پاک بھارت ٹویٹر جنگ – مکمل کالم


Loading

پاک بھارت جنگ تو ابھی شروع نہیں ہوئی البتہ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر یہ جنگ چھِڑ چکی ہے اور اگر مجھ پر متعصب ہونے کا الزام نہ لگایا جائے (لگا بھی دیا جائے تو فرق نہیں پڑتا) تو میں کہوں گا کہ ٹویٹر والی جنگ پاکستان جیت چکا ہے۔ پاکستانی منچلے ایسی شاندار پھبتیاں کَس رہے ہیں کہ دیکھ کر آنجہانی خود ساختہ فیلڈ مارشل ایوب خان کی تقریر کا وہ جملہ یاد آ جاتا ہے کہ دشمن کو اندازہ نہیں کہ اُس نے کِس قوم کو لَلکارا ہے۔ ایک جملہ ملاحظہ فرمائیے : ”انڈیا میں کوئی خوبصورت بچہ پیدا ہو جائے تو اُس کا الزام بھی پاکستان پر لگا دیا جاتا ہے۔“ کیا اعلیٰ جُگت ہے، جی خوش ہو گیا۔

پچھلے دو چار دن سے ٹویٹر پر بھارتی جنونیوں نے جب دھمکیاں دینی شروع کیں تو جواب میں پاکستانیوں نے ایسی لا جواب جگتیں لگائیں کہ دل جھُوم اٹھا۔ ایک انڈین نے لکھا ”پاکستانیو، آج رات مت سونا۔“ جواب آیا ”کیوں، صبح نوکری پہ میری جگہ جناب کے والدِ گرامی جائیں گے!“ میں نے اِس جملے کا پنجابی سے اردو میں ترجمہ کر کے اسے شُستہ کر دیا ہے، قارئین پنجابی جملے کا تصور کر کے مزا لے سکتے ہیں۔

سُرخ ٹوپی مارکہ زید حامد بھی چٹکلوں کی اِس جنگ کی لپیٹ میں آ گئے۔ کسی نے پاکستانی فلم کا وہ کلپ ٹویٹر پر لگا دیا جس میں اداکار شان نماز پڑھ رہا ہے اور انڈین قسم کا دشمن اُس پر گولیاں چلا رہا ہے، مگر سجدے میں جانے کی وجہ سے ہر گولی اسے محض چھو کر گزر جاتی ہے۔ نیچے ایک ستم ظریف نے لکھا: ”زید حامد دہلی میں بھارتی ائر فورس کے حملوں سے اپنا بچاؤ کرتے ہوئے۔“ اسی طرح ایک بھارتی جنونی نے ٹویٹ کی: ”وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دیا جائے۔“ پاکستانی نے جواب دیا: ”میں نقشہ دوبارہ بنا لوں گا۔“ اور وہ کلپ تو کمال کا تھا جس میں انڈین پریڈ کے دوران موٹر سائیکلوں پر فوجی لٹکے ہوئے ہیں اور ایک فوجی اُن کے سروں پر بیٹھ کر دوربین سے چاروں طرف دیکھ رہا ہے۔ نیچے ایک پاکستانی نے لکھا: ”اِن مسخروں کو کشمیر میں دہشت گرد داخل ہوتے نظر نہیں آئے!“

میرٹ پر پرکھا جائے تو مزاح میں ہمارا پلہ شروع سے ہی بھاری رہا ہے لیکن اللہ کو جان دینی ہے، سچ بات کرنی چاہیے، جب سے انڈین ٹی وی چینلز میدان میں آئے ہیں تب سے اُن کے مزاح کا معیار بہتر ہوا ہے۔ نہیں، میں کپیل شرما شو یا اِس قسم کے دیگر پروگراموں کی بات نہیں کر رہا، میری مراد انڈین نیوز چینلز سے ہے، جیسے کہ ری پبلک ٹی وی اور اُس کے سٹار کامیڈین، ارنب گوسوامی۔ جب سے پہلگام میں دہشت گردی کا افسوس ناک واقعہ ہوا ہے، اُس دن سے میں بھارت کے نیوز چینلز دیکھ رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا واقعی یہ بھارت جیسے ملک کے ٹی وی چینلز ہیں، اُس بھارت کے، جس کی ترقی کی مثالیں ہم ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور جس کے بالی وُڈ سے ہم متاثر ہیں! اگر آپ مسلسل دو دن تک اِن نیوز چینلز اور اُن پر موجود گوسوامی جیسے اینکرز کی اچھل کود دیکھتے رہیں تو یقین کریں کہ تیسرے دن آپ کے دل سے ہندوستان کی ترقی کا رعب داب ختم ہو جائے گا۔ آپ کہیں گے کہ میں تو خواہ مخواہ ہندوستانیوں سے متاثر تھا، کم ازکم ہمارا میڈیا اِن سے ہزار درجے بہتر ہے جہاں اِس قسم کی غیر ذمہ دارانہ اور غیر سنجیدہ گفتگو نہیں ہوتی۔

انڈین نیوز چینلز پر پاکستان کی نفرت میں جو پروگرام نشر کیے جاتے ہیں اُن کا فارمیٹ مناظرے کی طرح ہوتا ہے، بلکہ مناظرے میں تو پھر دو فریق ہوتے ہیں، انڈین چینلز پر تو گوسوامی جیسے اکثر اکیلے ہی چنگھاڑ چنگھوڑ کر اپنے بِلوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔ ابھی ٹویٹر پر مسٹر گوسوامی کا ایک کلپ دیکھا جس میں موصوف نے سٹوڈیو میں نریندر مودی کی قد آدم تصویر لگائی ہوئی تھی اور ساتھ ہی چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ خدارا اِس بندے سے ڈرو، یہ تمہیں نہیں چھوڑے گا، یہ اِس وقت دنیا کے چند عظیم رہنماؤں میں سے ایک ہے، پھر موصوف کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے فوراً اپنا جملہ یہ کہہ کر درست کیا کہ یہی اِس وقت دنیا کا عظیم رہنما ہے۔ کئی منٹ تک مسٹر گوسوامی اپنے مودی جی کی تصویر دکھا دکھا کر ہمیں ڈراتے رہے اور میں ڈر بھی گیا کیونکہ مودی جی واقعی اُس تصویر میں خاصے ڈراؤنے لگ رہے تھے، وہ مودی جی کی تصویر کم اور بالی وُڈ کی کسی ہارر فلم کا اشتہار زیادہ لگ رہا تھا۔ ایک اور پروگرام میں ایسا ہی ایک اینکر حواس باختہ انداز میں دوڑتا ہوا آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آپ کو آج کی سب سے بڑی خبر (جیسے لاہور کے بازاروں میں لکھا ہوتا ہے ’واقعی بڑا شوارما 120 روپے‘ ) دے رہا ہوں، سنیے اور دیکھیے، پاکستان نے بھارت کو نیوکلیئر حملے کی دھمکی دے دی ہے۔ جس طرح اُس اینکر نے یہ خبر دی اُس سے مجھے وہ اینکر کم اور ’نیوکلیئر باندر‘ زیادہ لگا۔

اب خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سُن لے۔ ہر بات کا ایک موقع ہوتا ہے، ہم سارا سال پاکستان میں کیڑے نکالتے ہیں، سویلین بالادستی کا نوحہ پڑھتے ہیں، غیر آئینی اقدامات پر کُڑھتے ہیں، مشرقی پاکستان کی مثالیں دے کر تاریخ سے سبق سیکھنے کا درس دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ درست ہے، مگر فی الحال یہ باتیں کرنے کا موقع نہیں، اِس وقت موقع یہ دیکھنے کا ہے کہ اگر ہم اپنے لبرل دوستوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے 1999 میں ایٹمی دھماکے نہ کرتے تو آج کہاں کھڑے ہوتے؟ یہ بات اب ایک سے زیادہ مرتبہ ثابت ہو چکی ہے کہ اگر پاکستان نیوکلیئر طاقت نہ ہوتا تو انڈین میڈیا محض گیدڑ بھبکیاں نہ دے رہا ہوتا بلکہ مودی سرکار وہ سب کچھ کر گزرتی جس کی وہ گزشتہ چار دن سے دھمکیاں دے رہی ہے۔

ایک الزام یہ بھی بار بار لگایا جاتا ہے کہ ہندوستان تو بہت مرتبہ دوستی کا ہاتھ بڑھا چکا، اصل میں یہ پاکستان ہی ہے جو فساد کی جڑ ہے۔ چلیے اگر ایسی بات ہے تو انڈیا کے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے تعلقات دیکھ لیں جنہوں نے بھارت کے سامنے سرنگوں کر رکھا ہے لیکن اِس کے باوجود بھارت اُن کے ساتھ کس قسم کی بدمعاشی کرتا ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پاکستان کے سوا جنوبی ایشیا کی تمام ریاستیں عملاً بھارت کی اسی طرح تابع ہیں جس طرح وسطی ایشیا ممالک روس کے آگے بے بس۔ بس ہمارا اتنا ہی گلہ تھا۔

کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ یہ ہم کس قسم کے خطے میں پیدا ہو گئے ہیں جس کے مسائل اِس قدر گمبھیر، پیچیدہ اور خوفناک ہیں کہ ہماری تو کیا شاید آنے والی نسل کی زندگی میں بھی ختم نہ ہو سکیں۔ دنیا میں ہمسایہ ممالک نے اپنی اپنی تنظیمیں بنا رکھی ہیں، آپس میں دوستوں کی طرح رہتے ہیں، ایک دوسرے کے ملک میں بغیر روک ٹوک کے آتے جاتے ہیں، نوکریاں اور کاروبار کرتے ہیں، ہنستے کھیلتے اور موج مستی کرتے ہیں۔ اور ہم ہیں کہ ایک دوسرے کی زبان بھی سمجھتے ہیں، میل ملاپ اور رہن سہن بھی ایک جیسا ہے، کسی دوسرے ملک میں ملیں تو آپس میں شیر و شکر بھی ہو جاتے ہیں، مگر نہ جانے اِس خطے پر کیا نحوست چھائی ہے کہ ہر دو چار برس بعد ایٹمی جنگ کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔ پہلگام میں جو کچھ ہوا وہ دہشت گردی ہے اور بغیر کسی اگر مگر کے قابل مذمت ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کو اغوا کرنا اور اُس کے مسافروں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں سے بھون ڈالنا بد ترین دہشت گردی تھی۔ لیکن کیا اُس وقت بھارتی میڈیا نے اسی طرح افسوس کا اظہار کیا تھا جیسے ہم پاکستان میں پہلگام کے واقعے پر کر رہے ہیں؟ بس اتنا سا سوال ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 596 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments