کرکٹ، مودی سرکار کا اگلا نشانہ؟ گواسکر کا متنازع بیان اور ایشیا کپ
ابھی جاوید اختر کے متنازع بیان کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ سنیل گواسکر ایک جانب دارانہ بیان کے ساتھ میدان میں کود گئے، اور گودی میڈیا کے جنگی ہیجان کو مزید ایندھن فراہم کر دیا۔
اسپورٹس اور آرٹ ؛ یہ دو ایسے ذرائع ہیں، جو دلوں کو قریب لاتے ہیں، کدورتیں مٹاتے ہیں، اور مخالفین کو ایک کر دیتے ہیں۔ برصغیر کے عوام اچھی کرکٹ کے شائق ہیں، یہ آرٹ کو سراہتے ہیں، اور ادیب اور فن کاروں کی عزت کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اگر نصرت فتح علی خان کو انڈیا میں پذیرائی ملی، تو دلیپ کمار صاحب کو پاکستانیوں نے سر کا تاج بنایا، اور اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے نوازا۔ اگر وسیم اور شعیب اختر بھارت میں مقبول ہوئے، تو سچن ٹنڈولکر اور دھونی کو اِدھر ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا۔
ویرات کوہلی کی پاکستان میں مقبولیت کا اعتراف تو خود پاکستان کے دورے پر آئے بھارتی صحافی، وکرانت گپتا نے بھی کیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب بھارتی کرکٹ بورڈ انٹرنیشنل کرکٹ میں پاکستان کو تنہا کرنے کے درپے ہے، ویرات کی مقبولیت پاکستان میں ہنوز قائم ہے۔ یہ پاکستانیوں کی کشادہ دلی کی ایک مثال ہے۔
پاکستان کی جانب سے حالیہ برسوں میں جن ہندوستانی فن کاروں کو بے پناہ عزت دی گئی، ان میں گلزار اور جاوید اختر کا نام نمایاں ہے کہ ان صاحبان کا ایک مستند حوالہ ادب بھی ہے۔ البتہ ان دونوں فن کاروں میں ایک فرق واضح ہے۔ ایک جانب جہاں گلزار صاحب نے سیاسی معاملات پر متوازن اور غیر متنازع موقف اختیار کرنے کو ترجیح دی، وہیں جاوید اختر صاحب نے پاپولر بیانیہ کو آگے بڑھایا۔
بدقسمتی سے اب سنیل گواسکر بھی اس ریس میں کود گئے ہیں۔ ویسے جب پاکستانی کھلاڑیوں کے آئی پی ایل میں کھیلنے پر پابندی عاید ہوئی تھی، تب بھی ان کا رویہ اور اپروچ مایوس کن تھی، اس کے برعکس کپل دیو نے فراخ دلی اور بردباری کا ثبوت دیا تھا۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ سنیل گواسکر نے پاپولر بیانیہ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے تازہ بیان میں نہ صرف پاکستان کی ایشیا کپ سے بے دخلی کی پیش گوئی کی ہے، بلکہ ایشین کرکٹ کونسل کے خاتمے کی نوید بھی سنا دی۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی حالات کے پیش نظر شاید پاکستان ایشیا کپ میں حصہ نہ لے۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر پاکستان ایشیا کپ میں شرکت سے انکار کرتا ہے، اور بھارت بھی اس میں حصہ نہیں لیتا، تو ایشین کرکٹ کونسل (ACC) کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
سنیل گواسکر نہ صرف بھارتی کرکٹ کی با اثر شخصیت ہیں، بلکہ سرکار کے قریب بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ اور ان کے اس بیان میں مستقبل کی ایشیائی کرکٹ کی منظرکشی مضمر ہے۔ اگر یہ پیش گوئی حقیقت بن گئی، اور پاکستان کو باہر کرنے کے لیے ایشیا کپ کو معطل کر دیا گیا، تو یہ سراسر آمرانہ اقدام ہو گا۔
اِس اقدام سے بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی تنہائی میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کو اسپانسر شپ، براڈکاسٹنگ اور دیگر مالی معاملات میں نقصان کا خدشہ ہے۔ ساتھ ہی کھلاڑیوں کا مورال بھی ڈاؤن ہو گا۔
اگر جاوید اختر صاحب کے متنازع بیان ہی کا ڈھب اختیار کیا جائے، توہم کہہ سکتے ہیں کہ پاک بھارت کرکٹ میں ایک عرصے سے ”ون وے ٹریفک“ کا معاملہ رہا ہے۔ پاکستان کے مثبت رویے کا جواب ہمیشہ منفی آیا۔
یاد رہے کہ بھارت ایک عرصے سے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کے معاملے میں حیلے بہانوں سے کام لے رہا ہے۔ گو پاکستان کی جانب سے بھارت کے ساتھ کسی بھی میدان میں کرکٹ کھیلنے پر ہمیشہ رضامندی ظاہر کی گئی، مگر بھارت سرکار، بالخصوص بی جے پی کی اڑیل پالیسیوں نے کرکٹ جیسے کھیل کا حسن گہنا دیا، اور پاک بھارت مقابلہ، جس کا موازنہ دنیا کے کسی بھی بڑے ایونٹ سے کیا جاسکتا ہے، اپنا سحر کھو بیٹھا۔ ادھر کئی چھوٹے کرکٹ بورڈز بھارت کی جھولی میں جا گرے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ کی خوشنودی کے لیے انھوں نے پاکستان کرکٹ سے فاصلہ اختیار کر لیا۔
یہ امر افسوس ناک ہے کہ کرکٹ جیسا کھیل، جو دلوں کو قریب لاتا ہے، آج سیاست کی نذر ہو رہا ہے۔ کرکٹ کو نفرت کی دیواروں کے بجائے محبت کا پل بننا چاہیے۔ بھارت انٹرنیشنل کرکٹ کا ایک بڑا کھلاڑی ہے، اس کی ذمے داری ہے کہ وہ کھیل کو سیاسی تنازعات سے پاک رکھے۔ سنیل گواسکر جیسے سینئر کرکٹرز سے بھی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ایسی رائے دینے سے گریز کریں، جو موجودہ سیاسی تناؤ کو ہوا دے۔ خواہش تو ہماری یہ ہے کہ مستقبل میں کرکٹ کو سفارتی ہتھیار بنانے کے بجائے دوستی اور فروغِ امن کا ذریعہ بنایا جائے گا، لیکن گودی میڈیا کی ہیجان انگیزی کے پیش نظر اس خواہش کے پورے ہونے کا امکان کم ہی ہے۔
- دس مئی کی صبح، بھارتی شکست اور ڈونلڈ ٹرمپ - 17/05/2025
- کرکٹ، مودی سرکار کا اگلا نشانہ؟ گواسکر کا متنازع بیان اور ایشیا کپ - 06/05/2025
- مودی سرکار کی بوکھلاہٹ، جاوید اختر اور گودی میڈیا - 04/05/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).