کائنات کا نیلا موتی۔ سیارہ زمین


Loading

کائنات بہت خوبصورت اور وسیع ہے جس میں ہمارا سیارہ زمین ایک نخلستان کی مانند ہے۔ کائنات میں ہماری زمین کی اہمیت ایک نیلے موتی کی طرح ہے کیونکہ ہماری زمین کائنات کا سب سے خوبصورت سیارہ ہے کیونکہ یہاں زندگی ہے۔ ہماری دنیا کے تمام بر اعظم اور سمندر خوبصورتی میں یکتا ہیں اور زمین کا ستر فیصد حصہ سمندروں پر مشتمل ہے۔ خواہ کالے ہوں یا گندمی، سفید رنگت کے ہوں یا کسی اور رنگت کے ہم سب انسان ہیں اور یہ زمین ہمارا گھر ہے۔ چاہے انسان ہوں، دیگر جاندار یا چرند پرند ہوں، کرہ ارض کے تمام عناصر سیارہ زمین کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں اور اس کا لازمی جزو ہیں۔ کائنات کا نخلستان زمین، کائنات کا نیلا موتی زمین، سب سے خوبصورت ایک ایسا سیارہ جو تمام لوگوں اور قوموں کی سانجھی سرزمین ہے اور تمام انسانوں کا مشترکہ ورثہ ہے جس کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اس نیلگوں رنگ کی زمین کی حفاظت، دنیا کے مختلف ملکوں میں تناؤ اور اپنے ماحول کی حفاظت کے لئے ایک ہونا پڑے گا کیونکہ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی نے اب یا کبھی نہیں والی صورتحال پیدا کر دی ہے اور دن بدن یہاں جینا دشوار ہوتا جا رہا ہے۔ کالے ہوں یا گندمی، سفید رنگت کے ہوں یا کسی اور رنگت کے حامل، ہم انسان ہیں، ہماری اصل ایک ہے اور یہ زمین ہمارا مشرکہ گھر ہے۔ یہ ہماری ماں ہے اور ہم اس کے بیتے اور اولاد ہیں۔ جب اولاد لڑتی ہے تو گھر اجڑتا ہے جس میں ماں سب سے زیادہ دکھ اٹھاتی۔

اقوام متحدہ کے پروگرام برائے تحفظ ماحولیات یو این ای پی کے پلیٹ فارم سے ہر سال پانچ جون کو ماحولیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد ماحول کے تحفظ کے لئے اور ہمارے ماحول کو درپیش خطرات سے آگاہی کے لئے عالمی سطح پر مثبت اقدامات کو فروغ دینا ہے۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر اس پروگرام کا آغاز 1972 میں شروع کیا گیا۔ ہمارے ماحول کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے اس پروگرام نے عالمی سطح پر سنجیدہ تحقیق، مکالموں اور مباحثوں کو فروغ دیا ہے جو ایک قابل ستائش کاوش ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ ماحول کی بہتری کے لئے لوگوں کو اس عمل میں باقاعدہ شریک کیا جائے کیونکہ انسان براہ راست ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہوتا ہے۔ تبدیلی بتدریج لوگوں کو کمیونٹی کی سطح پر شعور دینے سے ہی ممکن ہے۔ اس حوالے سے مختلف پروگراموں کے انعقاد کے بنیادی مقاصد میں ماحولیات کے حوالے سے لوگوں کو شعور دینا ہے کہ وہ ماحول کے تحفظ کے لئے ماحول سے محبت کرنا سیکھیں۔ ہر سال دنیا کے کسی ایک ملک میں ماحولیات کی مرکزی تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس سال کی مرکزی تقاریب کا انعقاد ریپبلک آف کوریا میں کی جا رہا ہے اور مرکزی خیال پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی کا خاتمہ ہے۔

حکومت پاکستان نے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس سے متعلق باقاعدہ وزارت تشکیل دی ہے جس کے بہت سے ذیلی محکمے صوبائی اور وفاقی سطح پر ماحول کے تحفظ کے لئے اپنے اپنے مینڈیٹ کے تحت کام کر رہے ہیں اور یہ ایک بہتر قدم ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے ان اداروں کی استعداد کار، صلاحیتوں اور وسائل میں اضافہ کیا جائے۔ تمام حکومتی اداروں کو پاکستان نیوی کی طرح ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان نیوی نے جس طرح ملک کے ساحلی علاقوں کی دیکھ بھال اور سمندری ماحولیات کو برقرار رکھنے میں کردار ادا کیا ہے وہ ایک قابل تقلید مثال ہے۔ پاکستان اس وقت آلودگی سے متاثر ہونے والے ملکوں میں سر فہرست ہے۔ اس تناظر میں اقوام متحدہ کو بھی چاہیے اور حکومت پاکستان کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ آئندہ سالوں میں اس پروگرام کی مرکزی تقاریب کا انعقاد پاکستان میں بھی کیا جائے۔ بہرحال پاکستان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سال 1985 میں نوجوان: آبادی اور ماحول کے مرکزی خیال کے تحت ماحولیات کی مرکزی عالمی تقریبات کی میزبانی پاکستان نے کی تھی۔ اس سال اس پروگرام کا بنیادی خیال بہت شاندار ہے کیونکہ پلاسٹک سے پھیلنے والی آلودگی خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ایک بہت بڑا چیلنج بن چکی ہے۔ گو حکومت نے پابندی لگا رکھی ہے لیکن پھر بھی ہمارے ہاں پلاسٹک کا بے جا استعمال عام ہے اور پلاسٹک کے متبادل انڈسٹری کی گروتھ کے وسیع مواقع موجود ہیں جو پرکشش سرمایہ کاری کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

یقینی طور پر وسیع پیمانے پر ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس کرہ ارض کے آٹھ ارب باسیوں کے خواب شرمندہ تعبیر ہونے سے قاصر ہیں۔ سو اگر ہم نے ان خوابوں کو واقعی تعبیر دینی ہے تو ہمیں اس نیلے موتی کی حفاظت کرنا اور قدر کرنا ہو گی ورنہ ہمارے خواب خواب ہی رہ جائیں گے۔ مادیت کی چکا چوند، جنگلات کی مسلسل کٹائی اور صنعتی ترقی کے باعث ہماری زمین کی خوبصورتی تباہ ہوتی جا رہی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ضروری اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن ترقی پذیر ممالک میں ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لئے مّوثر اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ اور ان ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ماحولیاتی اداروں کو مضبوط بنائیں۔ انھیں بنیادی انفراسٹرکچر مہیا کریں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں واضح مینڈیٹ دیں۔ مشہور برطانوی شاعر جان کیٹس نے کیا خوب کہا ہے کہ: ”سچائی کا نام خوبصورتی ہی اور خوبصورتی کا نام سچائی ہے، یہی اس زمین کی سب سے بڑی حقیقت اور پہچان ہے اور اسی حقیقت اور پہچان کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔“ ماحولیات کا عالمی دن ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ سال میں ایک دن ہم ذرا دوسری مصروفیات کو تھوڑا ترک کر کے اپنے ارد گرد کے ماحول کا جائزہ لیں۔ یہ دن ہم سے التجا کرتا ہے کہ آئیں ماحول کی بہتری کے لئے کچھ کریں۔ ماحولیاتی آگاہی کے لئے بہت طریقے ہیں جن کو بروئے کار لا کر اس سلسلے میں عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ آج ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے جنگلات کی حفاظت اور اس کی بقا ناگزیر ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں تیرہ ملین ہیکٹر رقبے پر پھیلے جنگلات کا صفایا کر دیا جاتا ہے۔ شجر کاری میں اضافہ کیا جانا چاہیے کیونکہ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے عالمی حدت میں روز بروز خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک حدیث کے مطابق اگر کسی نے ایک پودا لگایا، اس پودے سے جب تک انسان اور جانور مستفید ہوتے رہیں گے تو اس کا اجر اس شخص کو ملتا رہے گا۔ اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ آج کل چونکہ تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور امتحانات بھی ہو چکے ہیں، لاکھوں طلباء گھروں میں فارغ بیٹھے ہیں اور اسی طرح اساتذہ بھی تو پھر کیوں نہ ان کی صلاحیتوں کو ایک مثبت جہت دی جائے اور انھیں ان کے متعلقہ اداروں کی وساطت سے حکومت کی طرف سے پابند کیا جائے کہ وہ ان چھٹیوں میں شجر کاری یا ماحولیاتی آلودگی کو کم کرنے والے کسی پراجیکٹ کا حصہ بنیں۔ ماحولیات کی بہتری کے لئے صنعتوں خاص طور پر بھٹہ مالکان کو ان کی ماحولیاتی ذمہ داریوں سے آگاہ کریں اور اپنے اپنے علاقوں میں گرین زونز تشکیل دیں۔ طلباء و طالبات کے مختلف گروپ تشکیل دے کر انھیں ماحولیات کے حوالے سے اپنے متعلقہ علاقوں یا اضلاع میں مختلف ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ تمام اساتذہ اور طلباء کی اس حوالے سے کارکردگی کا جائزہ لیں اور اس پروگرام کو انٹرنشپ بنیادوں پر چلایا جائے اور اس انٹرن شپ میں شریک طلباء کو ہی تعلیمی اسناد جاری کی جائیں۔ اس سے معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ ملے گا اور طلباء کی ذہنی صلاحیتوں میں بھی نکھار پیدا ہو گا۔ کائنات کا نیلا موتی سیارہ زمین بہت قیمتی ہے۔ اگر زمین ہے تو ہم ہیں۔ لیکن افسوس کہ ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں اس کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ ہمیں کائنات کے اس نیلے موتی کی حفاظت کرنے کے لئے صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات ہونے کا مظاہرہ کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا تعلق ہمارے وجود سے ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہمارا وجود اور ہماری بقا خطرے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).