قوم پرستی، بھٹو ازم اور وکلا: سندھ کے مستقبل کی تین راہیں
کہتے ہیں تاریخ صرف کتابوں میں نہیں، زمین پر بھی لکھی جاتی ہے۔ سندھ کی زمین ایسی کئی کہانیوں کی گواہ ہے۔ موہنجو دڑو کی مٹی سے لے کر دریا بادشاہ کے کناروں تک، اور بھٹو کے قافلے سے لے کر آج کی وکلا تحریک تک۔ یہ وہی سندھ ہے جہاں کبھی جنرل ضیا الحق کے خلاف چوکوں اور چوراہوں پر نفرت انگیز نعرے لکھے جاتے تھے، جہاں ایک وقت تھا کہ محمد خان جونیجو کے خلاف دیواروں پر ”نہ پی جو نہ ماء جو، جونیجو جونیجو“ لکھا ہوتا تھا۔ یہ وہی سندھ ہے جہاں بھٹو خاندان نے اپنا خون دیا، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، لیکن کبھی عوام سے منہ نہیں موڑا۔ اسی لیے وہ دلوں پر راج کرتے رہے لیکن آج معاملہ مختلف ہے۔
اب سیاست کیمرے کے اینگل سے چلتی ہے۔ عوامی ملاقاتوں کی بجائے میڈیا بریفنگز ہوتی ہیں، جہاں سوال نہیں، صرف تصویریں بنتی ہیں۔ آصف زرداری سیاسی اور جسمانی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، بلاول بھٹو اپنی شکل اور لہجے کو ذوالفقار علی بھٹو سے مشابہ بنانے میں مصروف ہیں، جبکہ آصفہ بھٹو بینظیر کی کاربن کاپی بننے کی کوشش کر رہی ہیں۔ لیکن دونوں عوام کی زبان، ان کے دکھ، ان کے کلچر، ان کے میڈیا، ان کے گاؤں کی حقیقتوں سے نابلد ہیں۔ نہ انہیں سنتے ہیں، نہ سمجھتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں۔ صرف بریفنگ لیتے ہیں کہ عوام کو کیسے ”کنٹرول“ کیا جائے۔
سندھ میں آج کے سیاسی کارکن کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی ”جیتنے والے گھوڑے“ ہی صرف سیاست کے میدان میں دوڑ سکتے ہیں یا وہ وقت آ چکا ہے جب اصول، جدوجہد اور عوامی خدمت ہی اصل معیار ہوں گے؟ نئی وکلا سیاست اس سوال کا جواب بن کر ابھری ہے۔
یہ وکلا تحریک اب صرف عدالتوں کے فیصلے تک محدود نہیں رہی۔ یہ دریا سندھ کے کناروں سے پھوٹتی عوامی بیداری کا نشان بنتی جا رہی ہے۔ اس تحریک میں شامل ہونے کے لیے لوگ اندرونِ سندھ اور بیرونِ ملک سے واپس آ رہے ہیں۔ ہمارے سینئر صحافی دوست غلام رسول کمبھر بتاتے ہیں کہ وہ اسلام آباد سے خواتین کے حقوق کے کارکنان کی ایک کوسٹر بھر کر لا رہے تھے۔ ”وہ سب یوں جا رہے تھے جیسے دریا بادشاہ کی شادی میں شامل ہونے جا رہے ہوں،“ وہ ہنستے ہوئے کہتے ہیں، ”لیکن ان کی آنکھوں میں امید اور عزم تھا۔ وہ جانتے تھے کہ سندھ کے مستقبل کا فیصلہ اب عدالتوں سے باہر عوامی شعور کے میدان میں ہونا ہے۔“
کیا وکلا تحریک سندھ کے سیاسی منظرنامے کو بدل سکتی ہے؟ کیا قوم پرستی، جو ماضی میں صرف نعرے تک محدود رہی، اب وکلا اور مزدور طبقے کے ساتھ جڑ کر عملی سیاست میں قدم رکھے گی؟ کیا بھٹو ازم ایک بار پھر نئی روح کے ساتھ سندھ کی گلیوں میں جنم لے گا؟ یا پھر صرف وہی آگے بڑھے گا جس کے پاس پیسوں کے جہاز ہوں گے اور جمیل سومرو جیسے دربانوں سے بنا کر رکھی ہو گی۔
یہ وقت دریا بادشاہ، موہنجو دڑو اور بھٹو کے سندھ کے دوبارہ سوچنے کا ہے۔ سندھ کے پاس تین راہیں ہیں قوم پرستی کی سچائی، بھٹو ازم کی روح، اور وکلا تحریک کی عوامی بیداری۔ فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ بس کیمرے کے اینگل سے ہٹ کر دیکھنا ہو گا۔
- کیا عمران خان کی رہائی اور بلاول کی پیش قدمی صدر زرداری کا سیاسی منصوبہ ہے؟ - 08/07/2025
- اسلام آباد: ترقی یافتہ شہر، مگر خواتین کے لیے خوف کی سرزمین کیوں؟ - 05/07/2025
- کربلا اور آج کا سندھ - 02/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).