آپریشن سندور: جب عورت کے دکھ کو جنگ کا ہتھیار بنا دیا گیا


Loading

6 اور 7 مئی 2025 کی درمیانی شب کو بھارت کی جانب سے پاکستان پر کیے گئے میزائل حملوں کو ”آپریشن سندور“ کا نام دیا گیا۔ یہ نام ان عورتوں کے دکھ کی نمائندگی کرتا ہے جنہوں نے پہلگام دہشت گرد حملے میں اپنے شوہروں کو کھو دیا۔ بھارت کے وزیر دفاع نے اس آپریشن کے اس نام کی یہی توجیہہ پیش کی۔

بھارتی میڈیا چینل انڈیا ٹو ڈے کے مطابق اس آپریشن کا یہ نام، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے خود تجویز کیا۔ یہی نہیں آپریشن کی تفصیلات بتانے کے لئے بھی دانستہ طور پر دو خواتین افسروں، کرنل صوفیہ قریشی اور ونگ کمانڈر ویامیکا سنگھ کا انتخاب کیا گیا۔ اور اس کو ”ناری شکتی“ سے تعبیر کیا گیا۔ گویا یہاں بھی عورتوں کو ایک ہتھیار کے طور پر ہی استعمال کیا گیا۔

اس کے ساتھ کئی ایسی تصاویر بھی بنائی گئیں جن میں ایک عورت کے ماتھے پر لگے ”سیندور“ سے میزائل بنائے گئے تھے۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی پاکستان ائر فورس کی جوابی کارروائی کو کئی لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ”آپریشن سہاگ رات“ اور اس جیسے دیگر ناموں کے کے ساتھ پکارا گیا۔ ایسی تصاویر بھی بنائی گئیں جن میں پاکستان کے آرمی چیف کو ایک بھارتی خاتون کی مانگ میں سندور بھرتے ہوئے دکھایا گیا۔

گویا دونوں اطراف ہی ”عورت“ کے حوالے سے سوچ ایک جیسی ہی پائی جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی عورت کے ذاتی دکھ کو عسکری کارروائی کے لیے علامتی جواز بنانا درست ہے؟ کیا عورت کی شناخت صرف اس کے شوہر سے جڑی ہے؟ کیا عورت کا درد جنگ کا ایندھن بننا چاہیے؟ جب اس آپریشن میں بچے اور عورتیں بھی نشانہ بنی ہوں۔

”سندور“ برصغیر کی ہندو ثقافت میں شادی شدہ عورت کی پہچان تصور کیا جاتا ہے۔ اسے ماتھے پر سجایا جاتا ہے اور یہ اس کے سہاگ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جب یہی علامت ایک ریاستی جنگی آپریشن کے نام سے نتھی کی جائے، تو اس کے معنی خوفناک حد تک بدل جاتے ہیں۔ پھر ”سندور“ محبت یا وابستگی کی علامت نہیں رہتی، بلکہ انتقام، عسکریت، اور خونریزی کا استعارہ بن جاتی ہے۔

عورت کا دکھ نجی ہوتا ہے، جذباتی، گہرا، اور پیچیدہ۔ اسے ایک ریاستی بیانیے میں یوں استعمال کرنا کہ جیسے وہ خود جنگ کی پکار دے رہی ہو، عورت کے جذبات کا استحصال ہے۔ کیا ان بیوہ عورتوں سے پوچھا گیا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ انصاف، بدلہ یا امن؟ ان کی آواز کو شامل کیے بغیر ان کے دکھ کو ایک پوری جنگی مہم کا جواز بنانا، عورت کو خود مختار انسان کے بجائے ایک جذباتی علامت میں قید کر دینا ہے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ اس طرح کے بیانیے عورت کو صرف ”شوہر کی بیوی“ بنا کر پیش کرتے ہیں، ایک ایسی ہستی جو صرف کسی مرد کے ہونے یا نہ ہونے سے تعریف ہوتی ہے۔ عورت کی ذات، اس کی شناخت، اس کی سوچ، اس کی سیاسی رائے سب غائب۔ صرف ”بیوگی“ کو نمایاں کیا جاتا ہے، وہ بھی اس لیے تاکہ جنگ کو جذباتی سہارے کے ساتھ پیش کیا جا سکے۔

”آپریشن سندور“ نہ صرف عورت کی علامت کو غلط استعمال کرتا ہے بلکہ ایک خطرناک رجحان کو فروغ دیتا ہے : ریاستی جنگی پالیسیوں میں جذباتی استعاروں کا استعمال، خاص طور پر ایسے استعارے جو عورت کے دکھ سے جڑے ہوں۔

عورت کا درد مقدس ہے۔ اسے جنگی حکمت عملی میں استعمال کرنا، اس کی تذلیل ہے، اس کی آواز کی بے توقیری ہے۔ ہمیں اس بیانیے کو چیلنج کرنا ہو گا جو عورت کے غم کو بندوق کی نالی میں جھونکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments