ہمارے اسلامی کزن آل ابراہیم آخر ہمارے خلاف کیوں ہیں؟


Loading

ایک اہم سوال ہے کہ موجودہ دور میں آخر مسلمانوں کو ہی کیوں مار پڑ رہی ہے؟ اس سوال کا اگر ہم مسلمان کوئی منطقی جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے تو شاید مل بھی جاتا۔ جب حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حملہ کیا، میں نے اس حملے پر خوشی منانے والے دوستوں کو بولا کہ یہ خوشی لمحاتی ہے، دکھ لمبا ہے، معصوم عوام مریں گے۔ آج ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ ہو گیا غزہ کے فلسطینی دربدر ہیں اور مسلمان ممالک کی یہودی سرپرست امریکی ریاست کے صدر کی خوشامدیں اور قیمتی تحائف بھی کسی کام نہیں آ رہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم تعلیم، جمہوریت اور جمہوری رویوں سے دور ہیں اور مسلمان عوام، اشرافیہ اور حکمران طبقات جدید دنیا میں رہنے کے تقاضوں، پولیٹیکل اکانومی کی ہیئت، بین الاقوامی تعلقات کی ساخت اور ماہیت اور پوسٹ ماڈرنزم کے چیلنجز سے بالکل نابلد ہیں یا اپنے وقتی مفادات کے لئے جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں۔ ویسے بھی گھسی پٹی اور جدید دنیا میں ناقابل عمل عالمی خلافت کے علاوہ اسلامی دنیا کے پاس کوئی ٹھوس نظریہ بھی نہیں۔ کمیونزم مغربی جمہوریت اور سرمایہ داری کے عالمی سطح پر مقابلے کا دعویدار تھا جو اب ختم ہو چکا ہے۔ چین کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہے لیکن عملی طور پر سرمایہ داری کو مغرب سے زیادہ کامیابی سے اپنا چکا ہے۔ دنیا میں کیوبا کے علاوہ کوئی ملک نہیں جہاں صحیح معنوں میں کمیونزم آج بھی موجود ہے۔ چین اپنی سرحدوں سے باہر نظریے کو ایکسپورٹ کرنے کا دعویدار نہیں اور وہ اپنے بچاؤ کے لئے مناسب طاقت بھی حاصل کر چکا ہے۔ انڈیا اور ہندووں نے کبھی بھی تجارت، نظریے یا طاقت میں خود کو مغرب کے مقابل کے طور پر پیش نہیں کیا۔ چینی، روسی یا انڈین اگر مغرب کے ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں کی تہذیب اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ مسلمان ممالک تھوڑی سی طاقت ملنے کے بعد اپنی سرحدوں کے باہر اپنا سیاسی رسوخ یا مذہب پھیلانے کے شوق کے خبط میں مبتلا ہو جاتے ہیں جیسے ہمارے ایک بڑے پہنچے ہوئے اور پیری فقیری کا نیٹ ورک چلانے کے ماہر جرنیل نے طالبان کے کابل پر قبضہ کرنے بعد اگلے دن وہاں فاتحانہ انداز میں چائے پینے کی تصویر میڈیا میں ریلیز کی جو بعد میں ہمارے خوب گلے پڑی اور شاید ان کے بھی۔

مسلمان ممالک کے حکمران خود کو مافوق الفطرت مخلوق سمجھتے ہیں اور عوام کے رویے بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ پلے کسی کے کچھ ہو نہ ہو لیکن دماغ ساتویں آسمان پر ہو گا لیکن خود کو عقل کل سمجھیں گے۔ ہر عقل سے پیدل اور دماغی طور پر اپاہج اسلامی دنیا میں ہیرو ہو گا اور طاقت بھی زیادہ تر ایسے ہی نا اہل افراد کے ہاتھ میں ملے گی جو اپنی نا اہلی چھپانے کے لئے لوگوں اور اداروں پر مزید نا اہل مسلط کرتے ہیں۔ وہ نارمل رہنا جانتے ہی نہیں۔ یہاں جیسے ہی کسی کے پاس عہدہ، دولت، طاقت، شہرت آتی ہے وہ انسانوں کی کیٹیگری سے خارج ہو جاتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے بھکاری عربوں کے پاس جیسے ہی پیسہ آیا انھیں خارش ہونا شروع ہو گئی۔ سعودی وہابیت پھیلاتے رہے، صدام نے ایران اور کویت پر حملہ کر دیا۔ ایران اور پاکستان نے اپنے اپنے برانڈ کے مجاہد تیار کر کر کے ارد گرد کے علاقوں میں بھیجنے شروع کیے۔ ترکی کو بھی سلطنت عثمانیہ کے خواب آتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایرانی ملا، حماس، حزب اللہ، القاعدہ، داعش، جماعت الدعوہ، لبیک، جماعت اسلامی، بوکو حرام اور کھمبیوں کی طرح اگی ہوئی نام نہاد اسلامی جماعتیں اور گروہ وغیرہ وغیرہ اسلام کے حقیقی نمائندہ نہیں بلکہ یہ اپنے کرتوتوں اور حرکتوں سے مسلمان ممالک اور عوام کے لئے مزید مصیبتیں اور آزمائشیں لانے کا سبب بنتے ہیں گویا دوسرے الفاظ میں یہ اپنی حماقتوں کے ذریعے ان طاقتوں کے آلہ کار ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ مسلمان حکمران اپنے ممالک میں عوام کو دبا کر رکھتے ہیں اور اقلیتوں کو مزید دبا کر رکھتے ہی۔ جب بطور تارکین وطن مغرب میں جاتے ہیں تو وہاں بھی تبلیغ اور شریعت کے نفاذ کی ضد شروع کر دیتے ہیں۔ تو جب آپ دنیا کی قیادت کے دعویدار ہوں اور روٹی دستیاب ہوتے ہی ایک ہاتھ میں کشکول اور دوسرے میں تلوار لے کر دنیا کی امامت پر چل نکلنے کے شوقین ہوں اور اس کے لئے وقتاً فوقتاً ادھر ادھر انگلی کرنے سے باز نہ آتے ہوں تو پھر یہی ہوتا ہے۔ کوچوانی کے ساتھ نوابی شوق کے نتائج اچھے نہیں ہوتے۔ عقل سے پیسے کمائے جا سکتے ہیں اور ان پیسوں سے عقل مندوں کو ملازم رکھ کے مزید پیسے کمانے کا بندوبست کیا جاسکتا ہے۔ یہودیوں کے علم اور عقل کا اندازہ ان کے نوبل انعامات سے لگایا جاسکتا ہے۔ جدید دنیا کے بڑے مفکرین جیسے سپینوزا، آرتھر دانتو، کارل مارکس، آئن سٹائن، اور سینکڑوں دیگر مفکرین اور سائنسدان نسلاً یہودی تھے۔ یہودیوں نے کئی صدیوں تک عیسائیوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں جبر سہا ہوا ہے۔ انھوں نے ایجادات، دریافتوں، سائنسز اور دیگر علوم میں ٹارگٹ اپروچ سے محنت کی۔ یہودیوں کو دنیا نے مارا، پیٹا ذلیل کیا مگر انھوں نے کوئی جہاد، گوریلا جنگ، کوئی نفرتی بیانیہ، کوئی مولوی نہیں پیدا کیے۔ نا مذہب کی بنیاد پہ رونا دھونا کیا بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور علم پہ کام کیا اور عالمی دنیا سے اچھے تعلقات بنائے۔ آج یہودی اپنے پاؤں جمانے کے بعد جو کرنا چاہتے ہیں کر رہے ہیں اور پچپن اسلامی ممالک، اقوام متحدہ اور پوری دنیا محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔

اور ان کے پیسے کا اندازہ ان کے امریکہ اور یورپ پر تسلط سے لگایا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ سپرمین نہیں اور نہ فضول بڑھکیں مارتے ہیں۔ ان کے حکمران اور عوام نارمل لوگوں کی طرح رہتے ہیں اور اسرائیلی امریکہ کی مکمل طاقت اور ٹیکنالوجی اور اپنی عقل کے ساتھ وہ چمتکار کر سکتے ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں یعنی ایک چھوٹے سے ملک کے سامنے سب بے بس ہیں۔ ایک دفعہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی نے کہا تھا کہ امریکی خفیہ ایجنسیاں ہم سے اس لئے بھی بہتر ہیں کہ ان کے پاس پیسہ اور وسائل بہت ہیں۔ ہم نے کوئی نیا آلہ بھی خریدنا ہو تو پیسوں کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے۔ وہ مخبر کے لئے انعام اتنا بڑا رکھ دیتے ہیں کہ ملزم کے گھر والے ہی اسے پکڑا دیتے ہیں کہ اب روپوش بابا جی ویسے بھی کسی کام کے نہیں۔ پابندیوں کی وجہ سے ایرانی عوام کے مالی حالات اچھے نہیں اور پھر مسلسل ایک ہی گروہ کی جابرانہ حکومت کے نتیجے میں بہت سے لوگ اپنی سرکار سے ناخوش بھی ہوتے ہیں تو اس صورت جرائم پیشہ یا سرکار سے ناراض افراد کو بہت سا پیسہ دکھایا جائے تو جاسوس اور ایجنٹ مل ہی جاتے ہیں۔ ایران پر جہازوں سے بمباری سے ان کے لئے زیادہ پریشان کن موساد کی ایران میں زمینی کارروائی ہو گی۔ انھوں نے جس طرح چن چن کر دفاع سے متعلقہ قیادت کو مارا ہے اس سے ایرانی ریاستی مشینری ہکا بکا رہ گئی ہے۔ اسرائیل کو کوئی مربوط یا موثر جواب دینے سے زیادہ ان کی پریشانی یہ ہو گی کہ اللہ جانے ابھی اندر اور کتنے ایجنٹ ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر رہا ہو گا۔ عیسائی اور یہودی دونوں ہمارے اسلامی کزن ہیں اور اس لئے فلسطین میں امن کیے مڈل ایسٹ ممالک، اسرائیل اور دیگر ملکوں کی مدد سے تمام فریقوں میں سال 2020 میں ”معاہدہ ابراہیم“ ہوا تھا۔ شاید آل ابراہیم ہی دنیا میں اسلامی جہاد اور اسلامی انتہا پسندی کا بہترین توڑ ہیں۔ ویسے کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ مسلمان ہر نماز میں آل ابراہیم کی سلامتی کی دعا مانگتے ہیں اور نماز کے بعد تباہی کی بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).