خواب، محبت اور زندگی 18


Loading

یہاں مجھے اعتراف کرنے دیجئے کہ ابتدائی عمر کے اسی طرح کے واقعات نے مجھے جارحیت کی بجائے مصالحت کرنا سکھایا اور میں ایک کسی کو بھی ناراض نہ کرنے والی ”پیپل پلیزر“ شخصیت میں ڈھل گئی۔ ایک دس سال کی بچی زندگی کے دکھ دیکھ کر اپنے پیاروں کو مزید دکھ نہیں دینا چاہتی تھی۔ بعد میں جب میرے اندر چھپی ہوئی بغاوت کا طوفان امڈ کر باہر آیا تو میں بغاوت اور بچپن میں سیکھی ہوئی ملنساری اور شائستگی کے درمیان پنڈولم کی طرح ڈولتی رہتی تھی۔ یوں میری اصلی باغی شخصیت کچلی گئی۔ شاید زندگی اسی کا نام ہے۔ زندگی کی بازی میں ہم سب اپنے پتے مختلف انداز میں کھیلتے ہیں۔

”مرجھائے ہوئے پھول“

ان دنوں کالونی کے کلب میں بیگم زیب النسا حمیداللہ کا رسالہ ’مرر‘ آتا تھا جس میں سماجی تقریبات کی تصاویر ہر کوئی بہت شوق سے دیکھتا تھا۔ یہ پاکستان کا پہلا آب دار کاغذ پر چھپنے والا سماجی رسالہ تھا۔ میں اپنے نو عمر قارئین سے کہوں گی کہ وہ وکی پیڈیا پر بیگم زیب النسا حمیداللہ کے دیگر کارناموں کے بارے میں ضرور پڑھیں۔ اس ماہ کے مرر کے شمارے میں نئے شادی شدہ جوڑوں کی تصاویر کے لئے مخصوص صفحے پر ابی اور لیڈی ڈاکٹر کی تصویر بھی شائع ہوئی تھی جس پر کسی دل جلے ممبر نے سیاہ روشنائی والے قلم سے انگریزی میں ”مرجھائے ہوئے پھول“ لکھ دیا تھا۔

ظاہر ہے سب کی ہمدردیاں امی کے ساتھ تھیں۔ سننے میں آیا کہ لیڈی ڈاکٹر کی بہن سب کو وہ رسالہ دکھاتی پھری تھی۔ انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے اس دور میں کیا کچھ شائع نہیں ہوتا لیکن اس زمانے میں اخبارات و جرائد میں چھپنے والے الفاظ اور تصاویر کی کیا اہمیت تھی موجودہ نسل اس کا اندازہ نہیں لگا سکتی۔ اس تصویر کو دیکھنا امی اور ہم بچوں کے لئے بے حد تکلیف دہ تھا لیکن بعد میں اس پر جو کمنٹ کیا گیا، اس سے امی کو تسلی ضرور ہوئی کہ کسی نے بھی اس شادی کو پسند نہیں کیا تھا۔ مگر ابی ان باتوں کی پروا کرنے والے کہاں تھے۔ اسی سال کلب کے سالانہ بلیرڈ کے سنگل اور ڈبل مقابلوں میں ابی نے پہلا انعام جیتا اور دونوں انعام وصول کرنے کے بعد کہا کہ اس دہری جیت کی وجہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ دو بیویوں کی دعائیں ہیں۔

شاید ابی یہ سمجھتے تھے کہ دونوں خواتین اور بچے اس نئی صورت حال کو خوش دلی سے قبول کر لیں گے اور مل جل کر رہیں گے۔ ابی جب ہم سے ملنے آتے تھے تو کبھی کبھار لیڈی ڈاکٹر بھی ان کے ہمراہ ہوتی تھی۔ ایسے مواقع پر وہ گاڑی خود چلاتی تھی۔ اسی طرح کی ایک ملاقات کے دوران جب بڑے لوگ اندر باتوں میں مصروف تھے، مجھ سے دوسرے نمبر کے بھائی شیراز نے ایک کانے دار جھاڑی کی شاخ توڑ کر ڈرائیونگ سیٹ کے کور کے نیچے چھپا دی۔ جب ابی اور لیڈی ڈاکٹر رخصت ہونے لگے تو ابی نے اچانک فیصلہ کیا کہ واپسی میں گاڑی وہ چلائیں گے اور ڈرائیونگ سیٹ کی طرف بڑھے اب ننھا منا سا شیراز ان کا بازو کھنچ رہا ہے اور انہیں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے سے روک رہا ہے۔ جلد ہی ابی کو اس کارروائی کا علم ہو گیا اور انہوں نے کانٹوں بھری شاخ نکال کر دور پھینک دی اور دونوں منہ سے ایک لفظ نکالے اور ڈانٹے بغیر رخصت ہو گئے لیکن گھر جا کے ان کی نئی بیوی نے ان سے بچوں کے طرز عمل کی خوب شکایت کی۔

”ہم نے اپنے باپ کی شادی کی سالگرہ میں شرکت کی“

ایک سال پورا ہوا تو ابی اور ہماری سوتیلی ماں نے اپنی شادی کی سالگرہ پر ایک شان دار تقریب کا اہتمام کیا جس میں امی اور ہم بچے بھی مدعو تھے۔ رقص اور موسیقی کا بھی انتظام تھا، ایک خوبصورت عورت ہارمونیم بجا رہی تھی اور ایک قدرے فربہی مائل سانولے رنگ کی پر کشش عورت رقص کر رہی تھی۔ یہ مالا تھی جو چند سال بعد پاکستان کی فلمی صنعت کی مشہور گلوکاراؤں میں شامل ہو گئی اور ہارمونیم بجانے والی ان کی بہن شمیم نازلی مشہور موسیقار بن گئیں۔ آج یہ سب لکھنا اتنا ما فوق الحقیقت لگ رہا ہے۔ اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے باپ کی ایک دوسری عورت کے ساتھ شادی کی سالگرہ منانا!

HACKED TO PIECES-HELL HATH NO FURY…

لیکن جیسا کہ اکثر ہوتا ہے، زندگی کے اپنے منصوبے ہوتے ہیں۔ ابی یہ ظاہر کرنے کی خواہ کتنی ہی کوشش کرتے کہ سب کچھ صحیح چل رہا ہے۔ زندگی کا انہیں اور ہمیں بھی یہ یاد دلانے کا اپنا طریقہ تھا کہ کچھ زخم وقت کے ساتھ نہیں بھرتے خاص طور پر جب انہیں مسلسل کھرچا جاتا رہے۔

جلد ہی شادی کے اس نئے رشتے میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ ہماری سوتیلی ماں کے لئے اس حقیقت کو قبول کرنا مشکل تھا کہ ابی اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات توڑ نہیں سکتے۔ وہ چاہتی تھی کہ ابی امی کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر قطع کر کے اس کے ساتھ امریکہ چلیں۔ ابی یہ بات ماننے کو تیار نہیں تھے چنانچہ دونوں میں جھگڑے ہونے لگے۔ بالآخر وہ ابی کو چھوڑ کر چلی گئی اور ابی واپس ہمارے پاس آ گئے۔ اور یوں وہ ہماری زندگی سے نکل گئی۔

مگر مکافات عمل کہہ لیجیے یا کرما کہہ لیں، اس کی زندگی کہانی بہت ہی خوف ناک طور پر ختم ہوئی۔ سالوں بعد 1980 کے عشرے میں جب میں خود دو بچوں کی ماں بن چکی تھی ایک اردو روزنامے کا مطالعہ کرتے ہوئے امی کی نظر ایک فیچر پر پڑی۔ اور انہوں نے بعد میں ہم سب گھر والوں کو بھی پڑھوایا۔ یہ فیچر دہرے قتل کے بارے میں تھا۔ ایک ذہنی طور پر پریشان نوجوان نے اپنے سگے والد اور سوتیلی ماں کو قتل کر کے ہتھوڑے سے ان کی لاشوں کے ٹکڑے کر کے الماری میں چھپا دیے تھے۔

اس کی سوتیلی ماں اور کوئی نہیں وہی لیڈی ڈاکٹر تھی جو کبھی ہماری بھی سوتیلی ماں رہی تھی۔ اخبار میں قاتل اور مقتولین کی تصاویر ان کے ناموں کے ساتھ شائع ہوئی تھیں۔ امی نے وہ اخبار تہہ کر کے اپنی الماری میں رکھ دیا۔ امی کو پورا یقین تھا کہ اسے امی کا دل دکھانے کی سزا ملی۔ اس کے ساتھ ہی ہماری فیملی کے لئے اس عورت کی کہانی ہمیشہ کے لئے ختم ہو گئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments