گندم کا بحران: اسباب، وجوہات اور خدشات
صوبہ پنجاب میں گندم کا حالیہ بحران گزشتہ سال یعنی 2024 میں شروع ہوا جو ملک گیر بحران کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ حالانکہ 2024 میں ملک بھر کے کسانوں نے 31.4 ملین میٹرک ٹن بمپر کراپ پیدا کی، جس میں سب سے بڑا حصہ صوبہ پنجاب بلکہ سرائیکی وسیب کے کسانوں کا تھا۔ اس کے برعکس گزشتہ سال یعنی 2024 میں نون لیگ کی پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت تو 3900 روپے فی من مقرر کی، تاہم صوبائی حکومت خریداری سے منحرف ہو گئی۔ جواز گھڑا گیا کیونکہ پنجاب حکومت نے 2024 کے اوائل میں یوکرائن سے سستی گندم امپورٹ کرلی تھی اس لیے صوبائی حکومت کے پاس نئی گندم ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں۔
صوبائی حکومت کی عدم خریداری کے نتیجے میں 2024 میں گندم کی بمپر کراپ کی شدید ناقدری ہوئی اور مہنگے بیج، کھاد، ڈیزل کے استعمال سے اگائی گئی گندم 2600 سے 2700 روپے فی من تک فروخت ہوتی رہی جبکہ کافی سارے کسانوں کو پچھلے سال کی گندم کے پیسے ابھی تک نہیں ملے۔ اس کے برعکس وفاقی حکومت نے پاسکو کے ذریعے 2024 میں 3900 روپے فی من کے حساب سے 18 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کی، اہم سوال یہ ہے کہ پاسکو نے پچھلے سال کون سے کسانوں سے یہ گندم خریدی؟
البتہ گزشتہ سال ( 2024 ) میں سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں نے گندم کی خریداری جاری رکھی، جس کے نتیجے میں سرائیکی وسیب کے اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازیخان، مظفرگڑھ، لیہ، بھکر، رحیم یارخان، بہاولپور، لودھراں کے کسانوں کو کم نقصان ہوا کیونکہ انہیں (بالواسطہ طور پر ) اپنی گندم صوبہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں فروخت کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ اس کے برعکس موجودہ سال یعنی 2025 میں گندم کی فصل تیار ہوئی تو پنجاب حکومت نے گندم کی امدادی قیمت ہی مقرر نہیں کی جبکہ گندم کی تقریباً آدھی فصل کٹ چکنے کے بعد پنجاب حکومت کی طرف سے گندم کی علامتی قیمت 2700 روپے فی من کا اعلان کیا گیا، مگر حسب سابق صوبائی خریداری سے منحرف ہو گئی۔ اس پر طریٰ یہ کہ سندھ حکومت نے بھی 2025 میں گندم کی خریداری نہیں کی۔
یاد رہے کہ 2023 اور 2024 میں وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے کسانوں کے ساتھ ایک سے زائد مرتبہ وعدہ کیا تھا کہ وہ گندم کی بمپر کراپ اگائیں حکومت ان سے گندم کا ایک ایک دانہ خریدے گی۔ اب حکومت کسانوں سے گندم کا ایک بھی دانہ خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ بلکہ گندم کی خریداری بند کر کے انہوں نے کسانوں کو شدید مایوس کیا ہے، نتیجتاً ملک بھر کے کسان مالی طور پر برباد ہو گئے ہیں۔ 2025 میں ملک بھر کے کسانوں نے گندم کی فصل کے لیے ڈی اے پی کھاد کی بوری 12000 سے 15000 روپے (ایک بوری فی ایکڑ) جبکہ یوریا کھاد 4500 روپے فی بوری ( 2 بوریاں فی ایکڑ) خریدی، اس کے علاوہ مہنگا بیج اور مہنگا ڈیزل بھی استعمال کیا۔ مارکیٹ میں اس وقت گندم کی قیمت 1800 سے 2200 روپے فی من ہے جو کہ کسان کے لیے بدترین خسارے کا باعث ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آڑھتی حضرات 2200 روپے فی من لے کر بھی کسان کو نقد ادائیگی کے لیے تیار نہیں۔ البتہ رحیم یارخان اور پشاور کے کچھ سٹاکیے ہیں جو 1600 روپے فی من کے حساب سے موقع پر جبکہ 1800 روپے فی من کے حساب سے ایک ہفتے کے اندر کسانوں کو گندم کی ادائیگی کر رہے ہیں۔ نجانے یہ سٹاکیے کون سی سلیمانی ٹوپی پہن کر پھرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے افسران کو نظر ہی نہیں آتے۔
محدود اندازے کے مطابق کسانوں کو امسال گندم کی فصل میں 35 سے 40 ہزار روپے فی ایکڑ خسارے کا سامنا ہے جبکہ 2025 میں ملک بھر کے کسانوں کو ہونے والے مجموعی خسارے کا حجم 1100 ارب روپے سے زائد بنتا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس خسارے کا سب سے بڑا حصہ سرائیکی وسیب کے کسانوں کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کیونکہ پنجاب میں تو جگہ جگہ بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی وجہ سے زرعی زمین سکڑ کے رہ گئی، جو بچی ہے وہ بڑے بڑے ڈیری فارمز کے لیے چارہ کاشت کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ لہذا تخمینہ ہے کہ 2025 میں گندم کی فصل میں ہونے والے 1100 ارب روپے کے مجموعی خسارے میں سرائیکی وسیب کے کسانوں کا حصہ لگ بھگ 600 ارب روپے ہو گا۔
ملاحظہ فرمائیں کہ 2024 میں پنجاب حکومت کے گندم کی خریداری سے انحراف کے نتیجے میں صوبے کے کسانوں نے 2025 کے لیے گندم کی کاشت (گزشتہ سال کے مقابلے میں ) 25 % کم کی جو ملک بھر میں گندم کی کاشت میں 11 % کمی بنتی ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ گزشتہ سال یعنی 2024 میں تو پنجاب حکومت نے یوکرائن سے سستی گندم درآمد کرنے کا جواز پیش کیا تھا، مگر اس سال یعنی 2025 میں گندم کی عدم خریداری کا کیا جواز بنتا ہے؟
سرائیکی وسیب کے اضلاع راجن پور، ڈیرہ غازیخان، مظفرگڑھ، لیہ، بھکر، رحیم یارخان، بہاولپور، لودھراں، وہاڑی، خانیوال میں زباں زدِعام ہے کیونکہ سرائیکی وسیب کے لوگوں نے 2024 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالے تھے اس لیے مسلم لیگ نون کی حکومت گندم کی امدادی قیمت پر خریداری بند کر کے سرائیکی عوام سے انتقام لے رہی ہے۔ بہرحال سرائیکی عوام سے بھی سوال تو بنتا ہے کہ پی ٹی آئی نے 2018 میں سرائیکیوں کے لیے متعصبانہ سوچ رکھنے والے عثمان بزدار کو مسلط کر کے کون سا کارنامہ انجام دیا تھا کہ ابھی تک پی ٹی آئی کی محبت میں مرے جا رہے ہیں۔ حالانکہ پی ٹی آئی کے اُس وقت کے سربراہ نے 2018 میں 100 دن میں صوبہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کر کے سرائیکی عوام سے کھلم کھلا نوسربازی کی تھی۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے 2018 کے عام انتخابات میں ووٹ لے کر پونے چار سال تک ملک پر بلاشرکت غیرے حکومت کی مگر اس دوران ایک مرتبہ بھی سرائیکی صوبہ بنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
تاہم اگر پنجاب حکومت کا امدادی قیمت پر گندم کی خریداری کا فیصلہ سیاسی نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے، کیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آئی ایم ایف کے دباؤ پر گندم کی خریداری بند کی؟
بلاشبہ آئی ایم ایف کا سرکاری سطح پر گندم کی خریداری بند کرنے کا مطالبہ کافی پرانا ہے اور ماضی کی حکومتیں گندم کی خریداری نہ کرنے کا آئی ایم ایف سے وعدہ بھی کرتی رہیں۔
آئی ایم ایف سرکاری سطح پر گندم کی خریداری کا مخالف کیوں؟
درحقیقت آئی ایم ایف کا چارٹر کہتا ہے کہ جو ملک امیروں کو سبسڈی دے اسے قرضہ پروگرام نہیں مل سکتا۔ جبکہ آئی ایم ایف، پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت کے تحت سرکاری سطح پر خریداری کو سبسڈی قرار دیتا ہے اور آئی ایم ایف کے مطابق گندم کی امدادی قیمت کے 70 % بینفشری امیر کسان (بڑے زمیندار) ہیں، جن کا سبسڈی پر کوئی حق نہیں بنتا۔
آئیے اس ضمن میں کچھ ضروری سوالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کو سبسڈی قرار دیا جاسکتا ہے؟
وفاقی وزارت خزانہ کے ذمہ داران نے 2024 میں توسیعی قرضہ پروگرام (EFF) کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات اور بعد میں ہونے والے کئی جائزہ مذاکرات کے دوران گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کے حوالے سے نجانے کیا موقف پیش کیا۔ مگر حقیقت کچھ یوں ہے کہ گندم کی امدادی قیمت ہر سال کے شروع میں صوبائی حکومتیں اپنے صوبے میں گندم کی فصل پر آنے والی لاگت اور آٹے کے صارفین کی قوتِ خرید کو مدنظر رکھ کر ایک امدادی قیمت کا اعلان کر کے گندم کی خریداری کا ہدف مقرر کرتی ہے تاکہ کسانوں کو بھی ان کی محنت کا پھل مل سکے اور صارفین کو بھی آٹا مناسب نرخ پر دستیاب ہو۔ لہذا ہر سال امدادی قیمت کا اعلان کرنے کے بعد پنجاب حکومت، دی بینک آف پنجاب کی رعائتی فنانسنگ، صوبہ سندھ کی حکومت سندھ بینک اور خیبر پختونخوا کی حکومت خیبر بینک کی رعائتی فنانسنگ سے ہدف کے مطابق گندم کی خریداری کرتی ہے۔ جبکہ ہر صوبائی حکومت (سالانہ ہدف کے مطابق) گندم کی خریداری مکمل کر کے فلور ملز کا کوٹہ مقرر کر کے انہیں لاگت کے مقابلے میں تقریباً 100 روپے فی من اضافی قیمت پر گندم فراہم کرتی ہے اور اس طرح دسمبر تک بینکوں کو ان کی رقم مع رعائتی شرح سود ( 5 %) واپس مل جاتی ہے۔ دوسری جانب صوبائی حکومتیں بھی گندم کی خریداری پر ہر سال منافع کما لیتی ہیں۔
دراصل سبسڈی تو وہ ہے جو حکومت کی جانب سے عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے کسی کو بطور زرتلافی ادا کی جائے۔ اس کے برعکس گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری خریداری تو بینک فنانسنگ کے ذریعے ہوتی ہے اور بینکوں کو ان کا پیسہ مع سود واپس مل جاتا ہے جبکہ صوبائی حکومتیں بھی اس سے منافع کماتی ہیں۔ لہذا یہ سبسڈی کیونکر ہوئی؟
کیا پاکستان دنیا کا اکلوتا ملک ہے جو کسانوں سے ان کی فصل امدادی قیمت پر خریدتا ہے؟
حالانکہ بھارت اور امریکہ سمیت دنیا بھر کے کئی زرعی ممالک میں مارکیٹ سپورٹ پرائس (ایم ایس پی) سسٹم موجود ہے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں بھارت کی 6 ریاستوں کے کسانوں کی ایک بڑی تعداد نے ایم ایس پی سسٹم کی بحالی کے لیے بھارتی دارالحکومت دہلی میں داخل ہونے والے راستوں کو بند کر کے کئی ماہ تک طویل دھرنا دیا تھا اور مودی سرکار کسانوں کے دھرنے کے نتیجے میں ایم ایس پی سسٹم بحال کرنے کے لیے مجبور ہو گئی تھی۔
پاکستان میں گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے بالخصوص زراعت اور بالعموم معیشت پرکیا اثرات مرتب ہوں گے؟
کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش پاکستانی معیشت کے خلاف سازش ہے؟
جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال یعنی 2024 کے دوران صوبہ پنجاب میں امدادی قیمت پر گندم کی سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے نتیجے میں 2025 کے لیے صوبے میں گندم کی کاشت میں 25 % کمی واقع ہوئی، نتیجتاً ً وفاقی حکومت کو رواں سال کے لیے گندم کا پیداواری ہدف 31.4 میٹرک ملین ٹن سے کم کر کے 27.9 ملین میٹرک ٹن پر لانا پڑا ہے۔ اس کے برعکس رواں سال یعنی 2025 میں دیگر صوبائی حکومتوں کی جانب سے بھی امدادی قیمت پر گندم کی عدم خریداری کے نتائج کا اندازہ بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ لہذا یہ کیونکر ممکن ہے کہ 2025 میں حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں دیوالیہ ہونے والے کسان 2026 کے لیے مطلوبہ مقدار میں گندم کی فصل کاشت کر پائیں گے۔
کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کا کوئی فائدہ بھی ہے؟
اس میں شبہ نہیں کہ گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش کے نتیجے میں ایک سال کے دوران آٹے کی قیمت جو 130 روپے سے 150 روپے فی کلوگرام تھی کم ہو کر 70 سے 100 روپے فی کلوگرام ہو گئی ہے۔ جبکہ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا صارفی اعشاریہ بھی نیچے آ گیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ نون کی وفاقی اور صوبائی (پنجاب) حکومت نہ صرف مہنگائی میں کمی کا کریڈٹ لے رہی ہے بلکہ مطمئن ہے کہ اس کا شہری ووٹر آٹے کی قیمت میں کمی وجہ سے حکومت سے خوش ہے۔ تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ۔
کیا آٹے کی موجودہ قیمت برقرار رہے گی؟
ہم سب جانتے ہیں کہ مارکیٹ اکانومی میں کسی بھی چیز کی قیمت کا انحصار طلب و رسد کے توازن پر ہوتا ہے جبکہ اگر کسی ملک کا کسان دیوالیہ ہو گا تو گندم کی سپلائی کیونکر برقرار رہ پائے گی۔
یاد رہے کہ 2008 میں بھی ملک بھر میں آٹے کی شدید قلت تھی اور قیمتیں آسمان پر پہنچی ہوئی تھیں۔ اُس وقت کی حکومت کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سستے آٹے کے حصول کے لیے عوام کی لمبی قطاریں ہوتی تھیں۔ جبکہ 2008 میں سستے آٹے کے حصول کے لیے آنے والے غریب عوام پر پولیس کے لاٹھی چارج اور بھگدڑ سے اموات کی خبریں عام تھیں۔
اس کے برعکس 2008 میں جمہوریت کی بحالی پر پی پی پی کی نئی حکومت نے آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لیے گندم کی امدادی قیمت میں 50 % اضافے کا اعلان کر کے 625 روپے سے بڑھا کر 950 روپے فی من مقرر کی تھی۔ نتیجتاً، نہ صرف یہ کہ دو سال میں آٹے کا بحران ختم ہو گیا بلکہ 2010۔ 11 میں پاکستان گندم برآمد کرنے والا ملک بن گیا تھا۔
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے، کیا گندم کی امدادی قیمت پر سرکاری سطح پر خریداری کی بندش سے پاکستان میں دوبارہ وہی حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں اور خدانخواستہ مستقبل میں حکومت آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک مرتبہ پھر گندم کی درآمد پر قیمتی زرمبادلہ خرچ کر رہی ہوگی؟
تاہم اگر ایسا ہوا تو پاکستان قرضوں کے شیطانی چکر سے کبھی نہیں نکل پائے گا؟
- گندم کا بحران: اسباب، وجوہات اور خدشات - 26/04/2025
- ہم سب حیراں سرِ بازار - 06/12/2023
- ارشاد امین۔ تیں بِن سُنج ویڑھے یار فرید وو - 27/11/2023
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).