شادی کا قانون بدل گیا، کیا ہماری سوچ بدلے گی؟
پاکستان نے اپنے بچوں کے روشن مستقبل کو محفوظ بنانے اور معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف ایک اہم جنگ جیتنے کے لیے ایک تاریخی قدم اٹھایا ہے۔
”بچوں کی شادی کی ممانعت کا بل“ اب باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے، جس کا مقصد کم عمری کی شادی جیسی جاہلانہ رسم کا خاتمہ ہے۔ یہ بل، جسے قومی اسمبلی میں شرمیلا فاروقی اور سینٹ میں شیریں رحمن نے پیش کیا، شدت پسند مذہبی حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود پارلیمنٹ اور صدر مملکت کی منظوری حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ صرف ایک قانون نہیں، بلکہ یہ ایک نئی صبح کا پیغام ہے جو ہمارے بچوں، خاص طور پر بچیوں کے لیے آزادی اور ترقی کی راہیں کھولے گا
آئیے جانتے ہیں کہ یہ نیا قانون کیا ہے
اس قانون کے تحت، پاکستان میں اٹھارہ برس سے پہلے کسی بھی بچے کی شادی نہیں کی جا سکتی۔ اس کا مطلب ہے کہ قانون کی نظر میں 18 سال سے کم عمر افراد ذہنی طور پر اتنے پختہ نہیں ہوتے کہ وہ ووٹ یا شادی جیسے اہم فیصلے خود کر سکیں۔
قانون توڑنے کے سنگین نتائج اور سزائیں :
* اگر کوئی نکاح خواں 18 سال سے کم عمر دولہا یا دلہن کا نکاح پڑھاتا ہے تو اسے ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑ سکتا ہے۔
* اگر 18 سال سے زیادہ عمر کا کوئی مرد 18 سال سے کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے تو اسے تین سال قید با مشقت کی سزا سنائی جائے گی۔
* سب سے اہم بات یہ کہ کم عمر بچوں کو شادی کے لیے مجبور کرنا اب ناقابلِ ضمانت جرم تصور ہو گا۔ عدالتیں ایسی شادیوں کو روکنے کے حکم نامے جاری کریں گی اور ایسے مقدمات کو تین ماہ کے اندر نمٹانے کی پابند ہوں گی۔ یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو ماضی کی جاہلانہ رسوم جیسے قتل کے خون بہا اور وٹے کے تحت ہونے والی چھوٹی بچیوں کی شادیوں کے خلاف ایک مضبوط ڈھال ثابت ہو گا۔
بعض مذہبی حلقے یہ جانے بغیر کہ یہ قانون کیوں ضروری تھا؟ اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ یونیسف کے 2024 کے ڈیٹا کے مطابق، جنوبی ایشیا میں چائلڈ میرج کے سب سے زیادہ اعداد و شمار والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے، جہاں تقریباً 20.5 ملین ( 2 کروڑ 5 لاکھ) خواتین ایسی ہیں جن کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے ہوئی۔
2018 کے یونیسف اور پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 18 فیصد لڑکیاں 18 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے بیاہ دی جاتی ہیں۔ یہ اعداد و شمار ایک ایسی خوفناک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں جو ہمارے معاشرے کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ بچپن میں شادی، خاص طور پر لڑکیوں کے لیے، بے شمار جسمانی، جذباتی، تعلیمی اور سماجی خطرات کا باعث بنتی ہے :
* کم عمر لڑکیاں جسمانی طور پر ماں بننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔ زچگی کے دوران موت، پیچیدہ پیدائش، اور پیدائشی نقائص کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایسی ماؤں کے بچوں میں قبل از وقت پیدائش اور کم وزن کے مسائل عام ہوتے ہیں۔ خود میری شادی بھی اٹھارہ برس سے کم عمر میں ہوئی اور بچے کی پیدائش کے وقت اور بعد میں بہت بھیانک مسائل بھگتنا پڑے۔
* کم عمر دلہنیں تشدد اور جذباتی دباؤ کا زیادہ شکار بنتی ہیں۔ ان میں محفوظ ازدواجی تعلقات پر بات کرنے یا انکار کرنے کی طاقت نہیں ہوتی، جس سے ایچ آئی وی سمیت دیگر جنسی بیماریوں کا خطرہ بڑھتا ہے۔ انہیں تنہائی، اداسی اور اضطراب کا سامنا رہتا ہے۔
* زیادہ تر لڑکیاں شادی کے بعد تعلیم چھوڑ دیتی ہیں۔ تعلیم نہ ہونے سے ان کے لیے خود مختاری اور روزگار کے مواقع بہت محدود ہو جاتے ہیں، جو انہیں غربت اور انحصار کے چکر میں پھنسا دیتا ہے۔
* بچپن میں شادی کرنے والی لڑکیاں ذہنی طور پر بالغ ذمہ داریاں اٹھانے کے قابل نہیں ہوتیں۔ یہ لڑکیاں کھیلنے، سیکھنے اور زندگی کے قیمتی تجربات حاصل کرنے کے مواقع کھو دیتی ہیں۔ انہیں صحت، پیسے یا خاندانی معاملات پر فیصلے کرنے کی طاقت نہیں دی جاتی۔
نیا قانون نہ صرف ان مظالم کو روکے گا بلکہ ہمارے معاشرے کو ایک صحت مند اور تعلیم یافتہ مستقبل کی جانب لے جائے گا۔ یہ ہر بچے کا حق ہے کہ وہ اپنے بچپن کو جی سکے، تعلیم حاصل کرے، اور اپنی زندگی کے فیصلے خود کر سکے۔ یہ قانون ایک امید ہے، ایک وعدہ ہے کہ اب کوئی بچی کم عمری کی تاریک دلہن نہیں بنے گی، بلکہ ہر بچی اپنے خوابوں کی شہزادی بنے گی۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).