کیا صدر زرداری کو صدارت سے ہٹایا جا رہا ہے؟
گزشتہ چند دنوں سے کہا جا رہا ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹانے کے لئے کوششیں تیز کی جا رہی ہیں۔ کیا یہ واقعی ایسا ہی ہو رہا ہے تو پھر تو پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہو گیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو یہ سب صدر پاکستان کی رضامندی کے ساتھ ہو رہا ہے، مطلب کہ ایک ڈیل کے تحت کے صدارت جائے اور وزیراعظم شپ بلاول بھٹو کو مل جائے۔
اب یہ سب کہنا قبل از وقت ہے مگر کہنے والے یہ بھی کہ رہے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری سے اسٹیبلشمنٹ سمیت ریاستی اداروں کو جو کام لینے تھے وہ لے چکے، اب صدر صاحب کی ملکی سیاست میں ضرورت نہیں رہی ہے کیونکہ ان کی عمر اور ان کی بیماری کی وجہ سے اب وہ اتنا چست نہیں رہے ہیں کہ وہ تمام معاملات کو ڈیل کر سکیں۔ جس طرح سے صدر آصف زرداری کا ایک مقام رہا ہے کہ وہ خطروں کے کھلاڑی ہیں، ہر پتا سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں، مگر وہ ذہنی و جسمانی طور پر کمزور ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ان کو سائیڈ لائن لگانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اگر صدر آصف علی زرداری کو سائیڈ لائن لگایا گیا تو اس کا اثر پاکستان پیپلز پارٹی پر تو پڑے گا ہی پڑے گا مگر اس کے بھیانک نتائج یہ بھی نکلیں گے کہ یہ کہانی صرف صدر آصف تک نہیں رکے گی بلکہ پھر باری باری سب کا نمبر آئے گا اور سب سے پہلے نواز لیگ کا نمبر آئے گا کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی میاں نواز شریف کو وہ سب کچھ کرنے نہیں دے گی جو نواز شریف کا ویژن ہے۔
ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ جب بھی کسی حکمران نے، چاہے چھوٹے پیمانے پر ہی سہی مگر ملک کو بہتری کی طرف لے جانے کی کوشش کی ہو اور وہ پھر اپنے منصب پر براجمان رہا ہو۔ یہ شاید اس ملک کی قسمت میں نہیں ہے کہ اس ملک کے ساتھ تھوڑی بھی مخلصی دکھانے والے سیاستدانوں کو چھوڑا گیا ہو۔
اس کی مثال شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی لی جا سکتی ہے کہ وہ جب 2007 میں پاکستان آ رہی تھیں تو اس وقت کے آرمی چیف جنرل مشرف نے بار بار یہ کہا تھا کہ بی بی ملک نہ آئے اس کی جان کو خطرہ ہے۔
شہید رانی نے اس وقت مشرف کی اس طرح کی دھمکیوں کو نظر انداز کیا اور بلٹ پروف کنٹینر تیار کروایا گیا اور پھر سب نے دیکھا کہ کس طرح سے شہید رانی نے کراچی ائرپورٹ پر اتری تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ اللہ پاک سے دعا کر رہی تھیں۔ وہ ہی شاید لمحہ تھا جب شہید رانی نے یہ طے کیا ہو گا کہ اب اس ملک کی عوام کی قسمت کو بدلنا ہے اور وہ ملک اور عوام کی قسمت کو بدلیں گی۔
شہید رانی کے پاکستان میں پہنچنے کے بعد پورے ملک میں طوفانی دورے اور جلسے اور ان کی تقاریر اس بات کا ثبوت تھے کے وہ اس بار ملک اور عوام کے لئے اپنی جان بھی دے دیں گی مگر ملک اور عوام کی قسمت بدلیں گی۔ پھر وہ ہی ہوا کہ جب کوئی بھی اس ملک کو سیدھے ڈگر پر لے جانے کی کوشش کرے گا تو اس کو اس طرح سے راہ سے ہٹایا جائے گا جس طرح سے شہید رانی کو راولپنڈی میں شہید گیا گیا۔
اگر شہید بینظیر بھٹو کو شہید نا کیا جاتا تو آج اس ملک کی قسمت کچھ اور ہوتی جو کہ شہید رانی کے تقاریر سے واضح طور سنائی دے رہا تھا کہ وہ اس بار کچھ ایسا کریں گی کے عوام اور ملک کی قسمت چمک اٹھے گی۔
سو بات ہو رہی تھی کہ چند دنوں سے سوشل میڈیا صدر آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹانے کی بحث چل رہی ہے۔
اگر ایسا ہوا تو یہ ملک کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہو گا کیونکہ میرے خیال میں اب ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی مزید سیاست میں گنجائش نہیں رہی ہے عوام اب اسٹیبلشمنٹ سے خائف ہو چکے ہیں۔
فرض کرلیتے ہیں کہ اگر صدر آصف علی زرداری کو صدارت سے ہٹایا جاتا ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت بڑا نقصان ہو گا، جس کا صدر آصف علی زرداری بخوبی اندازہ ہے کیونکہ اس وقت اگر پاکستان پیپلز پارٹی اس شکل میں موجود ہے تو وہ صرف صدر زرداری کی وجہ سے ہے ورنہ پاکستان پیپلز پارٹی کب کی ٹوٹ چکی ہوتی۔
صدر آصف علی زرداری کو ہٹانے میں اگر نواز لیگ بھی شامل ہو رہی ہے تو اس کو بھی سوچنا چاہیے کہ اگر وہ کسی اور کے لئے گڑھا کھود رہی ہے تو ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اس کو بھی اسی گڑھے میں گرنا پڑے گا۔ سو اس لئے نواز لیگ کو سمجھنا ہو گا کہ اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے سیاسی پارٹیوں اور سیاستدانوں کو استعمال کرتی آئی ہے اب مزید استعمال ہونے کا مطلب ہے کہ پھر کوئی بھی پارٹی نا تو عوام کے ساتھ مخلص ہے اور نا ہی اس ملک کے ساتھ مخلص ہے بس ان کو پھر اپنے اقتدار کی لالچ ہوتی ہے اور وہ اس اقتدار کے سوائے سرزمین پر سروائیو نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ان کو ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں جس سے ان کے اقتدار کو طول مل سکے۔
بہرحال یہ تو ابھی تک صرف افواہیں ہی ہیں آگے دیکھتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے مگر لگ یہ ہی رہا ہے کہ جس طرح کی صورتحال پیدا کی جا رہی ہے اس سے تو یہ موجودہ حکومت بھی اپنے پانچ سال پورے کرتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔
جس طرح کا بجٹ پیش کیا گیا تھا اس سے ہی لگ رہا تھا کہ یہ بجٹ کہیں اور سے آیا ہے، ان حکمرانوں کو تو صرف پرچہ دیا گیا تھا کہ اس کو ایوان میں صرف پڑھنا ہے۔ سو اگر یہ ہی صورتحال رہی تو پھر عوام جو پہلے ہی بہت کچھ بھگت چکے ہیں، ان کے پیمانہ لبریز ہونے بھی شاید اب دیر نہ لگے کیونکہ اس ملک کے ساتھ بہت مذاق ہو چکا ہے اور نہ تو یہ ملک مزید مذاق سہنے کی سکت رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس ملک میں بسنے والی قوم مزید کچھ سہ سکتی ہے۔
- کیا صدر زرداری کو صدارت سے ہٹایا جا رہا ہے؟ - 05/07/2025
- ڈاکٹر شاہنواز کمبھر کا قتل - 17/10/2024
- سندھ میں گرمی اور درختوں کے دشمن افسر - 27/06/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).