صرف ریجنل ہی نہیں قومی مصالحت بھی ضروری ہے!
آذربائیجان میں علاقائی تعاون کی تنظیم ای سی او کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے علاقائی تنازعات حل کرنے کے لیے بین الملکی تعاون کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے۔ تاہم وزیر اعظم کو اس کے ساتھ ہی یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی ملک صرف علاقائی تعاون یا عالمی سفارت کاری کے ذریعے کامیابی حاصل نہیں کرتا بلکہ اس مقصد کے لئے قومی یک جہتی کا حصول بھی اہم ہے۔
بدقسمتی سے حکومت ملکی سطح پر سیاسی معاملات حل کرنے اور تصادم کی کیفیت سے نمٹنے کی کوئی عملی کوشش کرتی دکھائی نہیں دیتی۔ اس کے برعکس یہ اشارے دیے جا رہے ہیں جیسے حکومت تحریک انصاف کے لیے تمام سیاسی راستے بند کر کے اس کے لیڈروں کو طویل المدت سزائیں دلا کر ملک میں یک طرفہ سیاسی بالادستی کا ماحول پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ بدقسمتی سے ایسی کوئی بھی کوشش حقیقی سیاسی حقوق دبائے بغیر کامیاب نہیں ہوتی۔ حکومت نے اگر یہ راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کے سنگین اور تکلیف دہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں سیاسی رائے کو دبانے کے عمل میں سب سے پہلے آزادی رائے کے اظہار کے راستے بند کیے جاتے ہیں۔ آزادی رائے پر کسی بھی قسم کی قدغن درحقیقت جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہوتی ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے آذربائیجان میں اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے حال ہی میں ایران اسرائیل جنگ کے علاوہ پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کا حوالہ دیا اور کہا کہ ای سی او جیسے ادارے علاقائی استحکام میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ بات درست ہونے کے باوجود اس حقیقت سے انکار کرتی ہے کہ کسی ملک میں اگر سیاسی ہم آہنگی اور احترام و مواصلت کا وسیع تر ماحول موجود نہ ہو تو اس ملک کی حکومت بین الاقوامی فورمز پر بھی بے توقیر رہتی ہے۔ اگرچہ ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے ناجائز اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف تھی لیکن اس کے باوجود اسرائیل کو ایران کے مقابلے میں عالمی سطح پر زیادہ سفارتی کامیابی نصیب ہوئی۔
اس کی ایک وجہ ضرور اسرائیل کے ساتھ امریکہ اور یورپی ممالک کی شیفتگی ہو سکتی ہے لیکن سب سے اہم ترین پہلو یہ ہے کہ اسرائیل نے چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرا ہونے کے باوجود اپنے ملک میں ایک جمہوری نظام قائم کیا ہوا ہے۔ وہاں کسی حد تک میڈیا آزاد ہے اور حکومت کی غلط پالیسیوں اور جنگ جوئی کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل ہے۔ اس کے برعکس ایران میں آمرانہ پیشوائیت کا نظام مسلط ہے۔ ایرانی لیڈروں نے اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود خود کو دنیا سے الگ کر لیا اور اس پر ہر طرح کی اقتصادی پابندیاں عائد ہیں۔ اس سفارتی و معاشی تنہائی سے ایرانی حکمرانوں کی زندگی تو متاثر نہیں ہوتی لیکن ملک کے کروڑوں باشندے بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ جنگ کے بعد امید کی جا رہی تھی کہ ایرانی قیادت ہوشمندی کا ثبوت دے گی لیکن ابھی تک اس کی طرف سے ایسا کوئی اشارہ موصول نہیں ہوا۔ بدقسمتی سے ایرانی لیڈروں نے اگر اپنا طرز عمل تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی تو چند ماہ یا سال میں ایک بار پھر اسے کسی بیرونی حملے میں زیادہ نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔
اسی طرح بھارتی حملے کا ثابت قدمی سے مقابلہ کر کے اور بھارتی جارحیت کو ناکام بنا کر پاکستانی افواج نے ضرور پوری دنیا میں سرخروئی حاصل کی ہے۔ لیکن ریاست کی علامت نمائندہ حکومت کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا۔ شہباز شریف کی حکومت انتخابی طریقہ کار کے تحت معرض وجود میں آئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وزیر اعظم ملک کے آرمی چیف کی بجائے عوام کو جواب دہ ہیں۔ لیکن وہ اس باریک فرق کو سمجھنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ مئی کی جھڑپوں کے بعد سے پاکستانی حکومت نے ہر طرح سے پاکستانی فوج کو سہولتیں دینے اور اعزاز عطا کرنے کا اہتمام تو کیا ہے لیکن جن عوام کے گرمجوش وجہ تعاون و یک جہتی کی وجہ سے پاک فوج نے بھارت کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں، انہیں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ پاک فوج نے مئی کے دوران پاکستان پر مسلط کی ہوئی بھارتی جنگ کا مناسب جواب دے کر اپنا فرض ادا کیا لیکن کیا حکومت نے بھی پاکستانی عوام کو اس جنگ میں متحد رہنے اور قومی مقصد کے لیے یک آواز ہونے پر کوئی سہولت دینے کی کوشش کی؟
جب عوام کو سہولت دینے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد بجٹ میں دی گئی مراعات یا غریبوں کی امداد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ جیسے منصوبوں کا حوالہ نہیں ہوتا بلکہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ حکومت عوام کو زیادہ جمہوری حقوق دے گی، ملک میں آزادی رائے کو یقینی بنایا جائے گا، اختلاف رائے کی بنیاد پر خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی اور اگر ماضی میں انتخابی طریقہ کار میں کچھ کوتاہیاں یا اختلافات سامنے آئے تھے تو اب ان کی تلافی کی جائے گی۔ حکومت کے پاس قانون سازی اور سیاسی پیش قدمی کے تمام آپشنز موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں اتحاد کی بجائے انتشار، سیاسی احترام و یک جہتی کی بجائے انتشار و بے چینی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ پالیسی کسی مضبوط ترین حکومت کو بھی کمزور کر سکتی ہے۔ شہباز شریف کی حکومت تو ویسے بھی عوامی حمایت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی اور سپریم کورٹ سے حاصل ہونے والے فیصلوں کی مرہون منت ہے۔
اس کے برعکس بھارت کا معاملہ دیکھا جائے تو وہاں نام نہاد ہی سہی لیکن ایک جمہوری نظام کام کر رہا ہے۔ نریندر مودی کی ذات اور حکمت عملی سی ہزار اختلاف کے باوجود یہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں کامیاب ہو کر اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔ وہاں انتخابات میں دھاندلی کا کوئی الزام سامنے نہیں آیا اور سب سیاسی عناصر نے انہیں قبول کیا۔ مودی کو کسی ہائبرڈ نظام کے تحت ’قوت‘ فراہم نہیں کی جاتی۔ وہاں جمہوری ادارے کام کر رہے ہیں اور بھارت کی مسلح افواج حکومت کے فیصلوں اور وزیر اعظم کے احکامات کی پابند ہیں۔ یہ فرق ریجنل یا عالمی سطح پر احترام و قبولیت حاصل کرنے کے حوالے سے بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ شہباز شریف سپریم کورٹ کے ایک فیصلے سے مخصوص نشستوں میں ’اضافی مگر ناجائز‘ حصہ ملنے کے بعد خود کو مضبوط اور محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن یہ خوش گمانی ملکی سیاست میں ایک اچانک تبدیلی سے مایوسی و ناکامی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔
ریجنل تعاون کو فروغ دینے والے وزیر اعظم کو قومی سطح پر ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کی بجائے شہباز شریف کی حکومت مئی کی جنگ میں فوج کی کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھ کر یہ سمجھنے کی غلطی کر رہی ہے کہ اب اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کوئی ایسی حکومت ہی ایسے بے بنیاد گمان میں مبتلا ہو سکتی ہے جو بنیادی جمہوری اقدار پر یقین ہی نہ رکھتی ہو۔ حیرت کا سبب ہو گا کہ عمر عزیز کا نصف سے زائد حصہ سیاست کی نذر کرنے اور سرد و گرم دیکھنے کے باوجود شہباز شریف یا نواز شریف عوامی حمایت کی ضرورت و اہمیت سے بے خبر ہوجائیں۔ اور ملک پر جابرانہ طرز حکومت مسلط کرنے کی کوشش کی جائے۔ آج ہی وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے پاکپتن کے دورہ کے دوران ایک ہسپتال کے انتظامی لیڈروں کو معطل کرنے اور گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے۔ یہ طریقے مطلق العنان حاکم اختیار کرتے ہیں۔ جمہوری لیڈر انتظامی اداروں کو مضبوط کر کے احتساب کا نظام استوار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ کسی وزیر اعلیٰ کو ’مانیٹر‘ بننے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔
اس وقت کوٹ لکھپت جیل سے تحریک انصاف کے لیڈروں نے سیاسی مصالحت اور مذاکراتی عمل شروع کرنے کی بات کی ہے۔ اس خواہش کا اظہار تحریک انصاف کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی، سینیٹر اعجاز احمد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد، عمر سرفراز چیمہ اور میاں محمود الرشید کے ایک کھلے خط میں سامنے آیا ہے۔ لیکن دوسری طرف حکومت کے علاوہ پی ٹی آئی کی قیادت بھی اس تجویز پر کوئی تبصرہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ اڈیالہ میں قید عمران خان شاید ابھی تک ’ڈٹے رہنے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وزیر اعظم نے مذاکرات کے زبانی دعوے تو کیے ہیں لیکن سیاسی ماحول کی تلخی کم کرنے کے لیے کوئی عملی کوشش نہیں کی۔ اس کی بجائے کبھی کوئی صحافی یہ خبر لاتا ہے کہ حکومت صدر آصف زرداری کو عہدے سے ہٹانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور کبھی خیبر پختون خوا کا گورنر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وفاقی حکومت نے اسے کے پی کے میں حکومت تبدیلی کا مشن سونپا ہے۔ ایسے دعوے یا کوششیں سیاسی ہم آہنگی کی تمنا کو روندتی ہیں اور جمہوریت کے نام پر آمرانہ نظام مسلط کرنے کی درپردہ خواہش عیاں ہوتی ہے۔
وزیر اعظم آذار بائیجان سے واپس آ کر کسی نئے غیر ملکی دورہ پر روانگی سے پہلے قوی یکجہتی کا کوئی منصوبہ سامنے لائیں تاکہ اگلی بار جب وہ کسی غیر ملکی لیڈر سے ملیں تو ان کا احترام عسکری قیادت کے نمائندے کی بجائے، پاکستانی عوام کا لیڈر ہونے کے ناتے کیا جائے۔
- کیا پاکستان بھارت کو مطلوب افراد کو بھارتی حکام کے حوالے کر سکتا ہے؟ - 07/07/2025
- صرف ریجنل ہی نہیں قومی مصالحت بھی ضروری ہے! - 05/07/2025
- مخصوص نشستیں ملنے کے بعد دو تہائی کا جشن - 04/07/2025
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).