ہندوستان اور پاکستان: خدارا عقل کریں
حسب معمول صبح جلدی اٹھ کر واک کرنے کا ارادہ تھا لیکن رات کو دیر سے سویا اور دیر تک سوتا رہا اور روٹین واک کے لئے آنکھ نہ کھل سکی جو آئے روز مجھ سے ترک ہو جاتی ہے۔ لیکن آج سات مئی کو جب آنکھیں ملتا ہوا بستر سے اٹھا تو معلوم ہوا کہ رات کو میرے خواب خرگوش میں آلتیاں پالتیاں مارتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر تین اطراف سے دھاوا بولا۔ کشمیر، سیالکوٹ اور مریدکے کی جانب۔ جس کے نتیجے میں معصوم شہری شہید ہوئے۔ کشمیر میں بلال مسجد بھی شہید کی گئی جس میں محض عام شہری موجود تھے۔ خبر چل رہی تھی کہ پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا اور جواب میں پانچ بھارتی جہاز مار گرائے جس میں تین رافیل طیارے بھی شامل تھے۔
یہ وقت ہرگز اپنے ملک پر تنقید کرنے کا نہیں اور اس مشکل وقت میں ہم سب یکجا ہیں۔ لیکن اس ضمن میں کچھ باتیں قابل غور ہیں جو کہ ہمارے خطے کا المیہ ہیں۔ اس معاملے نے آخر کس طرح طول پکڑا اور بات یہاں تک کیوں پہنچی؟ دونوں ملکوں کے درمیان حالات پہلے بھی قابل ستائش نہیں تھے لیکن ہمارا خطہ ایک مرتبہ پھر کیوں جنگ کے دہانے پر آ کھڑا ہوا؟ پاکستان میں گزشتہ ماہ سے اچانک حالات خراب ہونا شروع ہو گئے اور جس طرز پر پاکستانی عوام پر مظالم ڈھائے گئے بالکل وہی طریقہ کار پہلگام واقعے میں بھی نمایاں تھا۔ دونوں صورتوں میں ایک دوسرے کے سیکیورٹی اداروں کی نا اہلی پر سوال اٹھائے گئے۔ ہم اگر غور کریں تو ہمارے مسائل محض آپس میں مشترک ہی نہیں بلکہ ان کی تدبیر بھی ہم مشترکہ طور پر ہی کر سکتے ہیں۔ ہم دونوں ملکوں کی سوچ امریکی ریاست کی پالیسی سے مماثلت رکھتی ہے۔ ہمارا یہ خیال ہے کہ ہم خطے کے واحد طاقتور کے طور پر ابھر سکتے ہیں جبکہ ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ دونوں ممالک نہ صرف جوہری قوت کے حامل ہیں بلکہ دونوں کے پاس ایک دوسرے سے نبرد آزماء ہونے کے لئے معقول وسائل موجود ہیں۔ پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں اکثر کمزور خیال کیا جاتا ہے لیکن یہ موازنہ درست نہیں بلکہ کسی بھی ریاست کا موازنہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کیا جانا چاہیے۔ ایک ریاست کا تجزیہ انفرادی حیثیت سے کیا جانا چاہیے تبھی اس کی اصل صلاحیتوں کا ادراک کیا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کا تجزیہ اس کے حالات، وسائل اور آبادی کی مناسبت سے کیا جائے تو بلا شبہ پاکستان ایک بہترین دفاع کی حامل ریاست ہے اور ریاستی نقطۂ نظر سے پاکستانی فوج کا تجزیہ بھی کیا جائے تو صرف فوج ہی ایک ایسا ادارہ ہے کہ جس میں ایک پالیسی کے مطابق نظم و ضبط قائم ہے وگرنہ ہم جانتے ہیں کہ ریاست کے دیگر انتظامی معاملات کس طرح سنبھالے جاتے ہیں اور ان میں پالیسی اور نظم و ضبط کا کتنا عمل دخل ہے۔ بلا شبہ، بھارت اور پاکستان انفرادی سطح پر بے حد مضبوط ہیں لیکن ان کا موازنہ اس طرح نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں میں کون زیادہ طاقتور ہے کیونکہ دونوں کے مابین طاقت کا توازن برابر نہ بھی ہو تو فر ق بہت قلیل ہے اور انفرادی حیثیت میں دونوں ایک دوسرے کو زیر کر سکتی ہیں۔ چنانچہ، کشیدگی مسئلے کا حل نہیں۔
دونوں ممالک کے پاس دو ہی راستے ہیں، آیا معاملات کو حل کیا جائے اور دونوں کے درمیان تعلقات کی بہتری پر کام کیا جائے یا پھر ایک کشیدگی کی صورت برقرار رکھی جائے جیسے کہ سالوں سے جاری تھی جس میں دونوں ممالک جنگ سے بھی دوچار نہ ہوں اور خاطر خواہ معاملات آگے بھی نہ بڑھیں اور تعلقات جمود کا شکار رہیں۔ اس کے علاوہ اور کوئی رآستہ یا آپشن نہیں اور اگر ہے تو اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کی تباہی یقینی ہے۔ اگر دونوں ممالک آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ترقی کرنا چاہتے ہیں عمومی طور پر یا معاشرتی سطح پر تو وہ باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔ اکیلے آگے بڑھنے کی آپشن دونوں کے پاس موجود نہیں۔ ورنہ دونوں ممالک میں ایک مخصوص طبقہ تو شروع سے ہی خوشحال رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ہاں آتے جاتے رہتے ہیں، دعوتوں میں، شادیوں میں شریک ہوتے رہتے ہیں۔ مجھے میرے ڈرائیور بتا رہے تھے کہ پہلے وہ جن صاحب کے ہاں ملازمت کرتے تھے وہ لاہور کے ایک پوش علاقے میں مقیم ہیں اور ان کے ہاں ممبئی کے تاجر مہمان کے طور پر حاضری دیتے رہتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کئی مثالیں ہیں جو ختم نہیں ہوں گی۔ قارئین مجھ سے زیادہ اس طرح کی مثالوں سے وآقف ہوں گے۔ لہذا دونوں ممالک کی اشرافیہ ہمیشہ سے خوشحال رہی ہے اور ان کی آپس میں کوئی لڑائی بھی نہیں۔ اگر دونوں ممالک کے عوام کو آگے بڑھنا ہے جو ٹرین حادثے میں شہید ہوئے یا جو پہلگام واقعے کا نشانہ بنے، ان کی فلاح کے لئے دونوں ریاستوں کو بچوں کی طرح لڑنے کی بجائے اپنی عوام کی خاطر شر پشند عناصر سے متفقہ اور متحدہ طور پر لڑنا ہو گا۔ ہمارا ملک، ہمارے عوام اور ہماری فوج بذات خود شرپسندی کا شکار ہیں اور ان کے خلاف لڑنے پر آمادہ ہیں۔ اب یہ بھارت پر منحصر ہے کہ وہ اپنے عوام کی خاطر پاکستانی ریاست کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہوتا ہے یا خود کو خطے کی واحد طاقت کے غلط خیال میں مبتلاء کرتے ہوئے کشیدگی جاری رکھے گا اور اس غلط فہمی کا شکار رہے گا کہ وہ اس قدر طاقتور ہے کہ پاکستان کو زیر کر کے ایشیائی طاقت بن کر ابھرے گا۔ اس خیال سے پہلے بھارتی ریاست کو یہ ذہن نشین کرنا چاہیے کہ بالفرض وہ پاکستان کو پس پشت رکھ کر آگے بڑھتا بھی ہے تو اس کے رآستے میں آگے چین ہے۔ لہٰذا خود کو خطے کا طاقتور خیال کرنے کی بجائے ہندوستان کو عملی طور پر اقدامات کرنے چاہئیں اور پاکستان اور تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنے چاہئیں تبھی وہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھر سکتا ہے۔
آخر میں اپنے دل کی بات کہنا چاہوں گا جو اس پورے کالم میں کہنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ہمارے ہاں اور بھارت میں جس طرح ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کیا جا رہا ہے خاص کر وہاں پر کوئی میجر گورو آریا نامی شخص مشہور ہیں جو پاکستان اور پاکستانیوں سے نفرت کا اظہار ایسے کرتے ہیں جیسے ان کا باپ دادا کی جانب سے پاکستانیوں کے ساتھ کسی زمین کا جھگڑا چلتا آ رہا ہے۔ ارے بھائی آپ لوگ ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں، ذرا غور کریں اس بارے میں کہ کیسے بغیر ایک دوسرے سے وآقفیت کے اندھا دھن نفرت کی آگ میں جل رہے ہیں۔ یہ ریاستوں کے معاملات ہیں، جن کی ذمہ داری ہے وہ دیکھ لیں گے۔ جو صاحب ہندوستانی فوج چھوڑ چکے اور ریاست کی جانب سے مختصر سی ذمہ داری نہ نبھا پائے وہ بغیر کسی بلاوے کے اپنی ریاست کو مشورہ دیتے رہتے ہیں اور بلا وجہ پاکستانیوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں جن کو وہ جانتے بھی نہیں کبھی ملے بھی نہیں، انجان لوگوں سے نفرت ظاہر کرنے کی بجائے اگر وہ اپنے قریبی لوگوں کو وقت دیں تو ان کے لئے زیادہ مسرت کا باعث ہو گا۔ تاریخی طور پر دیکھیں تو پاکستانی پنجابیوں کی ہندوستانی پنجابیوں سے نفرت نہیں بنتی دوسری جانب پاکستانی پنجابیوں کی غیر پنجابی ہندوستانیوں سے نفرت بالکل نہیں بنتی نہ اس کا کوئی جواز ہے کیونکہ تہذیبی طور پر ہمارا ان سے کوئی تعلق تھا ہی نہیں جس طرح آسٹریلیا کے کسی جنگلی قبیلے سے کبھی نہیں رہا۔ صبح سویرے جنگ کے متعلق نیوز چینل پر پٹی پڑھنے کے بعد میں سوچ رہا تھا کہ کون بیچارے انٹرن 15000 روپیہ ماہانہ کی نوکری پر جوش و خروش سے ٹکرز لکھ کر دے رہے ہیں کہ پاکستان نے ہندوستا ن کے ساتھ یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ایک ایسے دشمن سے نفرت جو انجان ہے اور ایک ایسے دوست سے محبت جو بے جواز ہے۔ ہماری محبتیں اور نفرتیں سب دھوکہ ہیں۔ خدارا عقل کریں۔ اپنا اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں، محبتیں وہاں نبھائیں جہاں نبھانی بنتی ہیں اور نفرتیں نہ ہی کریں تو بہتر ہے لیکن ایسی نفرت تو بالکل نہ کریں جس کی کوئی حقیقت نہ ہو۔
- ہندوستان اور پاکستان: خدارا عقل کریں - 08/05/2025
- ٹیرف جنگ کا فاتح کون؟ - 15/04/2025
- پاکستانی سیاست کا المیہ: حکومت اور اپوزیشن کی نورا کشتی - 14/03/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).