے اور انصاف بالآخر کیوں خوفزدہ ہے، یہ ہمارے عدالتی نظام اور ارباب اختیار پر وہ تاریخی سیاہی ہے جو تادیر ان پر ملی جاتی رہے گی۔

‏جنید حفیظ بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں لیکچرر کے فرائض انجام دے رہے تھے حفیظ انتہائی ذہین اور نہایت شاندار تعلیمی کارکردگی رکھنے والا نوجوان تھا، اسی بنا اس نے طلبہ کے شعور کو صیقل کرنے کے لئے تقریباً آٹھ سال یونیورسٹی میں ایک سیمینار کروایا جس کے بعد چند طلباء نے اس پر گستاخی رسول کا الزام لگایا اور یوں اسے گرفتار کر لیا گیا۔

‏جنید حفیظ کا تعلق راجن پور سے ہے اور ایف ایس سی میں امتیازی پوزیشن حاصل کرنے کے بعد اسے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ مل گیا، لیکن اسے انگلش لٹریچر سے دلچسپی تھی، لہٰذا اس نے میڈیکل کے فرسٹ پروفیشنل کے بعد کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج چھوڑ کر بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں ‏انگلش لٹریچر میں داخلہ لے لیا اور بی اے آنرز میں 38 سالہ ریکارڈ توڑتے ہوئے 3.99 GPA سکور کیا۔ جنید پاکستان بھر کے ان 5 طلباء میں شامل تھا، کہ جن کو شاندار کارکردگی کی بنیاد پر Prestigious فل برائٹ سکالرشپ پر امریکہ میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

جنید حفیظ نے امریکہ کی ‏جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی سے امریکی لٹریچر، فوٹوگرافی اور تھیٹر میں ماسٹرز ڈگری امتیازی نمبروں سے حاصل کی اور اپنا ایم فِل کرنے پاکستان واپس آ گیا، گویا حفیظ نے لاعلمی میں بدقسمتی کی جانب سفر اختیار کر لیا۔ پاکستان پہنچ کر اسے بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں لیکچر منتخب کر لیا گیا۔

‏یونیورسٹی میں بحیثیت مجموعی کنزرویٹیو ماحول تھا، تاہم انگلش ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ شیریں زبیر کی بدولت ڈیپارٹمنٹ کا ماحول خاصا روشن خیال اور پرسکون تھا۔ جنید عموماً خواتین کے حقوق کے Activists کو لیکچر کے لیے بلا کر سیمینار کرواتا تھا، تاکہ ان کا طلباء کے ساتھ interaction بھی ہو سکے۔

‏پھر وہ دن آن پہنچا جس دن بدقسمتی نے جنید حفیظ کے در پر دستک دی۔ جنید نے وائس چانسلر سے اجازت لے کر ایک سیمینار کروایا، لیکچر کے اختتام پر ‏چند طلباء نے مہمان مقرر اور جنید پر چند گستاخانہ کلمات کی ادایئگی کا الزام لگایا۔ ان الزامات پر جنید حفیظ کو فوری گرفتار کر لیا گیا، جبکہ ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ اور مہمان مقرر کی قسمت اچھی نکلی اور وہ فوری بیرون پاکستان منتقل ہو گئیں۔ ابتدائی سماعت میں استغاثہ نے ایک گواہ پیش کیا، ‏اس گواہ نے سیمینار کے حوالہ سے تو کچھ نہیں کہا، البتہ جنید کی بعض تحریروں میں گستاخانہ مواد کا الزام لگایا۔ جبکہ شواہد کے مطابق ان تحریروں میں رد و بدل کیا گیا تھا، کیونکہ جنید نے چند کلمات کی خود سے منسوب ہونے کی سختی سے تردید کر دی تھی، دلچسپ بات یہ ہے، کہ جب گواہ سے کہا گیا کہ وہ تحریریں پڑھ کر سنائے ‏ اور گستاخانہ مواد کی نشاندہی کرے، تو گواہ نے اعتراف کیا، کہ تحریریں چونکہ انگریزی میں ہیں اور وہ انگریزی نہ تو پڑھ سکتا ہے اور نہ سمجھ سکتا ہے

بہرحال پولیس نے جنید کو لاہور سے گرفتار کیا اور ملتان لائے، پھر اسے ساہیوال جیل منتقل کر دیا گیا۔ اس کا کمپیوٹر ضبط کر لیا گیا اور اس سے ‏بغیر کسی عدالتی حکم کے زبردستی اس کا پاس ورڈ اگلوایا گیا۔ اس کے خلاف پہلے ذکر کردہ Doctored دستاویزات کی روشنی میں پینل کوڈ کی دفعہ 295 سی کے تحت بلاسفیمی کا مقدمہ درج کر لیا گیا، یہ مارچ سن 2013 کا احوال ہے۔ انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس اور معروف و کلاء کی رائے میں ‏جنید کے خلاف پیش کردہ مواد کی روشنی میں بلاسفیمی کا مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے۔ بہرحال اصل بدقسمتی کا آغاز جنید کی گرفتاری کے بعد ہوا۔

جنید کو ساہیوال جیل میں گزشتہ قریب ساڑھے سات سال سے رکھا گیا ہے۔ اسے بستر وغیرہ کی کوئی سہولت نہیں اور سنگلاخ فرش پر سوتا ہے، گرمیوں میں شدید گرمی اور ‏سردیوں میں سخت سردی کا سامنا کرتا ہے۔ سب سے اذیت ناک بات یہ ہے، کہ اس کے کیس میں تاریخوں پر تاریخیں پڑتی جا رہی ہیں اور بحث کی نوبت ہی نہیں آتی ہے۔ اس کی فیملی اور والدہ بیٹے کی گرفتاری سے تاحال گھر سے باہر نہیں نکل سکتیں، کسی شادی بیاہ یا تقریب میں نہیں جا سکتیں، جبکہ اس کے ‏ضعیف والد ہر ہفتے 200 میل کا سفر کر کے بیٹے سے ملنے جاتے ہیں، جن سے جیل سٹاف نہایت بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور کبھی انہیں بیٹے سے ملنے دیا جاتا ہے اور کبھی بنا ملے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ بوڑھا آدمی کہتا ہے، اب میں تھکتا جا رہا ہوں، لیکن کیا کروں بیٹے کو بے یار و مددگار تو نہیں چھوڑ سکتا ہوں ”جبکہ اطلاعات کے موجب جیل میں جنید کو قید تنہائی میں رکھا گیا ہے۔

اب کیس مسلسل رواں ہے، تاریخوں پر تاریخیں پڑ رہی ہیں اور ہر انصاف پسند آنکھ اس کیس کی شنوائی کی منتظر ہے، لیکن سینٹرل جیل ملتان کے ہائی سیکیورٹی وارڈ نمبر 2 میں مقید جنید حفیظ جس کا نام آج بھی جیکسن سٹیٹ یونیورسٹی Mississippy امریکہ کے Honor بورڈ پر ہے، وہ خود ملتان جیل کے فرش پر بیٹھا انصاف کا منتظر ہے۔

وارث رضا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وارث رضا

وارث رضا سینیئر صحافی، تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں۔ گزشتہ چار عشروں سے قومی اور بین الاقوامی اخبارات اور جرائد میں لکھ رہے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا کے کہنہ مشق استاد سمجھے جاتے ہیں۔۔۔

waris-raza has 52 posts and counting.See all posts by waris-raza

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments