عرب دنیا کا جنسی روگ اور یورپ


عرب پناہ گزینوں نے اہل مغرب کی آنکھیں کھول دیں. انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ جس جنسی عفریت کو وہ مسلمانوں خصوصاً عربوں کا مسئلہ سمجھ کر نظرانداز کرتے رہے تھے وہ اب ان کے دروازوں پر دستک دے رہی تھی۔

سن 2011کے عرب انقلاب نے اپنی ابتدا میں عرب نوجوانوں میں جو جوش و خروش پیدا کیا تھا وہ بہت جلد ٹھنڈا پڑ گیا. جن تحریکوں نے عرب بہار کو جنم دیا وہ نہ صرف ناقص بلکہ بدنما ثابت ہوئیں. وہ عربوں کے فرسودہ خیالات، ثقافت، مذہب، اور قبائلی طرز کی معاشرتی اقدار خصوصاً جنس سے متعلق عربوں کے رویے کو بدلنا تو کجا، انھیں چھونے میں بھی ناکام رہیں. ثابت ہوا کہ ہر انقلاب کا حاصل جدیدیت نہیں ہے.

کولون اور جرمنی کے دیگر کئی شہروں میں مغربی خواتین کو ہراساں اور ان پر جنسی حملے کرکے عرب پناہ گزینوں نے یورپ کو احساس دلا دیا کہ عرب دنیا بلکہ سارا عالم اسلام جن مہلک امراض کا شکار ہے ان میں سے ایک عورت ذات کے ساتھ صحت مند رشتے کا فقدان بھی ہے. کہیں تو عورتوں کو پردے میں چھپا کر رکھا جاتا ہے اور کہیں انھیں معمولی سی لغزش پر کوڑوں بلکہ سنگساری کی وحشیانہ سزاو¿ں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. جن اسلامی ملکوں میں عورت کی حالت قدرے بہتر ہے وہاں بھی عورت ذات کو معاشرے میں بدنظمی یا بے حیائی پھیلانے کا سبب سمجھا جاتا ہے. اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے کچھ یورپی ملکوں نے عرب اور مسلم مہاجرین کی رہنمائی اور عورتوں کے بارے میں ان کے رویے کی اصلاح کے لئے ہدایت نامے مرتب اور شائع کئے ہیں.

الجزائر، تیونس، شام، یا یمن کے سخت گیر اور قدامت پرست قبائلی یا پدری سماج میں مروج کٹر اسلامی یا شرعی قوانین اور علاقائی رسم و رواج کی موجودگی میں سیکس یا جنس کے موضوعات پر کسی قسم کی گفتگو کرنا سخت ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے. جنس کے معاملے میں عرب معاشرے کے اس غیر فطری رویے کا نتیجہ ہے کہ عرب مرد یا تو اپنی فطری جنسی خواہشات کو دبائے رکھتے ہیں یا وہ ہر وقت احساس گناہ میں مبتلا رہتے ہیں. یہ صورت حال اسلام کے سنہری دور سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتی. اسلام کے اس دور عروج میں لوگ نہ صرف الف لیلہ کی شہر زاد جیسی کتابیں پڑھتے تھے بلکہ شیخ نفزوی کی کتاب \”جنسی لذت کا خوشبودار باغ\” بھی ان کی دسترس میں تھی. خیال رہے اس کتاب میں شہوانیت اور عورت مرد کے جنسی ملاپ پر کھل کر بات کی گئی ہے.

لیکن آج سیکس یا جنس عرب ملکوں میں ایک متناقض چیز بن چکی ہے. جنس کے ذکر پر عربوں کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے جیسے عرب دنیا میں جنس کا کوئی وجود ہی نہیں. لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے. جنس پر گفتگو ناپسندیدہ سہی مگر یہ ہر جگہ موجود ہے. عرب کتنا ہی انکار کریں یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ان کے اذہان پر ہر وقت جنس سوار رہتی ہے. عربوں میں ویاگرا کی بے پناہ مقبولیت اس کا ثبوت ہے. اگرچہ عرب اپنی عورتوں کو برقعوں میں چھپا کر رکھتے ہیں، اس کے باوجود عورتوں اور مردوں کے درمیان نامہ و پیام اور دو طرفہ رابطوں کا سلسلہ کبھی منقطع نہیں ہوا.

مردوں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا موضوع بھی اکثر عورت ذات ہی ہوتی ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک مردانگی، عزت، اور خاندانی اقدار کی اساس عورت ہی ہے. کئی اسلامی ملکوں میں عورتوں کو پبلک یا عوامی مقامات تک رسائی حاصل ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہ اپنے جسموں کو چھپا کر رکھیں تاکہ قدامت پرست دیندار مسلمانوں اور مفت کی روٹیاں کھانے والے بیکار نوجوانوں کے سفلی جذبات مشتعل نہ ہوں. بدقسمتی سے عرب اور قدامت پرست مسلمان آج بھی عورت ذات کو معاشرے کی اخلاقی اقدار کی تباہی و بربادی کا مظہر یا سبب سمجھتے ہیں. کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مختصر اسکرٹ یا تنگ جینز پہننے والی عورتیں زلزلوں کا سبب بنتی ہیں. نیز مال و جائیداد کی طرح عورت کو بھی ملکیت سمجھا جاتا ہے یعنی اس کی شناخت باپ یا خاوند کے ذریعے ہوتی ہے. اس کی اپنی کوئی شناخت نہیں.

یہ تضادات معاشرے میں ناقابل برداشت تناؤ کی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں. جنسی خواہش تو موجود ہے لیکن اس کے اخراج کا کوئی ذریعہ نہیں. حتیٰ کہ شادی شدہ جوڑوں کو بھی پیار و محبت کے اظہار یا جنسی ملاپ کے لئے مناسب جگہ یا تنہائی میسر نہیں. عرب فرد یا افراد کی فطری خواہشات کو صدیوں پرانی قبائلی یا معاشرتی اقدار کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں. جنسی خواہشات پر یہ جبری بندش بالاخر عرب نوجوانوں کو بیہودگی کی حد تک جنسی ہیجان میں مبتلا کر دیتی ہے. ایسے مواقع پر انسان محبت کا تجربہ کرتا ہے. لیکن عربوں نے محبت کے فطری طریقوں یعنی آمنے سامنے اظہار محبت اور ترغیب محبت پر پابندیوں عاید کر رکھی ہیں. نیز ان کے سر پر عورت کی دوشیزگی یا پاک دامنی کو محفوظ رکھنے کا جنون سوار ہے. لہٰذا عرب معاشرے میں عورتوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے. پولیس بھی مردوں اور عورتوں کو اخلاقیات کے دائرے میں رکھنے کے لئے گلیوں اور بازاروں کا گشت کرتی ہے. اس قدر پابندیوں اور نگرانیوں کے باوجود اکثر عرب لڑکیاں اپنی دوشیزگی کھو دیتی ہیں. پھر غیور والدین یورپی یا امریکی سرجنوں کی خدمات حاصل کرکے اپنی لڑکیوں کی دوشیزگی بحال کراتے اور خاندان کی ’عزت‘ بچا لیتے ہیں.

کئی اسلامی ملکوں میں خدائی فوجداروں نے عورت ذات کے خلاف باقاعدہ اعلان جنگ کر رکھا ہے. الجزائر میں گرمیاں آتی ہیں تو انتہا پسند اماموں اور شعلہ بیان ٹی وی مبلغوں کے خطابات سے متاثر مقامی سلفی نوجوان گلیوں محلوں خصوصاً ساحلوں پر جا کر عورتوں کے جسموں پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں. پولیس بھی عوامی مقامات پر جوڑوں حتیٰ کہ شادی شدہ جوڑوں کی بھی سخت نگرانی کرتی ہے. پیار و محبت کے متلاشیوں کا باغوں میں داخلہ ممنوع ہے. نیز بنچوں کو آرے سے کاٹ دیا جاتا ہے تاکہ جنس مخالف کے افراد ان پر اکھٹے نہ بیٹھ سکیں. نتیجہ یہ کہ محبت کے بھوکے نوجوان تخیلات کی دنیا میں رہنے پر مجبور ہیں. ان کی یہ خیالی دنیا یا تو مغرب کا آزاد اور بے حجاب معاشرہ ہوتا ہے جہاں مرد و زن کے اکھٹے بیٹھنے، پیار و محبت کا اظہار کرنے، اور جنسی خواہش پوری کرنے پر کوئی قدغن نہیں یا ملاو¿ں کی آسمانی جنت، جہاں حور و قصور، شراب و کباب، اور عیش و نشاط کی ہر شئے میسر ہے لیکن موت کے بعد.

عرب میڈیا بھی اسی دوغلے پن یا منافقت کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے. ایک طرف ٹی وی پر شعلہ بیان علمائے دین لوگوں کو بے حیائی سے بچنے کی تلقین کرتے اور انھیں عذاب الٰہی سے ڈراتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف نیم عریاں لبنانی گلوکاروں کے پرسوز گانے اور بیلی ڈانسروں کے شہوانیت سے بھرپور رقص. لباس کے معاملے میں بھی یہی تضاد دیکھنے میں آتا ہے. ایک طرف برقعہ ہے جو عورت کے سارے جسم کو خیمے کی طرح ڈھانپ لیتا ہے. دوسری طرف باریک نقاب جس میں چہرے کے سارے خدوخال صاف نظر آتے ہیں. کچھ عورتیں سکارف کے ساتھ پتلی جینز یا چست پتلون بھی پہنتی ہیں. ساحل سمندر پر تو اکثر برقعہ اور بکنی میں ملبوس عورتیں آمنے سامنے ہوتی ہیں.

اسلامی دنیا میں ماہر جنسیات یا جنسی امراض کے معالج نہ ہونے کے برابر ہیں. جو ہیں ان کی ہدایات پر شاید ہی کوئی بندہ عمل کرتا ہے. لہذا انسانی جسم، جنس، اور محبت کے موضوعات پر مذہب کے محافظوں یا خدائی فوجداروں کی مکمل اجارہ داری ہے. انٹرنیٹ اور مذہبی ٹاک شو پر ان کے خطبات اس دنیا میں سیکس کو ہیبت ناک بنا کر پیش کرتے ہیں. البتہ جنّت کی منظر کشی اور حوروں کے خدوخال بیان کرتے ہیں تو وہ فحش نگاری کی ساری حدیں پار کر جاتے ہیں. ان کے جاری کردہ فتوے بھی مضحکہ خیز ہوتے ہیں. مثلاً میاں بیوی کپڑے اتار کر ہم بستری مت کریں. عورتیں کیلے کو ہاتھ نہ لگائیں. کوئی مرد اپنے ساتھ ایک ہی آفس میں کام کرنے والی عورت سے صرف اس صورت میں بات چیت کر سکتا ہے اگر وہ عورت اسے اپنا دودھ پلا کر اپنا بیٹا بنا لے. ہیجان اور شہوت صرف شادی کے بعد ہی قابل قبول ہے یا پھرمرنے کے بعد. پہلی صورت میں بھی ان مذہبی احکامات کی تعمیل لازم ہے جن کا مقصد جنسی خواہشات کو دبانا ہے.

سیکس یا جنس پر اس قدر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود یہ امر حیران کن ہے کہ سیکس عرب دنیا میں ہر جگہ موجود ہے. جنّت اور اس کی حوریں مذہبی مبلغین کا پسندیدہ موضوع ہے. بقول ان کے آخرت کی یہ لذتیں اور مسرتیں صرف ان لوگوں کو بطور انعام ملیں گیں جو دنیا میں خود کو ان لذتوں سے محروم رکھیں گے. خودکش بمبار انہی جنسی لذتوں کے سحر میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور یقین کر لیتے ہیں کہ غلبہ شہوت کا اصل لطف مرنے کے بعد آئے گا. لہذا وہ زندہ رہنے اور محبت کرنے کو نہیں، مرنے کو افضل سمجھتے ہیں.

اہل مغرب نے بدیسیوں یا غیر ملکیوں کو اپنانے کے معاملے میں بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے. حتیٰ کہ وہ ان کے غلط رویوں کا بھی کوئی جواز تلاش کرکے انھیں نظر انداز کر دیتے ہیں. مشرقیت یا تمدن مشرق کے اثرات کا نتیجہ ہے کہ تمدنی یا ثقافتی اختلآفات اور ان میں موجود برائیوں سے در گزر لیتے ہیں. شہرزاد اور حرم سرا کی داستانیں پڑھ کر اور بیلی ڈانس دیکھ کر وہ مسلم عورتوں کی حالت زار سے نظریں چرا لیتے ہیں. لیکن اب مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے آنے والے مہاجرین کے ریلے نے اہل مغرب کی آنکھوں سے پردہ ہٹا دیا ہے. اب ان کے لئے عرب دنیا میں مرد و زن کے درمیان غیر صحت مند تعلقات سے نظریں چرانا ممکن نہیں رہا.

مدتوں پہلے اہل مغرب جو تماشے اور نظارے دور کے ملکوں میں دیکھتے تھے اب وہ انھیں دو مختلف تہذیبوں یا تمدنوں کے تصادم کی شکل میں اپنی سرزمین پر ہوتے دیکھ رہے ہیں. وہ اختلافات جنہیں اہل مغرب فاصلے اور احساس برتری کے زعم میں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اب ایک خطرہ بن کر ان کے سروں پر منڈلا رہے ہیں. اس انکشاف نے کہ مسلم خصوصاً عرب دنیا میں جنس ایک روگ بن چکی ہے، اہل مغرب کو خوف و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے. وہ پریشان ہیں کہ کہیں عربوں کی جنسی منافقت ان کی معاشرت میں سرایت نہ کر جائے۔

(الجزائر سے تعلق رکھنے والے ناولسٹ اور صحافی داﺅد کامل فرانس میں مقیم ہیں اور ’روزنامہ وہران‘ (Le Quotidien d\’Oran) کے مدیر ہیں، ان کا زیر نظر مضمون نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ ’ہم سب‘ اس مضمون کے ترجمے کے لئے محترم زبیر حسین کا شکر گزار ہے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments