جنگ کا بیوپار اور بنیے کا پوسٹ کارڈ
منٹو اپنے ہی رنگ کا لکھنے والا تھا۔ امرتسر کے شرارتی لڑکے کی ابھی مسیں نہیں بھیگی تھیں کہ 1919 ءکا جلیانوالہ باغ ہو گیا۔ پنجاب میں مارشل لا لگ گیا۔ امرتسر کی سرکش گلیوں میں رینگنے پر مجبور کیے گئے محکوم ہندوستانیوں کی آنکھوں میں بے بسی کے انگارے سلگتے تھے لیکن سروں میں آزادی کی ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ ریٹائرڈ مگر دل پھینک سب جج غلام حسین کے سات سالہ لڑکے نے اردو زبان کے پرچے میں بار بار فیل ہو کرکٹرہ جیمل سنگھ کے چوباروں میں جوا کھیلنا شروع کر دیا۔ اس دوران اس کی ملاقات باری صاحب سے ہو گئی۔ باری صاحب نے اپنے تخیل کی رصدگاہوں میں اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار کے ستارے پڑھ لیے اور اسے انگلی پکڑ کر علم و ادب کے راستے پر لے گئے۔ نوجوان منٹو نے کم عمری ہی میں ’تماشا‘ ’نعرہ‘ اور ’1919 ءکی ایک رات‘ جیسے افسانے لکھے۔ یہ افسانے انگریز استعمار کی چیرہ دستیوں کے خلاف احتجاج کی صدائیں تھیں۔ انگریز کا سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اس کے نمائندوں کی رعونت ایسی ہی تھی جیسی تاریخ کے ہر حصے میں بڑی عالمی طاقتوں کی ہوتی ہے۔ وائسرائے کرزن ( 1859۔ 1925 ) نے کہا تھا کہ ’ہندوستان میں کانگرس کا زور ٹوٹ رہا ہے اور میں کانگرس کو دفن کر کے ہندوستان سے رخصت ہوں گا‘ ۔ یہ وہی لارڈ کرزن ہے جس نے تقسیم بنگال سے ہندوستان میں فرقہ ورانہ سیاست کی بنیاد رکھی تھی۔ کرزن ہی کے ایک ہم عصررڈ یارڈ کپلنگ نے لاہور کے پس منظر میں لکھی اپنی کہانی On The City Wallمیں جسم فروشی کو دنیا کا قدیم ترین پیشہ قرار دیا تھا۔ یہ تاریخ کی تنسیخ تھی۔ دنیا کے قدیم ترین پیشوں میں شکار، زراعت، سود بیاج، مویشی پالنا، گیسو تراشی، لوہے اور لکڑی کے اوزار بنانا، طب، تعمیرات، اتالیقی اور وکالت وغیرہ شامل ہیں۔ وکٹوریہ کے منافقت زدہ برطانیہ میں پیدا ہونے والے کپلنگ کو انسانی تاریخ میں جسم فروشی ہی کا پیشہ قدیم نظر آیا۔ یہ البتہ درست ہے کہ جنگ اور آبروریزی میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ درحقیقت آبروریزی جنگ کا ہتھیار ہے۔ جنگ معمولات زندگی معطل ہونے کا نام ہے اور جواب دہی کا بندوبست اوجھل ہوتے ہی درندگی جاگ اٹھتی ہے۔ جنگ مذہبی پیشوائیت کے بعد غیر پیداواری شعبوں میں قدیم ترین ہے اور انسانی تمدن کی تباہ کاری سے تجوریاں بھرنے کا کاروبار ہے۔
جنوبی ایشیا نے چند ہفتے قبل جنگ کی ایک نئی صورت کا تجربہ کیا ہے۔ زمینی سرحدیں پار کیے بغیر شکست و فتح کے فیصلے ہوئے۔ ایک فریق اپنے اہداف میں ناکام رہا، دوسرے فریق نے کامیابی سے جارحیت کا دفاع کیا ہے۔ جنگ میں ہار جیت سے قطع نظر عسکری تصادم کی معاشی قیمت تو ہوتی ہے۔ ہر ملک کا دفاعی بجٹ اپنی عساکر کے روزمرہ اخراجات کا تخمینہ ہوتا ہے۔ روزمرہ معمولات سے ہٹ کر ہر سرگرمی کے اخراجات کی فہرست الگ ہوتی ہے۔ پاکستان کی معاشی حالت جنگ سے قبل بھی مضبوط نہیں تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دیوالیہ پن کے کنارے سے کسی قدر استحکام کی طرف بڑھ رہی تھی۔ روایتی طور پر بجٹ سے ایک روز قبل ملک کی معیشت کی مجموعی صورتحال کا جائزہ پیش کیا جا تا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے 9 جون کو یہ مشق دہرائی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ گزشتہ برس میں پاکستان اپنے کلیدی معاشی اہداف مکمل نہیں کر سکا۔ پانی کی کمی، زرعی پیداوار میں تخفیف اور کل داخلی پیداوار کی شرح نمو میں کمی آئی۔ نتیجہ یہ کہ چار بڑی فصلیں گنا، کپاس، گندم اور مکئی کی پیداوار ہدف سے 13.5 فیصد کم رہی۔ صنعتوں اور خدمات کے شعبوں میں امکانی کارکردگی دکھائی نہیں جا سکتی۔ یہ تیسرا مسلسل مالی سال ہے کہ بڑے پیمانے کی مصنوعات میں کمی آئی ہے۔ شرح سود میں کمی کے نتیجے میں افراط زر 4.6 فیصد رہا۔ یہ ایک اہم کامیابی ہے اور گزشتہ ساٹھ برس میں پہلی مرتبہ افراط زر میں اس قدر کمی آئی ہے۔ کل داخلی پیداوار کا ہدف 3.56 فیصد تھا لیکن بتایا گیا ہے کہ مالی سال کے اختتام تک قومی پیداوار میں نمو کی شرح 2.8 فیصد رہے گی۔
اس مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں کلی داخلی پیداوار کی شرح ایک فیصد سے کچھ زیادہ رہی ہے۔ یہ امر ماورائے فہم ہے کہ آخری سہ ماہی میں ایسا کیا معجزہ رونما ہو گا کہ ترقی کی شرح نمو چھلانگ لگا کر 2.8 تک جا پہنچے گی۔ وزیر خزانہ اسے ’تدریجی ترقی‘ قرار دیتے ہیں لیکن تدریجی ترقی میں تو ایک قابل پیش گوئی تسلسل پایا جاتا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ مالی سال کی تین سہ ماہیوں میں ترقی کی شرح آخری سہ ماہی میں جست لگا کر دوگنا سے بھی زیادہ ہو جائے۔ ایک اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ معیشت کا کل حجم 338 ارب ڈالر رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2017 ءکے بعد سے ہماری معیشت 4 ارب کے نشان پر چکر لگا رہی ہے۔ ان آٹھ برسوں میں خطے کے دوسرے ممالک کا معاشی حجم ان سے کہیں زیادہ ہے۔ ہم بڑھتے ہیں تو 374 ارب پر آ جاتے ہیں اور کم ہوتے ہیں تو 264 پہ بیٹھ جاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں ہماری معیشت ایک خاص سطح سے آگے نہیں بڑھ رہی۔ اگر افراط زر 4.6 ہے تو معیشت کی شرح نمو 2.8 بھی کیوں نہ ہو، حتمی جمع تفریق میں تو ہم خسارے میں رہے۔ محمد اورنگزیب کے اس بیان سے ہماری کیا تشفی ہو کہ عالمی معیشت انحطاط پذیر ہے۔ اگر عالمی معیشت سے ایسا ہی موازنہ مقصود ہے تو دیگر ممالک کا معاشی حجم اور شہریوں کی قوت خرید بھی دیکھ لی جائے۔ گزرے ہوئے مالی سال میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 0.8 اور صحت پر جی ڈی پی کا 0.9 فیصد خرچ ہوا اور یہ خطے کے تمام ممالک میں کم ترین شرح ہے۔ شرح خواندگی 60.65 فیصد اور اوسط عمر 67.6 برس رہی۔ اس پر ہماری قومی قیادت ذہانت کے انخلا کو ’برین گین‘ کی خوشنما اصطلاح دیتی ہے۔ ملک سے ذہانت کا انخلا معدنیات کے انخلا سے کہیں زیادہ دور رس خسارہ ہے اور زیر نظر سطریں آپ تک پہنچنے سے پہلے 655 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ سامنے آ چکا ہو گا۔ پٹرولیم کی مصنوعات پر لیوی 78 روپے سے بڑھ کر 100 روپے کر دی جائے گی۔ بجٹ کے کچھ گوشے ایسے ہیں جنہیں یک سطری اختصار میں نمٹا دیا جائے گا۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ جنگ ایسا بیوپار ہے جس کے بعد بنیا یاددہانی کا پوسٹ کارڈ ضرور بھیجتا ہے۔
- پاکستان ایک قوم ہے - 09/07/2025
- خواجہ (آصف) پیا موری رنگ دے چنریا - 05/07/2025
- ایران کو شکست کیوں ہوئی؟ - 28/06/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).