”باقیات اقبال“ از ڈاکٹر سید تقی عابدی، کا تنقیدی جائزہ


Loading

dr saima iqbal

 

اقبال کے ابتدائی دور ہی سے ان کے چاہنے والے ان کے کلام کو ایک قیمتی اثاثہ سمجھتے ہوئے اپنی بیاضوں اور ذاتی یادداشتوں میں محفوظ کرتے رہے۔ یہ عمل دراصل اقبال کی شاعری سے پیدا ہونے والی والہانہ عقیدت کا اظہار تھا۔ ابتدائی کلام، جو اکثر غیر مطبوعہ یا متروک رہ جاتا تھا، ان محبت کرنے والوں کے ہاتھوں محفوظ ہوتا رہا، جس سے اقبال کے تخلیقی سفر کی کئی چھپی ہوئی پرتیں سامنے آتی ہیں۔

وقت کے ساتھ ساتھ ان منتشر اور غیر رسمی ذرائع سے جمع شدہ کلام کو مرتب کر کے ”باقیاتِ اقبال“ کے نام سے آٹھ مجموعے شائع کیے جا چکے ہیں۔ یہ مجموعے اقبال کے فکر، فن، اور تخلیقی رویوں کا ایسا ریکارڈ پیش کرتے ہیں جو ان کے رسمی کلام اور قدرے ذاتی اور نادر جہت کو اجاگر کرتا ہے۔

”باقیاتِ اقبال“ کے یہ مجموعے نہ صرف اقبال شناسوں کے لیے تحقیقی اہمیت رکھتے ہیں بلکہ قاری کو اقبال کی فکری دنیا میں مزید گہرائی سے جھانکنے کا موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ ان میں بعض ایسے موضوعات اور شعری تجربے بھی محفوظ ہیں جو بعد کے اقبال کی فکری پختگی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی کی مرتب کردہ ”باقیاتِ اقبال (کامل)“ اقبال کے غیر مطبوعہ اور متروک کلام کا ایسا جامع، مستند اور محققانہ مجموعہ ہے جو اپنی نوعیت میں اولین مقام رکھتا ہے۔ یہ مجموعہ اس لحاظ سے کامل ہے کہ اس میں نہ صرف اقبال کے اردو کلام کی گم شدہ اور نادر تخلیقات کو جمع کیا گیا ہے بلکہ ان کے فارسی کلام کا سلیس اردو ترجمہ بھی پیش کیا گیا ہے، جس سے عام قاری اور محقق دونوں مستفید ہو سکتے ہیں۔

ہر غزل، نظم، رباعی، قطعہ، مثنوی اور انفرادی اشعار کے ساتھ باقاعدہ حوالہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یہ حوالے رسالوں، درسی کتابوں، بیاضوں اور دیگر تحقیقی ماخذات سے لیے گئے ہیں، جن کی مکمل تحقیق کے بعد صحت و سند کو یقینی بنایا گیا ہے۔

”باقیاتِ اقبال (کامل)“ اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ اقبال کی شاعری کے ابتدائی مراحل، فکری ارتقا اور فنی تجربات کی ایسی جھلکیاں پیش کرتی ہے جو ان کے متداوَل کلام سے اوجھل رہ گئی تھیں۔ تقی عابدی نے اسے ایک ایسا دستاویزی سرمایہ بنا دیا ہے جو اقبال کے تخلیقی سفر کے ہر پہلو کو روشنی میں لاتا ہے اور قاری کو اقبال کی شاعری کے پس منظر اور پیش منظر کا بھرپور احساس عطا کرتا ہے۔

اقبال کی شاعری اور فکر کا ایک بنیادی مسئلہ یہ رہا کہ انہیں زیادہ تر فلسفی اور مفکر کے طور پر دیکھا گیا، جس نے ان کے اندر تخلیقات کے انتخاب اور ترتیب میں غیر معمولی احتیاط پیدا کر دی۔ نتیجتاً اقبال نے اپنے ابتدائی دور کا بہت سا کلام متروک یا تلف کر دیا۔ ڈاکٹر سید تقی عابدی کے مطابق 1907 ء تک اقبال کی کوئی منظم بیاض دستیاب نہیں، اور بعض ابتدائی مسودات اقبال نے خود ضائع کر دیے تاکہ صرف معیاری کلام محفوظ رہے۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی اقبال کی باقیات کے جمع و تدوین کے جواز پر ایک مضبوط علمی موقف پیش کرتے ہیں۔ وہ اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ جب اقبال نے خود اپنے بعض اشعار کو متروک کر دیا اور کلیات میں شامل نہ کیا تو پھر ان اشعار کو شائع کرنا کس حد تک درست ہے۔

تقی عابدی کی دلیل یہ ہے کہ تخلیق، جب ایک بار معرضِ وجود میں آ جائے اور عوام الناس یا خواص کی نظر میں آ جائے، تو وہ محض خالق کی ملکیت نہیں رہتی، بلکہ ادبی ورثہ بن جاتی ہے، جس سے ہر صاحبِ ذوق اور طالبِ علم کو استفادے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہی اصول میر تقی میر اور غالب کے کلام میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ؛ اگرچہ غالب نے اپنے انتخاب میں احتیاط برتی، لیکن میر کے ہاں انتخاب کی سختی نظر نہیں آتی۔ اقبال کے بارے میں تقی صاحب کا کہنا ہے کہ ایسی کوئی ٹھوس تحریری شہادت موجود نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ انہوں نے اپنی باقیات کے اکٹھا کیے جانے یا استفادہ کیے جانے کی مخالفت کی ہو۔

چنانچہ اقبال کے ابتدائی اور متروک کلام کو مرتب کر کے پیش کرنا دراصل ان کے فکری سفر، تخلیقی ارتقا اور جذباتی کیفیات کا مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ تقی عابدی کی یہ کاوش اقبال کے فن کی پوشیدہ پرتوں کو وا کرتی ہے اور قاری کو ایک مکمل تر اور حقیقت پسندانہ تصویر پیش کرتی ہے۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی ”باقیاتِ اقبال“ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ اقبال کا کچھ ابتدائی کلام ایسا بھی تھا جو اقبال کی براہِ راست نظر سے اوجھل رہا۔ اگر وہ کلام ان کے سامنے آ جاتا تو ممکن ہے کہ وہ اسے خود بھی اپنے کلیات یا متداول کلام میں شامل کر لیتے۔ یہ اشعار یا تخلیقات محض خام مواد نہ تھے بلکہ معیاری، مکمل اور فنی لحاظ سے کسی سقم سے پاک تھے۔ یہ کلام بیاضوں، رسائل یا دیگر ذرائع سے محفوظ ہو چکا تھا اور اپنے وقت میں معتبر حلقوں میں پڑھا اور سراہا بھی جا چکا تھا۔

ادبی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک اہم دلیل ہے کہ باقیات میں شامل کلام محض رد شدہ یا ناقص مواد نہیں تھا، بلکہ بعض اوقات شاعر کی غفلت، یادداشت یا حالات کی بنا پر ایسے عمدہ نمونے ان کے متداول مجموعوں کا حصہ نہ بن سکے۔ تقی عابدی کی تحقیق اسی پوشیدہ سرمایہ کو منظرِ عام پر لاتی ہے، جو اقبال کی تخلیقی وسعت اور فکری جہات کو مزید گہرائی سے سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ یوں ”باقیاتِ اقبال“ نہ صرف اقبال شناسوں کے لیے ایک قیمتی ماخذ ہے بلکہ اردو ادب میں تحقیق و تنقید کے نئے زاویے پیدا کرتی ہے۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی ”باقیاتِ اقبال“ کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے اس انسانی اور نجی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ علامہ اقبال کی ذاتی زندگی میں کئی ایسے عوامل موجود تھے جو ان کی تخلیقی مصروفیات اور کلام کی نظرثانی کے عمل میں رکاوٹ بنے۔ کنبہ پروری کی بھاری ذمہ داریاں، ازدواجی زندگی کی الجھنیں اور مختلف جسمانی عوارض نے اقبال کو اپنے کلام پر از سرِ نو تنقیدی نگاہ ڈالنے کا موقع کم ہی فراہم کیا۔ یہی وہ اسباب تھے جن کی وجہ سے کئی عمدہ تخلیقات اور اشعار ان کے متداول مجموعوں میں شامل نہ ہو سکے۔

تقی عابدی کی کاوش ”باقیاتِ اقبال“ دراصل انھی بکھری ہوئی ادبی جھلکیوں کو ایک مربوط شکل میں جمع کرنے کی ایک سنجیدہ علمی کوشش ہے۔ یہ مجموعہ اقبال کے فکری سفر کے ان گوشوں کو آشکار کرتا ہے جو اقبال کی زندگی کی پیچیدگیوں میں دب کر پس منظر میں چلے گئے تھے۔ اب یہ اشعار تحقیق و تنقید کے لیے دستیاب ہو کر اقبال شناسی کو ایک نیا افق عطا کرتے ہیں اور قاری کو اقبال کے تخلیقی عمل کو مکمل تر انداز میں سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی اپنی کتاب ”باقیاتِ اقبال“ میں ایک نہایت اہم پہلو کی نشان دہی کرتے ہیں کہ علامہ اقبال نے بچوں کے لیے بھی متعدد نظمیں تخلیق کی تھیں۔ ان نظموں پر براہ راست اقبال کا نام درج نہیں کیا گیا کیونکہ اقبال نے ان نظموں کی تخلیق کے عوض مالی معاوضہ وصول کیا تھا۔ یہ نظمیں اُس دور کی پانچویں، چھٹی اور ساتویں جماعت کی درسی کتابوں میں شامل تھیں اور بچوں کے لیے آسان، پر اثر اور سبق آموز اسلوب میں لکھی گئی تھیں۔

ادبی لحاظ سے یہ ایک نہایت بلیغ حقیقت ہے کہ اقبال کی یہ کم معروف تخلیقات ان کے ہمہ گیر تخلیقی جوہر کا حصہ ہیں۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے بڑی محنت اور تحقیق سے ان نظموں کو بھی ”باقیاتِ اقبال“ میں شامل کر کے نہ صرف اقبال کی ادبی خدمات کا دائرہ وسیع کر دیا بلکہ اقبال کی تخلیقی ہمدردی اور تعلیمی فکر کے ایک اور پہلو کو بھی اجاگر کر دیا۔ یہ نظمیں اقبال کے ابتدائی کلام کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیمی وژن اور فکری وسعت کو سمجھنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی نے ”باقیاتِ اقبال“ کے آخر میں نہایت سلیقے اور تحقیق کے ساتھ ماخذات کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ ماخذات ان تمام کتابوں، رسالوں، بیاضوں، درسی کتب، مخطوطات اور نادر دستاویزات پر مشتمل ہیں، جن سے انہوں نے اقبال کے منتشر اور کم یاب کلام کو جمع کیا۔ تقی عابدی کی یہ علمی دیانت اور تحقیقاتی محنت اس مجموعے کو ایک مستند، معتبر اور مکمل حوالہ جاتی کتاب بناتی ہے۔

ماخذات کی یہ فہرست نہ صرف ان کے تحقیقی معیار کی گواہ ہے بلکہ آئندہ اقبال شناسوں، محققین اور طالب علموں کے لیے بھی ایک روشن رہنما ہے۔ اس تفصیلی حوالہ جاتی کام کی بدولت ”باقیاتِ اقبال“ کو اقبال کے غیر مدوَّن کلام کا سب سے مکمل اور مستند ذخیرہ سمجھا جاتا ہے۔ یوں سید تقی عابدی نے اقبال فہمی کے سفر کو مزید آسان اور مضبوط بنا دیا ہے۔

تقی عابدی کی نظر میں، اقبال کے علمی و فکری ورثے کو مکمل طور پر محفوظ کرنے کے لیے آج اقبال میوزیم اور اقبال اکادمی میں موجود تمام بیاضوں، مسودات، اور دستیاب مدارک کو ڈیجیٹلائز کرنا اشد ضروری ہے۔ اگر ان تاریخی مواد کو ڈیجیٹل صورت میں اقبال شناسوں اور محققین کے لیے مہیا کر دیا جائے تو نہ صرف اقبال کی تخلیقی نفسیات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملے گی بلکہ اقبال شناسی کا دائرہ مزید وسعت اور گہرائی اختیار کر سکے گا۔ یہ کام دراصل اقبال کی فکری جہات اور تخلیقی محرکات کو محفوظ کرنے کا ایک جدید تقاضا ہے، جس کی طرف تقی عابدی نے بروقت توجہ دلائی ہے۔

ڈاکٹر سید تقی عابدی کی ”باقیاتِ اقبال“ ایک بے مثال تحقیقی کارنامہ ہے، جو اقبال کے فکری، تخلیقی اور روحانی جہان میں قاری کو ہم سفر بننے کا موقع فراہم کرتی ہے ڈاکٹر سید تقی عابدی کی ”باقیاتِ اقبال“ محض ایک مجموعہ نہیں بلکہ اقبال سے عشق کا اظہار ہے۔ یہ کتاب قاری کو اقبال کی تخلیقی دنیا میں اس طرح داخل کرتی ہے کہ وہ ہر شعر کے پس منظر اور اس کی لطیف معنویت کو محسوس کر سکے۔ تقی نے محبت، دیانت اور تحقیق کے امتزاج سے وہ کلام سامنے لایا ہے جو وقت کی گرد میں دب چکا تھا، لیکن اپنی معنوی تازگی اور فکری گہرائی آج بھی دلوں کو چھو لیتا ہے۔ اقبال کی متروکات کو محفوظ کر کے انہوں نے نہ صرف ایک امانت کو سنبھالا بلکہ نئی نسل کو اقبال کے ابتدائی تخلیقی سفر کی جھلک بھی دکھائی۔ ”باقیاتِ اقبال“ ایک ایسی ادبی سوغات ہے جو قاری کو فکری بالیدگی، روحانی سرشاری اور تخلیقی تسکین فراہم کرتی ہے۔

”باقیاتِ اقبال“ نہ صرف اقبال کے کلام کا ایک اہم ذخیرہ ہے، بلکہ یہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے، جو اقبال کی تخلیقی روح اور فکری جدوجہد کو ہمیشہ کے لیے محفوظ اور زندہ رکھے گا، اور اقبال شناسی کے سفر کو نئی روشنی اور نئی راہیں دکھائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments