گُلقند باجی، کِسان اور جنگ کا ٹلتا ہوا خطرہ


Loading

کہتے ہیں دور بہت دور سمندر میں ایک بہت ہی خوبصورت سا جزیرہ ہوتا تھا جہاں رنگ برنگے کھانوں کا شوقین ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا جسے عوام پیار سے کدو میاں کہتے تھے۔ بادشاہ جب عمررسیدہ ہو گیا تو اس نے اپنی بیٹی کو جزیرے کی حکمران بنوا دیا۔ زرق برق لشکارے مارتے کپڑوں کی شوقین یہ ملکہ عوام میں گُلقند باجی کے نام سے مشہور تھی۔ گلقند باجی بڑی حد تک خوشامد پسند واقع ہوئی تھیں۔ اس کام کے لیے انھوں نے اپنے اردگرد ”پیشہ ور میراثی“ رکھے ہوئے تھے جس سے نقصان یہ ہوا کہ وہ گلقند باجی سے غلط فیصلے بھی کرا لیتے تھے جن کے مضمرات کا گلقند باجی کو ادراک نہ تھا۔

اگرچہ گلقند باجی نے کئی ایسے اقدامات بھی کیے جس سے رعایا میں ان کی واہ واہ ہو گئی لیکن ان سے کچھ غلط فیصلے بھی سرزد ہوئے۔ ایک تو یہ کہ لیموں پھل کو اس کی کھٹاس کی سزا دینے کے لیے ایک ماہر کاریگر کی مدد سے بوری میں بند کر کے پتھر سے بنی ایک عمارت کے تہ خانہ میں قید کر دیا گیا۔ جزیرے کے عوام کا ایک حصّہ سمندر سے آنے والی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا میں باغ میں درختوں کے نیچے بچھائے گئے ساگوان کی لکڑی کے بنچوں پہ بیٹھ کر لنچ کرتے وقت صنوبر کی لکڑی سے بنے میز پہ صندل کی لکڑی سے بنی رکابی میں رکھے لیموں کی موجودگی کو اس لیے پسند کرتا تھا کہ انھیں اس کی مہک اچھی لگتی تھی۔ لیموں سے دوری اس کے چاہنے والوں کو ناگوار گزر رہی تھی۔

چونکہ جزیرے کی معیشت کا بڑا انحصار وہاں چیری، بادام اور میووں کی پیداوار پہ تھا تو ان پھلوں اور میووں کی فصلیں اگانے والے کسانوں کے معاملات کو دیکھنے کے لیے ”مراثیوں“ کو ہی نگران مقرر کر دیا گیا جنہوں نے ایسی ایسی کسان دشمن پالیسیاں متعارف کروائیں کہ کسانوں کی بڑی تعداد گلقند باجی سے متنفر ہو گئی اور کسانوں میں باجی کا ووٹ بنک کم ہو گیا۔

تیسرا یہ کہ ایک بار گلقند باجی کے محل کے شاہی باورچی خانہ میں باجی کے ابّا جی کی پسندیدہ پلیٹیں ٹوٹ گئیں تو بجائے اس کے کہ نئی پلیٹیں جزیرے کی مقامی مارکیٹ سے خریدی جاتیں باجی نے اپنے ابّا جی کو نیا ڈنر سیٹ خریدنے کے لیے لمبے فاصلے پہ واقع ایک دولتمند اور بڑے جزیرے کے سفر پہ بھجوا دیا۔ باجی کے اس عمل کو مقامی عوام میں ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا۔

احباب! تین مئی 2025 کی شام بہاول پور شہر کے علاقوں میلے والی گلی، شاہدرہ اور فرید گیٹ وغیرہ میں ریڑھیوں ٹھیلوں پہ آواز لگ رہی تھی ”خشک پیاز سو روپے کا پانچ کلو۔ ٹماٹر سو روپے کا پانچ کلو“ ۔ یعنی ایک کلو پیاز صرف بیس روپے کا۔ شہری عوام کے لیے بہت اچھا ہو گیا کہ ان کی ایک تعداد پورے سال کے لیے پیاز سستے داموں خرید رہی تھی۔

امریکہ، سیکنڈے نیویا، جاپان اور یورپ کے کچھ ممالک میں کئی دہائیوں سے یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ حکومتیں کسان سے فصلیں معقول قیمت پہ خرید کر شہری عوام کو بہت سستے داموں مہیا کرتی ہیں یعنی کسان کی بھی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی مناسب قیمت نہ ملنے سے اس کی دل شکنی نہ ہو اور یہ نہ ہو کہ وہ ہمت ہار کر آئندہ وہ فصل کاشت ہی نہ کرے اور ساتھ ساتھ شہری عوام کو بھی کم قیمت پہ زرعی پروڈکٹس مہیا کر کے انھیں بھی سکون میں رکھا جائے۔

اس کے لیے جو ماڈل کئی دہائیوں سے ان ممالک میں چلا آ رہا ہے وہ کسانوں کو سبسڈی دینے کا بھی ہے لیکن پاکستان اور انڈیا میں کسان معیشت جو زبوں حالی دیکھ رہی ہے ایسا لگتا ہے یہاں امریکی، سیکنڈے نیوین اور جاپانی ماڈلز اپنانے کی بجائے بس اکیلے کسان کو ہی رگڑا دے کر باقی عوام میں واہ واہ سمیٹی جائے والی پالیسی اپنائی جا رہی ہے۔ جنوبی ایشیا کی حکومتوں کو اپنی اس طرح کی پالیسیوں پہ نظر ثانی کرنا ہو گی ورنہ مستقبل میں مقامی زرعی معیشت پہ اس کے بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

انڈیا اور پاکستان کی زرعی معیشت ہو یا صنعتی معیشت دونوں ٹی وی چینلز کی طرف سے جنگی جنون پیدا کرنے والی پروپیگنڈا مہم سے متاثر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ ریٹنگ کے چکر میں یہ ٹی وی چینلز دونوں ممالک کے درمیان جنگ کروانے پہ تلے ہوئے ہیں۔ تاہم اکبر شیخ اکبر کا مشاہدہ ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان متوقع جنگ کا خطرہ ٹل چکا ہے یعنی مستقبل قریب میں یہ جنگ ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ اس کی مختلف وجوہات میں سے پہلی وجہ یہ کہ بھارت میں مرکزی حکومت نے ملک میں نئی مردم شماری کروانے کے احکامات جاری کر دیے ہیں جس کا مطلب ہے بھارتی حکومت جنگ شروع کرنے کے ارادے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

دوسری وجہ یہ کہ چین اور امریکہ کے درمیان جو ٹیرف جنگ شروع ہوئی ہے تو امریکی حکومت اپنی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مینوفیکچرنگ کاروبار کو چین سے نکال کر بھارت، پاکستان اور متحدہ عرب امارات میں شفٹ کرنا چاہتی ہے لہذا ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ نے اندر خانے پاکستان اور انڈیا دونوں ممالک کو جنگ سے دور رہنے کا کہا ہے۔ جنگ کے ٹل جانے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ امریکی ٹیرف کے نافذ ہو جانے کے بعد چین اپنی پروڈکٹس کو دنیا کی سب سے بڑی کنزیومر مارکیٹ رکھنے والے بھارت اور پاکستان میں کھپانا چاہتا ہے جبکہ جنگ کی صورت میں اس کی کھربوں ڈالرز کی تیار پروڈکٹس اس کی فیکٹریوں کے اندر ہی کاٹھ کباڑ کا ڈھیر بن کر رہ جائیں گی لہذا چین نے بھی دونوں ممالک کو عندیہ دیا ہے کہ جنگ سے دور رہیں۔

راقم کی نظر میں چوتھی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جنوبی ایشیا کے دو ممالک پاکستان اور انڈیا میں مختلف میگا پراجیکٹس میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری شروع کر چکے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ جنگ کی صورت میں ان کی یہ سرمایہ کاری ڈوب جائے۔ پانچویں وجہ یہ ہے کہ روس کی ولادیمیر پیوٹن حکومت انڈیا اور پاکستان کو روسی معاشی بلاک میں دیکھنا چاہتی ہے لہذا وہ بھی ان دونوں ممالک پہ دباؤ ڈال رہی ہے کہ جنگ نہ لڑنا۔

اچھا ہوا کہ جنگ کا خطرہ ٹل گیا لیکن سوال یہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کی بحالی کے حوالے سے کیا ہو گا؟ راقم کا مشورہ ہے کہ عالمی طاقتوں کی بیٹھک کروا کر سندھ طاس معاہدہ کو نئے سرے سے تشکیل دیا جائے جس میں راوی اور ستلج دریاؤں کو بھی بحال کروا لیا جائے۔ صوبہ سندھ اور اس میں بسنے والے عوام ہمیں بہت پیارے ہیں۔ ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ سندھ دریا سے نئی نہریں نہ نکالی جائیں۔ چلیں ایسا کریں راوی اور ستلج دریا بحال کروا کر وہاں سے نئی نہریں نکال لی جائیں۔

ستلج دریا سے ایک نہر قصور اوکاڑہ کے لیے، دوسری نہر بہاولنگر کے لیے، تیسری نہر چولستان کے لیے، چوتھی نہر بہاول پور کی پہلے سے موجود زرعی بیلٹ کے لیے اور پانچویں نہر رحیم یار خان کے لیے نکالی جائے۔ راوی سے بھی نہریں نکال کر اپر پنجاب اور پوٹھوہار کو پانی مہیا کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments