پوپ کے جنازے میں غیر حاضری اور ایسٹر کی بے محل ضیافت
اٹلی ایک خوبصورت تاریخی ملک ہے۔ یہ اپنے شاندار فن تعمیر، لذیذ کھانوں، خوبصورت مناظر اور متحرک ثقافت کے لیے مشہور ہے۔ روم اٹلی کا دلکش دارالحکومت ہے، جو تقریباً تین ہزار سال کی تاریخ میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک زمانے میں یہ طاقتور رومی سلطنت کا مرکز ہوا کرتا تھا۔ آج یہ ایک زندہ عجائب گھر کی مانند ہے جو مشہور و قدیم کھنڈرات سے بھرا پڑا ہے۔ اپنی تاریخی عظمت کے علاوہ روم ایک جدید شہر ہے اور اسے ”ابدی شہر“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی خاص وجہ اس کی تاریخ اور لازوال خوبصورتی ہے۔
ویٹیکن سٹی دنیا کی سب سے چھوٹی آزاد ریاست ہے، جو اٹلی کے شہر روم کے اندر واقع ہے۔ یہ رومن کیتھولک چرچ کا روحانی اور انتظامی مرکز ہے، جس کے سربراہ پوپ ہوتے ہیں۔ اپنے چھوٹے سے حجم کے باوجود یہ بے پناہ مذہبی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہ 1929 میں ایک آزاد ریاست کے طور پر قائم کیا گیا اور ایک منفرد طرزِ حکمرانی کے ساتھ ساتھ ایک مذہبی حکومت کے طور پر کام کرتا ہے۔
کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا ”پوپ“ کا تخت یہی سلطنت ہے، جہاں سے وہ دنیا بھر کے مسیحیوں کی روحانی دیکھ بھال کرتے اور اُن کے لئے دعائیں نذر گزرانتے ہیں۔
طویل علالت کے بعد حالیہ پوپ فرانس لگ بھگ 12 سال اس روحانی منصب کی ذمہ داری نبھانے کے بعد 21 اپریل کو انتقال کر گئے ہیں۔ اُن کے انتقال کے موقع پر دنیا بھر میں اور خصوصاً رومن کیتھولک چرچ میں سوگ کی فضا قائم ہے اور زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان اس سوگ میں شامل ہیں۔ لاتعداد چاہنے والوں نے اُن کے جنازے میں شرکت کر کے اُنہیں خراجِ عقیدت پیش کیا اور الوداع کہا ہے۔
یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تھا کہ کسی مذہبی شخصیت کی آخری رسومات میں چار لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ پوپ کی آخری رسومات میں دنیا بھر سے 100 سے زائد ممالک کے رہنماؤں بشمول سینکڑوں سربراہانِ مملکت اور درجنوں بادشاہ شریک ہوئے۔ ان میں نمایاں طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون، برطانیہ کے شہزادہ ولیم، یوکرین کے صدر و دیگر عالمی قائدین بھی شامل تھے۔
بہرحال پاکستان میں عوامی سطح پر تو تمام مذاہب کے پیروکاروں نے اپنے اپنے اندازِ محبت میں پوپ فرانسس کو خراجِ عقیدت پیش کیا مگر سرکاری سطح پراس حوالے سے محض رسمی تعزیت اور اُن کے جنازے کے لئے دو رکنی غیر اہم وفد پر ہی اکتفا کیا گیا۔
پوپ فرانسس بے شک مسیحیوں کے پیشوا تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک آزاد ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ اُن کا احترام اور رُتبہ دنیا بھر کے ممالک کے سربراہان سے ہر گز کم نہیں، مگر افسوس کہ ہمارے حکمران اس اہم حوالے کو مذہبی نقطہ نظر سے دیکھتے رہے اور اُن کے جنازہ میں اعلیٰ حکومتی اور ریاستی نمائندگی اور شرکت سے اجتناب کیا گیا، حالانکہ پوپ کے جنازہ میں شرکت سے پاکستان کی جانب سے مذہبی ہم آہنگی، مذہبی رواداری اور دیگر مذاہب کے احترام کا واضح پیغام جاتا۔
اطلاعات ہیں کہ وزیر برائے سمندر پار پاکستانی اور انسانی وسائل کی ترقی چوہدری سالک حسین اور ان کے ہمراہ سینیٹر طاہر خلیل سندھو نے ویٹیکن میں پوپ فرانسس کے جنازے میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ بہرحال اس انتہائی اہم منصب پر فائز شخصیت کے جنازہ میں پاکستان کی جانب سے سرکاری سطح پر یہ انتہائی کمزور اور انتہائی غیراہم اور غیر سنجیدہ نمائندگی تھی۔
ماضی میں دیگر ممالک کے سربراہان کی وفات پر پاکستان کے سربراہِ مملکت یا وزیرِ اعظم اُن کی آخری رسومات میں شرکت کرتے رہے ہیں۔ نومبر 2004 میں شیخ زائد بن سلطان النہیان کی وفات پر صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے ابوظہبی میں ان کے جنازے میں شرکت کی۔ وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھی ان کے ہمراہ تھے۔
سعودی عرب کے بادشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود کی وفات جنوری 2015 میں ہوئی تو وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے ہمراہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے اُن کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی تھی۔
شیخ خلیفہ بن زائد النہیان کی مئی 2022 میں وفات کے موقع پر صدرِ پاکستان عارف علوی نے شاہی خاندان سے متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے جا کر تعزیت کی۔ جبکہ وزیراعظم شہباز شریف ابوظہبی تشریف لے گئے۔ علاوہ ازیں پاکستانی حکومت نے شیخ خلیفہ کے انتقال پر تین دن کے قومی سوگ کا اعلان بھی کیا تھا۔
دوسرا غور طلب نکتہ یہ ہے کہ ایک جانب دنیا بھر کے مسیحی پوپ فرانسس کی وفات پر افسردہ تھے اور اُن کا جسدِ خاکی ویٹیکن میں موجود تھا تو دوسری جانب وفاقی وزارتِ مذہبی امور نے اُن کے جنازے سے ایک دن قبل اسلام آباد میں ایسٹر کی ضیافت کا اہتمام کر ڈالا جسے مسیحی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
پوپ کی رحلت اور ان کے جنازے سے قبل عید کا جشن منانا یہ تاثر دیتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور مذہبی رہنما عالمی اخلاقیات سے واقف نہیں اور انہیں خبر نہیں کہ اُن کے اس عمل سے بین المذاہب ہم آہنگی کو نقصان اور ویٹیکن کو غلط پیغام جانے کا اندیشہ ہے۔ نیز ایسے وقت میں وزارتِ مذہبی امور کی ایسی ”کارروائی“ متعدد سوالات اٹھاتی ہے کہ سفارتی بیانات اور اعمال کے درمیان ایسا تضاد کیوں ہے؟ کس کے کہنے پر یا کس کو خؤش کرنے کے لئے ایسٹر ضیافت کی بے محل ضیافت کا اہتمام کیا گیا؟
درجہ بالا دونوں نکات نے عالمی سطح پر پاکستان کی سُبکی میں اضافہ کیا ہے۔ لہٰذا لازم ہے کہ ملکی مفاد کے تمام فیصلے سیاست سے بالا تر ہو کر اور مذہب کی ٹوپی اُتار کر کیے جائیں۔
- عالی جاہ! دُہائی ہے، دُہائی - 20/05/2025
- وزیرِاعظم کی مُودی کو للکار اور کاشف مسیح کا نِیلو نِیل بدن - 16/05/2025
- جنازے لوٹ کے گھر نہیں آتے - 14/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).