خیالی محبت اور حقیقی المیہ: پیرا سوشل ریلیشن شپس کی نفسیاتی گتھیاں
پیرا ریلیشن شپ (Para۔ relationship) خود کوئی ”بڑی ذہنی بیماری“ نہیں ہے، لیکن یہ ایک نفسیاتی مظہر (psychological phenomenon) ہے جو بعض اوقات ذہنی صحت کے مسائل سے جُڑا ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر یہ حد سے بڑھ جائے۔
گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک افسوسناک خبر وائرل ہوئی۔ ثنا یوسف، جو ایک معروف ٹک ٹاک انفلوئنسر تھیں، جسے عمر نامی ایک نوجوان نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ عمر اس سے دوستی کا خواہاں تھا، لیکن جب ثنا نے صاف انکار کیا تو وہ شدید غصے میں آ گیا اور انتقامی جذبے کے تحت یہ ہولناک قدم اٹھا لیا۔ اس واقعے نے نہ صرف ایک بے گناہ جان لی بلکہ ہمیں ایک نہایت سنجیدہ اور کم بحث ہونے والے نفسیاتی پہلو کی طرف متوجہ کیا ہے۔ پیرا سوشل ریلیشن شپ، یعنی خیالی یا یک طرفہ تعلقات کی قسم ہے۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی مظہر ہے جس میں کوئی
شخص کسی مشہور فرد جیسا کہ اداکار، گلوکار، یوٹیوبر یا ٹک ٹاکر سے یک طرفہ جذباتی وابستگی محسوس کرتا ہے۔ یہ ایسا تعلق ہوتا ہے جس میں حقیقی باہمی رابطہ موجود نہیں ہوتا، مگر وابستہ فرد کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اس شخصیت کو جانتا، سمجھتا اور اس سے جذباتی قربت رکھتا ہو۔ اس قسم کے تعلقات اکثر تنہائی، محرومی یا شناخت کے بحران میں مبتلا افراد میں زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔
اس کیفیت کو Phictophilia کہا جاتا ہے جو ایک نفسیاتی اور جذباتی رجحان ہے، جس میں فرد کسی خیالی کردار (فکشنل کیریکٹر) سے محبت یا رومانوی کشش محسوس کرتا ہے۔ یہ تعلق ایک طرح کی گہری جذباتی وابستگی، تحسین، یا حتیٰ کہ رومانی خواہش پر مبنی ہوتا ہے، حالانکہ فرد جانتا ہے کہ یہ کردار حقیقی نہیں ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق، Phictophilia کا تجربہ زیادہ تر نوجوانوں، تخیلاتی فطرت رکھنے والے افراد، یا وہ لوگ کرتے ہیں جو حقیقی دنیا میں کسی حد تک تنہائی، عدم تحفظ، یا تعلقات کی الجھنوں کا شکار ہوں۔ خیالی کرداروں کی طرف کشش اس لیے بھی پیدا ہوتی ہے کیونکہ وہ ہمیشہ قابلِ اعتماد، دلکش، اور مثالی دکھائے جاتے ہیں۔ وہ حقیقی دنیا کی پیچیدگیوں سے پاک ہوتے ہیں۔
عمر کا تعلق ایک عام متوسط طبقے سے تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وہ زیادہ تر وقت تنہا رہتا، دوستوں کی محفلوں میں کم جاتا، اور خود اعتمادی کی کمی کا شکار تھا۔ ایسے افراد اکثر سوشل میڈیا پر موجود انفلؤئنسرز کو ایک خاص طرح کی کشش، دلچسپی یا حتیٰ کہ محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ جب وہ بار بار ایک شخصیت کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، اس کی باتیں سنتے ہیں، چہرہ دیکھ کر مسکراتے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہ رشتہ اصل محسوس ہونے لگتا ہے۔ وہ اپنی امیدیں، جذبات، اور خواہشات اس شخصیت سے وابستہ کر بیٹھتے ہیں، حالانکہ سامنے والے فرد کو ان کے وجود کا بھی علم نہیں ہوتا۔
عمر کی جانب سے ثنا یوسف کے ساتھ ایسا ہی ایک یک طرفہ رشتہ قائم ہو چکا تھا۔ وہ اسے دیکھ کر اپنی تنہائی کا علاج ڈھونڈ رہا تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا کہ شاید وہ صرف اس کی ویڈیوز ہی نہیں، بلکہ اس کی شخصیت کا بھی حصہ ہے۔ جب اس نے حقیقت میں رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ثنا نے انکار کیا جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے تو اس کے ذہن میں بنا ہوا خیالی محل ٹوٹ گیا۔ اور یہی ٹوٹ پھوٹ، بظاہر ایک ”محبت“ سے پیدا ہونے والے ردعمل کو ایک پرتشدد اور المیے کی شکل دے گئی۔
یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کوئی خیالی تعلق کیسے کسی انسان کو قتل جیسے انتہائی قدم تک لے جا سکتا ہے؟ اس کا جواب نفسیاتی ساخت میں چھپا ہے۔
تنہائی اور عدم توجہی: وہ لوگ جو معاشرے میں خود کو غیر اہم، غیر نظر انداز شدہ محسوس کرتے ہیں، وہ کسی انجان شخصیت میں توجہ، محبت یا پہچان کی تلاش کرتے ہیں۔
سماجی اضطراب (Social Anxiety) : انہیں حقیقی لوگوں سے بات کرنے، تعلق بنانے میں دقت ہوتی ہے، اس لیے وہ محفوظ خیالی تعلقات میں پناہ لیتے ہیں۔
حقیقت اور خیال کا خلط: جب خیالی تعلق حد سے بڑھ جائے تو انسان حقیقت اور تصور کے درمیان فرق کھو بیٹھتا ہے۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ سامنے والا فرد ایک الگ، آزاد شخصیت ہے جس کی اپنی مرضی ہے۔
تسکین کا متبادل ذریعہ: پیرا سوشل ریلیشن شپ اکثر جذباتی سکون اور شناخت کا متبادل ذریعہ بنتی ہے۔ جب یہ ٹوٹتے ہیں یا نظر انداز ہو جاتی ہے، تو ردعمل شدید ہو سکتا ہے۔
ٹک ٹاک، انسٹاگرام، یوٹیوب جیسی پلیٹ فارمز نے ایک طرف جہاں اظہار رائے کی آزادی دی ہے، وہیں ان کے منفی پہلو بھی ابھر کر سامنے آ رہے ہیں۔ جب کوئی شخص دن رات کسی انفلؤئنسر کو دیکھتا ہے وہ بھی ایسا انفلؤئنسر جو روز مرہ کی زندگی، جذبات اور بات چیت کو کیمرے کے ذریعے ’براہ راست‘ دکھا رہا ہو تو ناظر کا ذہن یہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ سب اس کے لیے ہو رہا ہے۔ وہ اس رابطے کو ذاتی سمجھنے لگتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حدود مٹنے لگتی ہیں۔ انفلؤئنسرز کی یہ موجودگی، ایک طرف تو لاکھوں افراد کو جوڑتی ہے، مگر دوسری طرف انفرادی ذہنوں میں غلط فہمیاں بھی جنم دیتی ہے۔ خاص طور پر ان ذہنوں میں جو پہلے ہی غیر مستحکم ہوں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بچوں اور نوجوانوں کو حقیقی تعلقات کی تربیت کیسے دیتے ہیں؟ ہم ذہنی صحت پر کھل کر بات کیوں نہیں کرتے؟ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر سیفٹی میکانزم اور اخلاقی حدود کیوں نہیں طے کی جاتیں؟
پیرا سوشل ریلیشن شپ خود ایک فطری انسانی رجحان ہو سکتا ہے خاص طور پر نوجوانی میں، جب انسان آئیڈیلز بناتا ہے، کسی کو سراہتا ہے، اس سے متاثر ہوتا ہے۔ یہ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب یہ تعلق حد سے بڑھ جائے اور حقیقت کی جگہ خیال لے لے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے تعلقات میں ملوث افراد کو خود آگاہی حاصل کرنی چاہیے کہ یہ یک طرفہ تعلق ہے۔ والدین، اساتذہ اور سماجی کارکنوں کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کو جذباتی خود کفالت، خود اعتمادی، اور حقیقت پسندی کی تربیت دیں۔ ذہنی صحت کی سہولیات عام اور قابل رسائی بنائی جائیں تاکہ عمر جیسے افراد وقت پر مدد حاصل کر سکیں۔
بلاشبہ اس کا رابطہ کچھ عرصے سے عمر سے رہا کیونکہ وہ بھی بلاگر تھا اور وڈیو گرافی کے حوالے سے اس کی راہنمائی کرتا رہا ہے۔ جس کا فائدہ عمر نے اٹھانے کی کوشش کی اور اسے بلیک میل کیا۔ چونکہ ثنا ایک لا ابالی لڑکی تھی لہذا وہ اس معاملے کی سنگینی کو نہ سمجھ سکی۔
اس طرح کا ایک واقعہ کچھ عرصہ قبل لاڑکانہ میں بھی ہوا تھا۔ جس میں ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار لڑکی کو ایک شخص شادی کرنے پر زور بھرتا رہا۔ اسے ڈرایا دھمکایا جب وہ نہ مانی تو اسے قتل کر دیا۔ عورت کو ذاتی ملکیت سمجھنے کی روایتیں فرسودہ نظام سے جا ملتی ہیں، جو عورت کی رائے یا زندگی کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
ثنا یوسف اب اس دنیا میں نہیں، لیکن اس کا قتل صرف ایک جان کا ضیاع نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے نفسیاتی اور سماجی بحران کی علامت ہے۔ یہ واقعہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ خیالی محبتیں اور پیرا سوشل ریلیشن شپس اگر اعتدال میں نہ رکھی جائیں تو وہ حقیقت سے فرار اور جذباتی المیے میں بدل سکتی ہیں۔
یہ وقت ہے کہ ہم بطور معاشرہ اپنی ترجیحات کا جائزہ لیں۔ نوجوانوں کو جذباتی تربیت دیں، ذہنی صحت کو سنجیدہ لیں، اور سوشل میڈیا کی دنیا میں حقیقت اور فریب کا فرق واضح کریں۔ یہ سمجھداری اور آگہی سماج کو کئی المیوں سے بچا سکے گی۔
- ایکو فیمینزم: عورت، فطرت اور وجودی بقا کا مکالمہ - 03/07/2025
- پوسٹ رومینٹک محبت کا منفرد تصور - 23/06/2025
- عورت کی کئی شناختیں : ایک نفسیاتی اور سماجی الجھن کا تجزیہ - 15/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).